ایک اندوہناک واقعہ نے جنوبی پنجاب کے شہر مظفرگڑھ کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جہاں ایک 17 سالہ لڑکی نے مبینہ طور پر زیادتی اور حمل کے باعث خودکشی کر لی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، متاثرہ لڑکی نے اپنے والد اور بڑی بہن کو بتایا تھا کہ تقریباً دو ماہ قبل اس کے سگے ماموں اور کزن نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی۔ اس المیے کے بعد، لڑکی کی لاش شام چار بجے کے قریب ملی۔ والد کی جانب سے دی گئی ایف آئی آر میں واضح طور پر لڑکی کے حمل کو اس کی خودکشی کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے، اور ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس واقعے کی نوعیت صرف مجرمانہ نہیں بلکہ تہذیبی اور اخلاقی گراوٹ کی علامت بھی ہے۔ جب وہ جگہ جو بچے کے لیے سب سے محفوظ سمجھی جاتی ہے، یعنی گھر، ایک قید خانہ اور ظلم کی آماجگاہ بن جائے، تو یہ کسی فرد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا جرم ہوتا ہے۔ اس کیس میں جس بات نے سب سے زیادہ لرزہ طاری کیا ہے، وہ یہ ہے کہ مظلومہ کے مجرم اس کے اپنے قریبی رشتہ دار تھے۔ ایک طرف رشتہ داری اور خاندان کے بندھنوں پر اعتماد، اور دوسری جانب انہی بندھنوں کی تاریکی میں چھپے درندے—یہ وہ تضاد ہے جس نے نہ صرف ایک لڑکی کی جان لے لی، بلکہ ہماری اجتماعی اخلاقی حس کو بھی چیلنج کیا ہے۔
پاکستان میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق، زیادہ تر کیسز میں مجرم وہی ہوتے ہیں جو بچے کے لیے جانے پہچانے چہرے ہوتے ہیں—رشتہ دار، ہمسائے یا قریبی دوست۔ گزشتہ ماہ بہاولپور میں ایک 11 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعے میں بھی دو ملزمان اس کے ماموں نکلے۔ یہ سلسلہ صرف اتفاقات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مستند رجحان بن چکا ہے۔
مظفرگڑھ کے اس کیس میں پولیس نے فوری طور پر ملزمان کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا ہے، اور ضلعی پولیس افسر نے یقین دہانی کروائی ہے کہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس لڑکی کی جان بچائی جا سکتی تھی؟ کیا اسے ایسا سہارا میسر آ سکتا تھا کہ وہ اپنی جان لینے کے بجائے انصاف کی جنگ لڑتی؟ اگر اس کے پاس کوئی محفوظ اور ہمدرد نظام ہوتا، تو شاید وہ آج زندہ ہوتی۔
جنوبی پنجاب جیسے علاقوں میں جہاں قبائلی روایات، مذہبی شدت پسندی اور پدرسری نظام مل کر عورت کی شناخت کو مٹاتے ہیں، وہاں ایسے سانحات کوئی حیران کن خبر نہیں بلکہ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہاں عزت کو زندگی سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے، اور جب کوئی لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہو، تو اسے انصاف دلانے کے بجائے خاموشی اور شرمندگی کے لبادے میں چھپایا جاتا ہے۔ یہی خاموشی لڑکیوں کو خودکشی کی راہ پر لے جاتی ہے۔
اس خاموشی کے پیچھے صرف خوف نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی عدم ہمدردی بھی ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو یہ سکھایا ہی نہیں کہ جسمانی خودمختاری، رضامندی اور عزت کیا ہوتی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے اس پر خاموش ہیں، ہماری مساجد اس پر بات کرنے سے کتراتی ہیں، اور ہمارا میڈیا اکثر سنسنی پھیلانے میں مصروف رہتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ مسائل کی جڑ تک پہنچے۔
قانون سازی کی سطح پر بھی ہماری کوششیں ناکافی ہیں۔ اگرچہ پنجاب میں ’پنجاب ڈیسٹیٹیوٹ اینڈ نیگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ‘ اور وفاقی سطح پر ’زینب الرٹ بل‘ جیسے قوانین موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ نہ تو بچوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں
مظفرگڑھ کے سانحے کا اصل المیہ وہ سماجی شرم ہے جو ہمیشہ متاثرہ فرد پر عائد کی جاتی ہے، کبھی مجرم پر نہیں۔ جنسی زیادتی کے نتیجے میں جب کوئی لڑکی حاملہ ہو جائے، تو وہ اپنی تکلیف کا بوجھ صرف جسمانی یا ذہنی سطح پر نہیں، بلکہ ایک زہر آلود سماجی تہمت کے طور پر بھی اٹھاتی ہے۔ یہ شرم اصل جرم سے زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہے۔ یہ وہ نام نہاد “عزت” ہے جس کا سارا بوجھ مظلوم کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے، اور جسے بچانے کے لیے خاندان، محلہ، حتیٰ کہ ریاستی ادارے بھی جرم کو چھپانا بہتر سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے، اور اگر ہوتے بھی ہیں تو یا تو دباؤ میں آ کر متاثرہ فرد کو چپ کرا دیا جاتا ہے، یا کسی غیر رسمی جرگے کے ذریعے صلح کروا دی جاتی ہے، جو بیشتر اوقات زیادتی کے مجرم سے شادی پر منتج ہوتی ہے—گویا ایک اور سزا۔ جب معاشرے کا ہر ستون—علماء، رشتہ دار، ہمسائے، حتیٰ کہ پولیس—اس خاموشی کی سازش کا حصہ بن جائیں، تو متاثرہ افراد کے لیے انصاف کا راستہ خواب بن کر رہ جاتا ہے۔
یہ ثقافت صرف خوف کی بنیاد پر قائم نہیں، بلکہ ہمدردی کے مکمل فقدان پر کھڑی ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو یہ سکھایا ہی نہیں کہ رضامندی، خودمختاری، اور مساوات کے اصول کیا ہیں۔ ہمارے اسکولوں میں جنسی تعلیم کا تصور ناپید ہے، ہماری مساجد میں کبھی کبھار خواتین کے حقوق پر گفتگو ہوتی ہے، لیکن جنسی استحصال جیسے موضوعات پر مکمل خاموشی ہے۔ ہمارے میڈیا پر جب ایسے واقعات زیر بحث آتے ہیں تو اکثر متاثرہ لڑکی کے لباس، کردار، یا حرکتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، گویا وہ خود قصوروار ہو۔
میڈیا ایسے سانحات کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، مگر اکثر یہ کردار دو دھاری تلوار ثابت ہوتا ہے۔ ایک طرف تو یہ ان واقعات کو قومی سطح پر سامنے لا کر بحث کا حصہ بناتا ہے، جو بصورتِ دیگر دفن ہو جاتے۔ لیکن دوسری جانب، میڈیا اکثر سنسنی خیز تفصیلات کے پیچھے پڑ جاتا ہے، متاثرہ فرد کی نجی زندگی کو اجاگر کرتا ہے، اور بغیر کسی حساسیت کے رپورٹنگ کر کے ثانوی طور پر مزید نقصان پہنچاتا ہے۔
ہمیں ایک ایسے میڈیا کی ضرورت ہے جو نہ صرف ان واقعات کو ذمہ داری سے رپورٹ کرے بلکہ ان کے پیچھے موجود نظامی خامیوں کو بھی اجاگر کرے۔ ایک ایسا میڈیا جو صرف جرم کی تفصیل سنانے تک محدود نہ ہو، بلکہ متاثرین کی آواز بنے، ان کے مسائل، ان کے درد اور ان کے مطالبات کو بیان کرے۔ جو مجرموں کے چہروں سے نقاب ہٹائے، اور جو ریاستی اداروں سے سوال کرے: انصاف کہاں ہے؟
ایک باشعور میڈیا ہی وہ طاقت ہے جو خاموشی کی اس دیوار کو توڑ سکتا ہے، جو متاثرین کو تنہا کرتی ہے۔ لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ میڈیا بھی خود احتسابی اختیار کرے، سنسنی سے زیادہ انسانیت کو فوقیت دے، اور رپورٹنگ کے دوران متاثرہ فرد کی عزتِ نفس کو ہر حال میں مقدم رکھے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ کوئی بیٹی خودکشی پر مجبور نہ ہو، تو ہمیں شرم کو ہتھیار بنانے والے اس کلچر کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ خاموشی کو توڑنا ہوگا، اور انصاف کو عزت کے نام پر قربان کرنے کے اس سلسلے کو روکنا ہوگا۔ یہ وقت ہمدردی، تعلیم، اور اجتماعی بیداری کا ہے—ورنہ ہم صرف خبر لکھتے رہیں گے، اور بیٹیاں مرتی رہیں گی۔
