آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

بیانیے اور بیانیوں کی کرشمہ سازی

روداد زندگی
ڈاکٹر ظفر چوہدری
3قسط نمبر


میں نے ابتدا میں سلیم صافی کے کالم سرمایہ کاری کیسے آئے گی؟ کا ذکر کیا تھا جس میں صافی صاحب نے بتایا تھا کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار متحدہ عرب امارات کا رخ کیوں کررہے ہیں کیونکہ وہاں پر جوبھی لبرل ، مذہبی یاغیر مسلم ہو وہ اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے ۔ہر ایک کو اپنے طریقے سے جینے کی آزادی حاصل ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کی ذہانتوں اور سرمایے کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے ۔ یہی حال ترکی ، ملائیشیا کا ہے اور سعودی عرب میں دبئی ماڈل کے مطابق شہر بسائے جارہے ہیں ۔ ہم نے اپنے ملک کے ساتھ اسلامی ٹچ جہادی اور مذہبی بیانیوںکی وجہ سے جو سلوک کیا اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم متحدہ عرب امارات سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ 1974-75 میں بھٹو کے دور حکومت میں کراچی میں کیسینو( جوا خانے) اور نائٹ کلب بنانے کا کام شروع ہوا تو ہنگامہ کھڑا کردیا گیا اور وہ بھٹو کا کراچی کو جدید کاسموپولیٹن شہر بنانے کا خواب ادھورا رہ گیا ۔ وہی ذوالفقار علی بھٹو جس نے اپنے ہاتھوں پھانسی کا پھندا قبول کیا تھا۔وہی بھٹو بی این اے کی امریکی ڈالروں کی بنیاد پر اپنے خلاف تحریک کے دوران نظام مصطفیٰ کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کیلئے شراب پر پابندی لگانے پر مجبور ہوگیا ۔ پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں مسلم دنیا کے ابھرتے ہوئے تین جدید شہر یعنی کراچی، کابل اور بیروت تباہ کر دئیے گئے۔ اس کی جگہ متحدہ عرب امارات، ترکی، ملائیشیا کو امریکی سامراج نے اپنی سرپرستی میں ترقی دی کیونکہ قیادت مذہبی جنون کے زیر اثر نہیں آئی۔ سلیم صافی کے کالم کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ وہ عام طور پر مذہبی رجحان رکھنے والوں یعنی دائیں بازو کے کالم نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ سلیم صافی کے خیالات کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے ’’ہائے اس زود پشیماں کاپشیماں ہونا‘‘۔
عمران خان کے دور کے بیانیوں کے بارے میں عرض کرنے سے پہلے ان کی گزشتہ زندگی کے بارے میں عر ض کرنا چاہتا ہوں۔ جب عمران خان کرکٹ میں آئے تو وہ خوبصورت نوجوان تھے اور بہت شرمیلے سمجھے جاتے تھے مگر میرا خیال ہے کہ وہ پنجابی زبان کے مطابق بنائوٹی تھے اس کا مجھے کوئی ترجمہ سمجھ نہیں آیا۔ ایسے سمجھ لیںجو وہ نظر آتے وہ نہیں تھے ۔ پنجابی کا دوسرا لفظ ایسے بندوں کےلئے استعمال ہوتا ہے وہ کھوچل ہے۔ انہوں نے کمال مہارت سے اپنے ظاہری حسن اور کرکٹ کے نامور کھلاڑی کی حیثیت سے پلے بوائے کی زندگی گزاری جس کا وہ اقرار بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے ورلڈ کپ کی جیت کو پوری ٹیم کی بجائے بڑی مہارت سے اپنی ذات میں سمولیا۔اپنی پرکشش شخصیت کو اپنی مارکیٹنگ کیلئے بھرپور طریقہ سے استعمال کیا ۔خود پسندی اور تکبر ان کی ذات کیلئے لازم و ملزوم ٹھہرے ۔ہماری مقتدرہ نے جب عمران پراجیکٹ پر کام شروع کیا تو وہی شرمیلا عمران خان2011 کے جلسے کے بعد روزانہ قوم کو لیکچر دینے لگا کہ چور ڈاکوئوں سے کیسے نجات دلانی ہے۔ معیشت کیسے بہترکرنی، میرٹ پر کیسے عمل کرناہے ، پولیس اور انتظامیہ کی اصلاحات کرکے گڈ گورنس کیسے قائم کرنی ہے ۔پاکستان کو دنیا میں کیسے اعلیٰ مقام تک پہنچنانا ہے۔ اسد عمر کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی جو ملکی معیشت کو چند ماہ میں پٹڑی پر ڈال دےگی کا دعویٰ بھی کیا اور اس کے حواری فرمانے لگے عمران خان دوسو ارب ڈالرغیر ملکیوں سے لائے گا اور ایک ارب ڈالر قرض ان کے منہ پر مارے گا۔ اللہ اللہ کرکے عمران خان جولائی 2018ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے کیسے بنے اور 2018ء انتخابات میں کیا کچھ ہوا سب جانتے ہیں۔ پہلے تو عمران خان کی معاشی ٹیم جس کی سربراہی اسد عمر کررہے تھے کی کارکردگی عیاں ہوگئی پھر نہ جانے کس میرٹ پر عثمان بزدار اور وزیر اعلیٰ سرحد محمود خان کی تقرری ہوئی اس نےعمران خان کے رائٹ مین فار رائٹ جاب کے نعرے کا پول کھول دیا ۔رہی سہی کسر مرشد کی کرامات نے پوری کردی مگر عمران خان نے ایک کام بڑی مہارت سے کیا وہ تھا مقتدرہ کی سوشل میڈیا کی ٹیم جو چور ڈاکو کا بیانیہ لے کر چل رہی تھی اسے اپنے کنٹرول میں کرلیا ۔اسی ٹیم نے عمران خان کو ایک ریفارمر، مجتہد اور اوتار کے مقام پر فائز کیا تھا خان صاحب جانتے تھے قائد اعظم کی وفات کے بعد ہی سے حکمران اشرافیہ اس ملک میں اپنی تمام تر نااہلی کے باوجود صرف بیانیوں کی بنیاد پر کام چلارہی ہے۔لہٰذا خان صاحب دن میں چار سے پانچ گھنٹے اسی ٹیم کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اسی سوشل میڈیا ٹیم نے ناکامی کو کامیابی میں بدل دیا۔ وعدہ خلافی یا بد عہدی کو کسی بھی مذہب میںبرا سمجھا جاتا ہے مگر کمال دیکھئے یو ٹرن کو کسی بڑے لیڈر کی خوبی بناکر پیش کیا گیا۔ 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، جنگلہ بس وغیرہ کتنے ہی منصوبوں کا ذکر کیا جاسکتا ہے ۔لطف کی بات یہ ہے کہ جس مقتدرہ نے یہ پراجیکٹ بنایا تھا اس کے بنانے والے خود پریشان ہوگئے کہ ہم نے کیا بنادیا ہے کبھی آئی ایم ایف پر لعنت بھیجی گئی اور کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ خود کشی کرلوں مگر پھر اسی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور پھر آئی ایم ایف سے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے معیشت کا بیڑا غرق کیا ۔برادر ملکوں سعودی عرب، چین سے تعلقات خراب کئے جب مقتدرہ نے عمران پراجیکٹ سے ہاتھ اٹھانے کا فیصلہ کیا تو مقتدرہ کے دو بڑوں نے اپنی گیم بھی شروع کردی جس میں باجوہ صاحب کی مزید ایکسٹینشن اور جنرل فیض حمید کا چیف آف آرمی سٹاف بننے کا خواب شامل تھا۔ سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کی وجہ سے ہی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی مگر کچھ اطلاعات کے مطابق باجوہ صاحب نے اس تحریک کو ناکام بنانے کی بھی کوشش کی تھی مگر ہماری پارلیمانی تاریخ میں کسی حکومت کو آئینی اور جمہوری طریقہ سے پہلی بار تبدیل کیا گیا۔(جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں