آج کی تاریخ

بہاولپور محکمہ جنگلات میں احتساب نظام کمزور، افسروں سے ڈیل، سیاستدانوں پر ملبہ

بہاولپور (افتخار عارف سے)محکمہ جنگلات میں محکمانہ احتساب کا نظام انتہائی کمزور، اپنے ہی محکمہ کی جانب سے مقرر کیے گئے انکوائری افسران کی جانب سے بڑے پیمانے پر گھپلوں کی تحریری نشاندہی اور رپورٹوں کے باوجود کرپشن میں ملوث ملازمین اور انتظامی افسران کے گٹھ جوڑ کے جو ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق کرپٹ ملازمین کو اصل ریلیف انتظامی افسران کے ساتھ ڈیل (برابر کے حصہ وصولی) کی وجہ سے ملتا ہے جس کی وجہ سے انکوائری افسران کی سفارشات پس پشت ڈال دی جاتی ہیں لیکن ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ کرپشن میں ملوث ملازمین کو ریلیف سیاسی بنیادوں پر دیا جا رہا ہے تاکہ ملبہ سیاست دانوں پر ڈال دیا جائے یہی وجہ ہے کہ بہاولپور محکمہ جنگلات میں افسران کے سیاسی تعلقات کی آڑ لے کر لکڑی چوری اور دیگر شعبوں میں کرپشن عروج پر پہنچ چکی ہے۔لال سوہانرا سمیت مختلف رینجوں میں تعینات انتظامی افسران نے اپنے سماجی تعلقات اور ماتحت عملے کے ساتھ قریبی روابط اس حد تک بڑھا لیے ہیں کہ محکمہ جنگلات کی بربادی میں ملوث متعدد اہلکاروں کے خلاف ہونے والی انکوائریاں بھاری ڈیلز کے بدلے سردخانے کی نذر کر دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ جنگلات میں لکڑی چوری کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے شواہد موجود ہونے اور انکوائریوں میں کرپشن ثابت ہونے کے باوجود یہ افسران اپنے منظورِ نظر عملے کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرتے۔یہ کرپٹ اور کاریگر فارسٹ گارڈ اور بلاک افسر جیسے ملازمین اپنے مخصوص علاقوں میں لکڑی چوری کے منظم گروہ قائم کیے بیٹھے ہیں، جہاں انہیں افسران کی مکمل سہولت کاری حاصل رہتی ہے۔ روزنامہ “قوم” کو باوثوق ذرائع سے محکمہ جنگلات کے کئی کرپٹ ملازمین کے خلاف چلنے والی انکوائریوں کا ریکارڈ موصول ہوا ہے، جن میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے شواہد اور انکوائری افسران کی جانب سے تحریری سفارشات بھی موجود ہیں، ایک انکوائری کے ریکارڈ میں انکوائری افسر نے جنگلات کے عملے کی جانب سے بڑے پیمانے تقریباً 51٫63000 کا سرکاری نقصان پہنچانے پر ریکوری کے ساتھ پیڈا ایکٹ کی کارروائی کی سفارش کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی کی وجہ سے پودوں اور درختوں کا سوکھ جانا، پورے پورے جنگل میں درختوں کی کسی سٹینڈرڈ پر نمبرنگ نہ ہونا جیسی اہم سفارشات تحریر کی تاکہ جنگلات کے نقصان کو کم کیا جاسکے۔تاہم، ان سفارشات پر صرف اس لیے عمل نہیں کیا جاتا کہ اگر ان پر عمل ہوا تو کرپٹ عملے کے خلاف سخت کارروائی کرنا پڑے گی، جس سے حکومت کو بھی بڑے پیمانے پر فائدہ پہنچنے کے امکانات ہیں، مگر افسران یہ چاہتے ہی نہیں۔ اس لیے یہ افسران قصوروار ملازمین سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں نہ انہیں معطل کرتے ہیں نہ ان سے حکومت کا نقصان وصول کرتے ہیں اور نہ ہی ان ملازمین کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ ملازمین جنگلات کو بھاری نقصان پہنچا کر معمولی تنخواہیں لینے والے جنگلات ملازمین اس وقت قیمتی جائیدادوں کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک بن بیٹھے ہیں جن کے خلاف سینیئر وزیر پنجاب سیکرٹری جنگلات پنجاب چیف کنزرویٹر ملتان اور کنزرویٹر بہاولپور کو موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں