بہاولپور (قوم ریسرچ سیل) متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی کے باعث آن لائن گیمز میں جوئے کا بڑھتا ہوا رجحان سرگودھا کے بعد بورے والا کے ایک اور نوجوان کی جان لے گیا۔ بورے والا کے چک 457 ای بی کے نوجوان صائم علی کی ہلاکت کے بعد پولیس نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ آن لائن جوئے میں پیسے ہارنے اور بینک اکاؤنٹ خالی ہونے پر گھر والوں کے خوف سے صائم علی نے زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی جبکہ اس آن لائن جوئے کے نیٹ ورک کو بہاولپور سے آپریٹ کرنے والے چند سال قبل فقرے اور کنگال افراد آج تحقیقاتی اداروں کی مبینہ آشیرباد سے پورے پاکستان میں آن لائن جوئے کا سب سے بڑا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ حیران کن طور پراب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ انہیں متعلقہ اداروں کے چند انسپکٹر رینک کے افسران کی سرپرستی حاصل ہے۔متاثرین کی جانب سے متعدد شکایات کے باوجود ان عناصر کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ اعلیٰ حکام کو بھیجی گئی درخواستیں بھی نچلی سطح پر تعینات اہلکاروں کے پاس جا کر رک جاتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق متعلقہ ادارے ان عناصر سے ماہانہ نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر حصہ وصول کر رہے ہیںجس کی وجہ سے یہ نیٹ ورک بلا خوف و خطر اپنا دھندا جاری رکھے ہوئے ہے اور آن لائن پیسے ہارنے والے افراد خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اشرف بوہڑ اور اختر بوہڑجو کہ چند سال قبل بہاولپور میں نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھےاب آن لائن جوئے کے منظم نیٹ ورک کے سرغنہ بن چکے ہیں۔ انہیں بہاولپور کے ایک نام نہاد ٹاؤٹ ظفر بوہڑ کی مکمل معاونت حاصل ہے۔ ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ افراد اپنے کارندوں کامران عرف کامی اور راشدکے ساتھ مل کر ایک ایسا نیٹ ورک چلا رہے ہیں جس کی ڈوریں بیرونِ ملک تک پھیلی ہوئی ہیں۔ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ملک کے مختلف شہروں کے سادہ لوح شہریوں کا قیمتی ڈیٹا معمولی مالی فائدے کا جھانسہ دے کر حاصل کیا جاتا ہےاور پھر اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے مشتبہ ویب سائٹس کی ڈیلرشپ حاصل کی جاتی ہے تاکہ آن لائن جوا کروایا جا سکے۔اطلاعات کے مطابق اس گروہ نے اپنے روابط اتنے مضبوط کر لیے ہیں کہ متاثرین کی جانب سے کی جانے والی شکایات بھی ردی کی ٹوکری کی نظر ہو جاتی ہیں۔ نیٹ ورک کی نشاندہی کے بعد موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس نیٹ ورک کا مرکزی کردار اشرف بوہڑ اپنے دیگر کارندوں کے ساتھ تحقیقاتی اداروں کے خوف سے زیر زمین چلا گیا ہے۔ اس وقت غیر ملکی مشتبہ ویب سائٹس کی دو درجن کے قریب ڈیلرشپیں فعال ہیںجن میں سے سات فیصد آمدن انٹیلرز کے اکاؤنٹس میں جبکہ بقیہ رقم غیر ملکیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہو رہی ہے۔سادہ لوح شہری ان ویب سائٹس پر اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لٹا کر خودکشیاں کر رہے ہیں، اور آن لائن رقم جمع کروانے میں ملوث افراد کے ذریعے یہ تمام پیسہ بیرونِ ملک منتقل ہو رہا ہے۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک تحقیقاتی ادارے تمام تر ثبوتوں اور نشاندہی کے باوجود اس نیٹ ورک کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔عوامی و سماجی حلقوں نے وزیراعظم پاکستان، وزیر داخلہ پاکستان، اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سے مطالبہ کیا ہے کہ اس نیٹ ورک کے خلاف فوری اور بھرپور کارروائی کی جائے تاکہ مزید قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔
