قسط نمبر 1
تقریباً دو ماہ سے بقول غالب’’ یہ طبیعت ادھر نہیں آتی‘‘والا معاملہ میرے ساتھ تھا۔ لکھنے کو دل نہیں چاہتا تھا کہ اپنی روداد کیا لکھوں جبکہ پھر بقول غالب’’ ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے‘‘9 مئی سے 9 مئی تک کے کالم میں اس تماشے کے بارے میں کچھ عرض کیا تھا۔ پھر8 فروری کا بیانیہ زدہ تماشا برپا ہوگیا۔ جو کہ تاحال جاری ہے۔60/1950 کے عشرہ میں جو لوگ پیدا ہوئے وہ ان پتلی تماشوں کے چشم دیدہ گواہ ہیں۔ میں کچھ ماہ بعد اگر زندگی رہی تو 70 سال کا ہو جائونگا۔ پچھلے62/60 سال کے واقعات میرے سامنے ظہور پذیر ہوئے مجھے آج لکھنے کی تحریک سید وجاہت مسعود کے جنگ میں لکھے کالم’’تالاب گدلا ہوگیا ہے‘‘ پڑھ کر ہوئی ساتھ ہی سلیم صافی کا کالم’’ سرمایہ کاری کیسے آئے گی‘‘ نے دو آتشے کا کام کیا۔ وجاہت مسعود صاحب آج کے دور میں اردو کالم نگاری میں اپنے انداز بیاں اور نظریاتی وابستگی کی وجہ سے خاص پہچان رکھتے ہیں۔ انہوں نے انتہائی شائستگی سے آئین، بنیادی حقوق اور لبرل ازم کا ہر دور میں دفاع کیا ہے۔ سلیم صافی صاحب کا کالم پڑھ کر بے اختیار ذہن میں آیا۔ بہت دیر کردی مہربان آتے آتے‘‘ مزے کی بات یہ ہوئی کہ مجیب الرحمان شامی صاحب نے وجاہت مسعود صاحب کے لئے کالم کا جواب دیا ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے قرار داد مقاصد کے حق میں یہ دلیل دی ہے کہ کسی بھی اسمبلی میں اس پر اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔1973 کے آئین اور پھر جنرل ضیاالحق کے دور میں قرار داد مقاصد کوPreamber(ابتدائی مسودہ)سے اٹھا کر آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ کوئی معترض نہیں ہوا۔ یہ وہی شامی صاحب ہیں جنہوں نے ضیا الحق کو انتخابات ملتوی کر کے ملکی بیماریوں کی سرجری کا مشورہ دیا تھا اور پھر اس مشورے کے عوض خلعتیں پائیں ۔
میں پھر بھٹک گیا۔ جب قرار داد مقاصد1949 کو پیش کی گئی تواس وقت کے ’’غداران وطن‘‘ عبدالصمد اچکزئی، خان عبدالغفار درانی، جی ایم سید اور دوسرے ممبران کی تقریریں جو کہ سینہ بسینہ پہنچی ہیں اور شائد اسمبلی کے ریکارڈ میں بھی موجود ہوں۔ انہیں شائع کر کے قوم پر احسان کیا جائے۔
ان’’ غدار‘‘ رہنمائوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا کیا وہ حرف بہ حرف سچ ثابت نہیں ہوئے۔ وجاہت مسعود نے جو لکھا ہے وہ حرف بحرف بالکل سچ یعنی کڑوا سچ ہے۔ محمد علی جناح یعنی قائد اعظم کا پاکستان کے آئین بارے میں جو نظریہ تھا وہ 11 ستمبر1948 کی تقریر میں اسےواضح کر چکے تھے۔میں نے خود 1973ء میں ممتاز دولتانہ کا بیان پڑھا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کا نعرہ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے جذباتی نوجوان لگایا کرتے تھے۔ اسی لئے تو قائد اعظم کی کابینہ میں ہندو، پارسی، عیسائی اور دیگرتما م مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ سچ یہ ہے کہ قرار داد مقاصد مملکت پاکستان کے بنیادی نظریے کو غلط سمت دینے کیلئے لائی گئی جس پر جماعت اسلامی نے نظریہ پاکستان غلاف چڑھایا اور ضیاء الحق نے اس غلاف کو نظریاتی سرحدوں کا نام دے کر علم بنا دیا یہ بیانیے ریاست کی بنیاد کو کھوکھلا کرتے رہے اور جنرل ضیاء الحق سے پہلے جو تھوڑی بہت انسانی رشتوں پر مبنی رواداری کے حوالے سے جومعاشرتی روایات باقی تھیں ان کو بھی انتہائی محدود کر دیا گیا اور معاشرے کو نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔جسے ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ جنرل ایوب معاشی ترقی 1967 كکے آئین یعنی (Peraty) کے تحت ترقی پاکستان کی اکثریت کو مغربی پاکستان کی اقلیت کے برابر کر دیا گیا جس کے نتیجے میں بالآخر بنگلہ دیش بن گیا۔ جہاں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی ہم اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار ’’ ادھرتم اُدھرہم‘‘ کو ٹھہرایا حالانکہ ذو الفقار علی بھٹو نے یہ نہیں کہا تھا اور اس سرخی نے خالق عباس اطہر مرحوم ساری عمر یہ کہتے رہے کہ میں نے خبر کے مفہوم اپنی سوچ کے مطابق ترجما کر کے لگائی تھی اس بیانیے نے محمود الرحمن رپورٹ کو بھی پس پشت ڈال دیا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم (حمایت اسلامی) روزانہ ’’ ادھر تم اُ دھرہم‘‘ ہر کا راگ الاپتی رہتی تھی۔
ہاں یاد آیا افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد ہی جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں میںراتوں رات جہاد کا جذبہ اُمڈ آیا تھا اور اس خود ساختہ جذبہ جہاد کو ریاستی بیانیہ بنا کر قوم پر مسلط کر دیا گیا۔ آج غزہ میں معصوم بچوں ، بزرگوں، عورتوں اور جوانوں کے قتل عام مجاہدین ہو رہا ہے تو سوا ل یہ ہے کہ اور ان کے رہنما کہاں گم ہیں۔ احنان جہادکی بنیاد امریکی ڈالر تھے۔اسلامی جمعیت کی ڈنڈا فورس جن کی غیرت کسی لڑکی لڑکے کو ساتھ اکٹھے بیٹھا دیکھ کر جاگ جاتی تھی وہ عراق، شام، لیبیا، الجزائر، سوڈان میں در بدر لڑکیوں کی کسمپرسی پر خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ ویسے ان کا کوئی قصور بھی نہیں وہ تو اپنے ’’آقا ‘‘کے غلام ہیں جس طرح مرزا اسلم بیگ نے بتایا تھاکہ خانہ کعبہ میں سچ یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کا اللہ اور اللہ کے نبی سے بڑھ کر کوئی اور ہی آقا تھا اور یہی آقا افغانستان میں جہاد کرنے والوں کا بھی تھا اور شاید ہے بھی کا اللہ اور نبی کے علاوہ آقا کوئی اور تھا وہی ان کا آقا ہے۔ (جاری ہے)