بے’’ادب‘‘ اورسپرنووا ودیگرافسانے
رات کودفترسےفارغ ہوکردوستوں سےملاقات کےبعدرات کولیٹ گھر پہنچا ۔ کھانا کھا کر سوتےسوتےرات کےڈھائی پونےتین بج گئے ۔ ساڑھےچاربجے پھرآنکھ کھل گئی۔اللہ کو یاد کرنےکےبعدموبائل اٹھاکرگھنٹوں سکرین کو اوپر نیچے کرتارہامگرنیندنہ آئی۔دوپونےتین گھنٹےسوکرہی نیندآنکھوں سےکوسوں دورجاچکی تھی۔موبائل کے مسلسل استعمال سے بیٹری لوکی علامت آکر بیٹری کا نشان سرخ ہوچکاتھا۔موبائل کوچارجنگ پر لگا کر سوچااب کیاکروں؟سوچاآج کچھ پڑھ لیا جائے ۔کمرے کی بک شیلف پرسب سے آگے رکھےافسانوں کے مجموعے ’’سپرنووا و دیگر افسانے‘‘کواٹھایاچارپائی پررکھ کرپہلےچائےبنائی اوراس میں ڈبل روٹی کے دوسادہ ٹکڑے ڈبوڈبوکرکھاکرناشتے کامزہ لیا۔آدھی سے زیادہ چائے توڈبل روٹی کے پیس ہی پی گئے تھے سوبچی کچھی چائے میں نے پی لی اوراللہ کاشکراداکیا۔
دانش صاحب جنہیں ادب وصحافت کی دنیا میں الیاس دانش کے نام سے جاناجاتاہے میرے محسن و استادہیں۔صحافت اورایڈیٹنگ کےشعبے میں کانٹےدارسرخیاں بنانے کافن انہی سے سیکھا۔
2012میں جب میں پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے سے منسلک ہواتو جاناکہ الفاظ سے کیسے کھیلاجاتاہے۔اس دوران انکی رہنمائی اورشفقت ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔وقت تیزی سے گزرا اورپھر2015 میں ملتان سے شروع ہونےوالے ایک نئے اشاعتی ادارے سے منسلک ہوگیا۔ انہوں نے روکنےکی حتی المقدور کوشش کی اوراس کے بعد دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔اسکے بعد میں ایک اورادارے سے منسلک ہوگیا۔ادارے ضروربدلےمگرمحبتیں نہیں بدلیں۔دانش صاحب سے اسکے بعدبھی کبھی کبھار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔میڈیامیں ڈائون سائزنگ کی وجہ سے بیروزگاری بھی کاٹنی پڑی۔پھراللہ نے کسی اورصحافتی ادارےمیں رزق لکھ دیا۔معاش کیلئے ہجرت بھی کی۔فکرمعاش میں ان سے رابطہ کم ہوتاگیامگروہ ہر خوشی کےتہوار اوربالخصوص سالگرہ کے دن پرضروریادرکھتے اورواٹس ایپ گروپس،فیس بک کے علاوہ الگ سے ان باکس میسج بھی کرتے۔بات ہورہی تھی ’’سپرنووودیگرافسانے‘‘کی،چلی کہیں سے کہیں گئی ’’سپرنوو ا ودیگرافسانے‘‘پرتاثرات لکھنامجھ پرفرض بھی تھا اور قرض بھی تھا مگر ۔۔۔ہائے رے بے ’’ادبی‘‘،اس تحریرکاعنوان ’’بےادب‘‘ رکھا ہی اسلئے ہےکہ ہم علم وادب سے دورہوچکے ہیں زندگی بھی مشینی اور مصروفیات بھی مشینی۔۔۔ہم موبائل اورکمپیوٹرکے نشئی بن گئے ہیں۔صحافت بھی اب ڈیجیٹل ہوگئی ہے ۔قلم،بال پین کے بجائے اب کمپیوٹراورموبائل سے ہی کمپوزنگ کا سہارا لیا جاتا ہے اس تحریر کا عنوان بے‘‘ادب‘‘ اسلئے بھی رکھاکہ تمام ترکوششوں کے اس کتاب سے چندافسانے ہی پڑھ سکاہوں۔جن پرروشنی اگلی سطورمیں ڈالوں گا۔
بے‘‘ادب‘‘ اسلئے بھی کہوں گا کہ جب یہ کتاب وصول کرتے ہوئے دانش صاحب سے کہاکہ سراس پرکوئی نصیحت لکھ دیں توانہوں نے ہنستے ہوئے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا نصیحت بس یہی ہے کہ اسے پڑھ لینا۔وہ بات سچ ہی ثابت ہوئی لیکن اب جب پڑھناشروع کیاہے تو ایک کے بعدایک افسانہ جاری ہے۔کہتے ہیں کہ پیاساکنویں کےپاس چل کرجاتاہے لیکن اس کتاب کے تحفے کے معاملے میں اسکے برعکس ہوا۔انہوں نے دوتین بارملاقات اور میرا تحفہ ’’سپرنووااوردیگرافسانے‘‘ دینے کیلئے رابطہ کیا مگر صدافسوس میری گھرمیں عدم موجودگی کی وجہ سے ہربارملاقات نہ ہوسکی۔وہ سال گزشتہ کی ہفتے کے روزکی ایک حبس زدہ شام تھی۔ایک مشترکہ دوست کے ساتھ دانش صاحب سے ملاقات کا وقت لیا اورانکے دولت کدہ پرجاپہنچے۔کئی سال بعد ملاقات ہوئی۔وقت نے ہردوطرف ’’تبدیلی آئی رے‘‘ کانظارہ دکھایا۔میرے بالوں میں چاندی اتر آئی تھی جبکہ انکے بالوں کی جگہ چاند اتر آیا تھا انہوں نےگرمجوشی سے استقبال کیا اور ورک فرام ہوم کی دفتری مصروفیات سے وقت نکال کرچائے کے ڈھابے پرلے پہنچے۔خاطر تواضع کی۔مختلف موضوعات پر گھنٹوں گفتگوچلتی رہی۔جب اجازت طلب کی انہوں نے کافی عرصے سے امانتاً رکھی کتاب ’’سپرنووااوردیگرافسانے‘‘ میرے حوالے کر دی جس پرپہلے سے تحریرشدہ تھا’’پیارے اور جذباتی دوست غلام دستگیرچوہان کیلئےبےپناہ محبتوں کےساتھ۔دانش‘‘۔میں نے کہا سر اس پر کوئی نصیحت بھی لکھ دیں تووہ ہنستے ہوئے بولے ’’ نصیحت بس یہی ہے کہ اسے پڑھ لینا‘‘ دیرآید درست آید،اس نصیحت پراب جاکر عمل شروع کردیاہے۔ امیدہے انکے افسانوں کی نئی کتاب مارکیٹ میں آنے تک اس پرعمل ہوجائے گا۔
100لفظوں کی کہانی کی طرح دانش صاحب کے افسانے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔’’مٹھی بھرمٹی‘‘،’’60فٹ روڈ‘‘،’’سپرنووا‘‘ اور’’کافر‘‘ پڑھ چکا ہوں۔ان افسانوں میں جوعلامتیں اورتشبیہات استعمال کی گئی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔کچھ افسانوں میں زبان تھوڑی مشکل استعمال کی گئی ہے مگربغورپڑھاجائے توبھرپورچاشنی ملتی ہے۔میرے ساتھ اکثرایسا فلم دیکھتےبھی ہوتاہے۔ماضی اورحال کی کہانیوں میں گھمانے کی وجہ سے پہلی بارفلم سمجھ نہیں آتی۔دوبارہ دیکھنے کے بعدسمجھ میں پوری کہانی آجاتی ہے۔اسی طرح سپرنوواکے افسانے اگرچہ ابھی تک کم تعدادمیں پڑھے ہیں لیکن اس بہانے انہیں کئی کئی بارپڑھ چکاہوں۔’’سپرنووا‘‘ اور’’کافر‘‘ نے دل چھولیا۔دونوں افسانے عشق مجازی اورعشق حقیقی کی بہترین تصویرکشی کرتے ہیں۔’’سپرنووا‘‘ مغربی معاشرے کی مشینی زندگی میں میاں بیوی کے دورہوتےرشتے کی کہانی ہے۔وہاں نفسانفسی اورمصروفیات کی وجہ سے ایسا ہورہاہے لیکن یہ حقیقتاًہمارے مشرقی اوربالخصوص پاکستانی معاشرے کی جیتی جاگتی کہانی ہے۔
ہمارے معاشرے میں معاشی،گھریلو مسائل،بچوں ودیگر مصروفیات کے باعث میاں بیوی کارشتہ گھرداری اورکمائی تک محدودہوکررہ گیاہے۔میاں بیوی ایک گھر میں رہتےہوئے بھی اجنبی اور روبوٹ بن گئے ہیں۔احساسات،جذبے برف بن کررہ گئے ہیں۔اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ میاں بیوی کوبھی اپنی محبت اورجذبوں کاسافٹ ویئراپ ڈیٹ کرتے رہناچاہئے۔’’کافر’’ وہ افسانہ ہے جوہمارے متشدد مذہبی رویوں کی عکاسی کرتاہے۔ہر شخص نے اپنی شریعت کالبادہ اوڑھ رکھا ہے اوراپنی پسندناپسندکے احکامات خودپراوردوسروں پرمسلط کررکھے ہیں۔اس افسانے میں ان متشدد رویوں کوقدرے آسان زبان میں سمودیاگیاہے۔حقیقتاًان دونوں افسانوں کوپڑھ کربہت مزا آیا۔دیگرافسانے بھی اچھے ہیں لیکن وہ تصوراتی دنیا میں لے جاتے ہیں ،یہ دونوں افسانے ہماری حقیقی زندگی کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ان دونوں افسانوں نے جھنجھوڑکررکھ دیاہے۔
مجھ ناسمجھ کوجتناسمجھ میں آیا قلم اٹھاکرلکھ دیا۔اب ہاتھوں کی بیٹری ڈائون ہوچکی ہے اورموبائل کی بیٹری چارج ہوچکی ہے۔اب ذرااس سے بھی ’’ہتھارولی‘‘ کرنی ہے۔زندگی رہی اورذہن وقلم نے ساتھ دیاتوان شااللہ اس موضوع پر آئندہ بھی لکھوں گا۔اب تک کیلئے اتناہی کافی ہے۔