پاکستان ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سیکیورٹی، معیشت اور سیاسی استحکام بیک وقت دباؤ میں ہیں۔ ایسے میں صوبوں کے درمیان یکجہتی اور باہمی اعتماد قومی بقا کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کے منصوبوں اور سیلابی امداد کے معاملے پر پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی اس ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کی طرف سے متنازعہ نہری منصوبوں کا جس انداز میں دفاع کیا گیا ہے، وہ محض ایک ترقیاتی مسئلے سے بڑھ کر ایک سیاسی بیانیے کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کا کہنا کہ اگر پنجاب اپنے حصے کے پانی سے نہریں تعمیر کرتا ہے تو کسی اور کو اس پر اعتراض کا حق نہیں، محض ایک انتظامی وضاحت نہیں بلکہ ایک جارحانہ طرزِ سیاست کی علامت ہے۔ جب انہوں نے سندھ کے رہنماؤں کو ان کے “دروازوں پر جا کر جواب دینے” کی بات کی، تو یہ ایک ایسی سیاسی لہر کو جنم دینے کا آغاز تھا جس کی بازگشت نہ صرف ایوانوں میں سنائی دی بلکہ عوامی سطح پر بھی اضطراب پیدا ہوا۔یہ طرزِ سیاست کوئی نئی بات نہیں۔ یہ وہی انداز ہے جس کی بنیاد 1980 کی دہائی میں نواز شریف نے صوبائی خود مختاری کے لبادے میں رکھی تھی، جس کے ذریعے وہ پنجاب میں اپنی گرفت مضبوط کرتے رہے۔ اب یہی بیانیہ ایک نئی نسل کے ہاتھوں میں آ چکا ہے، جو شاید وقتی سیاسی فائدے تو حاصل کر لے، مگر اس کے مضمرات قومی سطح پر بہت سنگین ہو سکتے ہیں۔پانی کا مسئلہ پاکستان میں سب سے حساس اور تاریخی طور پر متنازعہ موضوع رہا ہے۔ سندھ طویل عرصے سے یہ شکایت کرتا آیا ہے کہ پنجاب اپنے اثرورسوخ کے ذریعے دریائے سندھ کے پانی پر زیادہ حق جتاتا ہے، جبکہ نچلے دریا کے حصے میں بسنے والے کسان پانی کی قلت سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر وفاقی حکومت کسی مشترکہ اتفاق رائے کے بغیر نہری منصوبوں کی اجازت دے دیتی ہے، یا ایک صوبے کی قیادت دوسرے صوبے کے تحفظات کو “مداخلت” کہہ کر رد کر دیتی ہے، تو یہ ملک کے اتحاد کے لیے خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کا یہ فیصلہ کہ ان منصوبوں کو وقتی طور پر روک دیا جائے، بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملہ کس قدر نازک اور متنازعہ ہے۔ اس فیصلے کو نظر انداز کر کے، یا اسے سیاسی مداخلت سمجھ کر مسترد کرنا، نہ صرف وفاقی ڈھانچے کے خلاف عمل ہے بلکہ ایک ایسی نفسیاتی دیوار کھڑی کرنے کے مترادف ہے جو صوبوں کے درمیان اعتماد کو دیمک کی طرح کھا جائے گی۔اسی طرح، پنجاب میں سیلابی متاثرین کی مدد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے امداد فراہم کرنے کی تجویز کو بھی محض سیاسی چال قرار دینا افسوسناک ہے۔ اگرچہ بی آئی ایس پی کا نظام ہر مسئلے کا مکمل حل نہیں، اور اس کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے دائرہ کار، شفافیت اور تجربے کو یکسر مسترد کرنا بھی ایک تنگ نظری پر مبنی فیصلہ ہے۔ اگر کسی تجویز پر عملی اعتراض ہو، تو اسے بہتر متبادل کے ساتھ مسترد کیا جانا چاہیے، نہ کہ اس پر الزام تراشی کی بنیاد پر۔یہ سیاسی رویہ اس وقت اور بھی زیادہ قابلِ غور ہو جاتا ہے جب اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ مریم نواز خود کو مستقبل کی قومی قیادت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ایک ایسی قیادت جو پورے پاکستان کی نمائندگی کی دعویدار ہو، اس کے بیانات، طرزِ عمل اور حکمتِ عملی میں وسعتِ نظری، شائستگی اور بین الصوبائی حساسیت کا ہونا ناگزیر ہے۔ اگر آج صوبائی تعصب کو ہوا دی جاتی ہے تو کل یہی تعصب کسی اور صورت میں واپس آ کر خود اس قیادت کے سامنے چیلنج بن سکتا ہے۔موجودہ سیاسی حالات میں جہاں ملک معاشی بحران سے دوچار ہے، دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، اور عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کے شکنجے میں ہیں، وہاں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں قومی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جیسے بڑے اتحادی اگر آپس میں ہی باہم دست و گریباں ہوں گے، تو ملک میں عوامی اعتماد کی فضا مزید مسموم ہو جائے گی۔پارلیمان میں ان دونوں جماعتوں کے درمیان ہونے والی حالیہ تلخ کلامی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مسئلہ صرف پانی کا نہیں، بلکہ اعتماد کے فقدان، ذاتی مفادات، اور اقتدار کی سیاست کا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت اور بھی تشویشناک ہو جاتی ہے جب اس کا فائدہ پاکستان مخالف قوتیں اٹھائیں اور اسے بین الصوبائی تفریق کا رنگ دے کر قومی وحدت کو مزید نقصان پہنچائیں۔پنجاب کا ترقیاتی حق یقینی طور پر مسلمہ ہے، لیکن یہ حق دوسرے صوبوں کے ساتھ مشاورت، شفافیت اور توازن کے اصولوں کے تحت استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ تصور کہ پنجاب جو چاہے کرے، اور باقی صوبے خاموش رہیں، ایک خطرناک روش ہے جو ماضی میں بھی ملک کو مہنگی پڑ چکی ہے۔ 1971 کی تلخ تاریخ سے سبق نہ لینا، اور ایک بار پھر صوبائی بالادستی کے تصور کو فروغ دینا، آج کے پاکستان کے لیے زہرِ قاتل ہے۔صوبائی خودمختاری اور بین الصوبائی ہم آہنگی کا توازن صرف آئینی حدود میں ہی ممکن ہے۔ نہری منصوبے ہوں یا سیلابی امداد، ان پر فیصلے صرف ٹیکنیکل یا انتظامی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی حساسیت کو مدنظر رکھ کر کیے جانے چاہییں۔ قیادت کا اصل کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ تنازع سے پہلے اتفاق پیدا کرے، اور اگر اختلاف ہو بھی جائے تو اسے حکمت، تدبر اور شائستگی سے سلجھائے، نہ کہ آگ پر تیل ڈالے۔موجودہ حالات میں یہی مناسب ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنی صفوں کو درست کریں، اپنی قیادت کو ذمہ دار بیانات کی تلقین کریں، اور ایسے پلیٹ فارمز کو دوبارہ فعال کریں جہاں بین الصوبائی معاملات پر کھل کر بات ہو سکے، لیکن دروازے ہمیشہ مکالمے کے لیے کھلے رہیں۔ اگر اب بھی سنجیدگی نہ دکھائی گئی، تو محض نہریں نہیں، بلکہ سیاسی بند بھی ٹوٹ سکتے ہیں۔پانی کا مسئلہ صرف زمین کی سیرابی کا نہیں، اعتماد کی آبیاری کا بھی ہے۔ جب پانی کا بہاؤ منصفانہ نہ ہو، تو زمینیں بنجر ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جب سیاسی طرزِ عمل انصاف سے خالی ہو، تو قومیں اندر سے خالی ہو جاتی ہیں۔پاکستان کو آج ضرورت ہے اتحاد کی، وسیع النظری کی، اور ایسی قیادت کی جو تقسیم کے بجائے تعمیر پر یقین رکھتی ہو۔ وقت آ چکا ہے کہ سیاست دان اقتدار کے نہیں، اعتبار کے متلاشی ہوں۔ کیونکہ اعتبار کھو جائے تو اقتدار بے معنی ہو جاتا ہے۔
