بہاولپور (کرائم سیل) پولیس فورس میں افسران کی سخت پالیسیاں اور ناقص ورکنگ کنڈیشنز نے خطرناک صورتحال پیدا کر دی۔ گھروں سے دور تعیناتیاں، 24 گھنٹے تک ڈیوٹی، آرام اور نیند کی کمی، مناسب کھانے اور سہولیات کا فقدان — یہ سب عوامل پولیس افسران اور جوانوں کو تیزی سے نفسیاتی مریض بنا رہے ہیں۔قانونی اور میڈیکل ماہرین کے مطابق اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولیس افسران کا رویہ عوام، سائلین اور حتیٰ کہ ملزمان کے ساتھ بھی غیر انسانی اور جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ: نیند پوری نہ ہونا (Sleep Deprivation)غیر متوازن ڈیوٹی سسٹم۔بار بار کے تبادلے اور گھروں سے دوری۔ مناسب غذا اور آرام کا فقدان۔یہ تمام عوامل پولیس اہلکاروں میں Stress Disorder، Aggressive Behavior، Anxiety اور Depression کو جنم دیتے ہیں۔ دنیا بھر کی ریسرچ کے مطابق اگر کسی شخص کو مسلسل نیند پوری نہ ملے تو اس کے رویے میں چڑچڑاہٹ، فیصلوں میں غلطی، بے قابو غصہ اور یادداشت کی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔اسی نفسیاتی دباؤ کے باعث اکثر پولیس افسران ملزمان اور سائلین سےگالم گلوچ اور تشدد کرتے ہیں، جس سے نہ صرف انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں بلکہ پولیس فورس کا امیج بھی خراب ہوتا ہے۔نفسیاتی ماہرین ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس کو فوری طور پر اپنے افسران اور اہلکاروں کے لیے نفسیاتی اسکریننگ، کونسلنگ سیشنز، ریفریشمنٹ کورسز اور ریگولر میڈیکل چیک اپ لازمی قرار دینا چاہیے۔عوامی اور سماجی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ آئی جی پنجاب دیگر مسائل کی طرح اس سنگین مسئلے کو بھی سنجیدگی سے دیکھیں اور پولیس اہلکاروں کی ذہنی صحت کے لیے خصوصی پروگرام اور پالیسی مرتب کریں، تاکہ پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی بہتر انداز میں انجام دے سکیں اور عوام کو انصاف فراہم ہو سکے۔
