آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

بھٹو اور زرعی اصلاحات قسط نمبر 1

روداد زندگی ( ڈاکٹر ظفر چوہدری )

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں جو زرعی اصلاحات ہوئی اس پر بھی بہت زیادہ منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا جبکہ ان زرعی اصلاحات کے مثبت پہلوئوں بارے بہت ہی کم لکھا گیا اور دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا۔ نیشنلائزیشن کے حوالے سے میرے کالمز کی اشاعت کے بعد چند دوستوں نے مجھے زرعی اصلاحات بارے لکھنے کی تجویز دی۔ میرا تحقیق کے شعبہ سے تو کوئی تعلق نہیں رہا تاہم ایک سرگرم سیاسی سوچ رکھنے کے حوالے سے زندگی بھر ہر فیصلے کے تمام پہلوئوں پر تنقیدی نظر ضرور ڈالی ہے اس لئے جو کچھ میرے علم میں تھا یا جس نے معلومات دیں ان کے بارے عرض کئے دیتا ہوں۔
پہلی بات تو مذہب کے حوالے سے ہے گو دین اسلام بارے بھی مجھے اپنی کم علمی کا بہت زیادہ ادراک ہے اور کچھ جو میں نے مولانا غلام احمد پرویز مرحوم کے ماہنامہ مجلے ’’طلوع اسلام‘‘ میں لڑکپن میں پڑھا اس کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے فتویٰ دیا تھا کہ زمین کی بٹائی اور مکان کا کرایہ جائز نہیں مگر جب خلیفہ نے امام ابو حنیفہ کو قید کے دوران زہر دے کر موت کی نیند سلا دیا تو ان کے شاگرد امام ابو یوسف نے زمین کی بٹائی اور مکان کے کرایہ کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم نے بھی اسے جائز قرار دیا مگر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم یہ سمجھتے تھے کہ زمین کا اصل مالک تو اللہ ہے لہٰذا دین اسلام میں زمین اسی کی ہے جو اس پر کاشت کرتا ہے۔ اسی طرح اردو ڈائجسٹ نے حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں ’’عمر نمبر‘‘ شائع کیا تھا جو میں نے کافی عرصہ پہلے پڑھا۔ حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں بہت زیادہ فتوحات ہوئی تھیں۔ مال غنیمت بہت زیادہ ہاتھ آیا تھا۔ ایران کی سلطنت کی فتح کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہوا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مال غنیمت کی تقسیم پہلے سے رائج اصولوں پر نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم نے بہت سارا علاقہ فتح کیا ہے آنے والی نسلوں کیلئے کیا بچے گا۔ صحابہ کرام میں دو گروپ بن گئے جن میں ایک گروپ حضرت عمرؓ کے مؤقف کے حق میں تھا اور دوسرا گروپ پرانے طریقہ کار کے مطابق مال غنیمت کی تقسیم چاہتا تھا۔ اس مسئلہ پر ایک ہفتہ سے زیادہ عرصے تک بحث و مباحثہ جاری رہا۔ مجھے دونوں گروپوں میں شامل صحابہ کرام کے نام تو یاد نہیں مگر میرے لئے یہ بات حیران کن تھی جو گروپ پرانی تقسیم پر اصرار کر رہا تھا ان میں حضرت بلال حبشیؓ بھی شامل تھے جس گروپ نے حضرت عمرؓ کی حمایت کی اس میں حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ بھی شامل تھے۔ ویسے بھی حضرت علیؓ مال و دولت پر ہمیشہ درویشی اور فقر کو فوقیت دیتے تھے۔ مولا علیؓ کا قول ہے مجھے اس شخص کے مومن ہونے پر شک ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو گی یعنی اس نے خلق خدا میں بانٹنے کی بجائے اپنے پاس اتنا مال جمع کر لیا کہ زکوٰۃ واجب ہو گئی۔ آخر کار حضرت عمرؓ کا مؤقف تسلیم کر لیا گیا اور مفتوحہ علاقوں کی زمین سابقہ مالکان کے پاس ہی رہنے دی گئیں۔ البتہ غیر مسلموں پر جزیہ لگایا گیا۔
ضیاء الحق کی قائم کردہ شریعت کورٹ نے زرعی اصلاحات کو بعد میں غیر اسلامی قرار دے دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سابق صدر فاروق خان لغاری بھی اس فیصلہ سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ ملوکیت اور بادشاہت کے اثرات کی وجہ سے اسلام کے بنیادی تصورات میں حاکم وقت اپنے مفاد کے مطابق تشریحات کرواتے ہی رہے ہیں اور اس ابہام سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ زمین کی ملکیت جو مختلف ادوار میں ایک ارتقائی عمل سے گزری ہے۔ شروع شروع میں جب قبائل کا وجود عمل میں آیا اور زمین کے پیداوار کے ذرائع پر قبائل کا تسلط ہو گیا قبائل کے سردار جو کہ باہمی مشورہ سے منتخب ہوتے تھے‘ کی طرف سے شروع میں معیار جنگجویانہ صلاحیت ہی قرار پائی تھی جو قبائلی دشمنیوں کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگوں میں طاقتور جنگجو ہی کو سردار منتخب کیا جاتا بعد میں جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ عقل و شعور کی بنیاد پر جنگی چالوں کو بھی اہمیت حاصل ہوتی گئی اور جسمانی طاقت کے ساتھ عقل و دانش بھی ایک اہم صلاحیت کے طور پر مانی جانے لگی۔
قبائل نے جب ریاست کی شکل اختیار کی تو ریاست کے زیر انتظام قبائلی داخلی طور پر آزاد ہوتے تھے مگر ریاست کو ٹیکس ضرور دیتے تھے اور ساتھ ہی دوسری کسی ریاست کے ساتھ جنگ کیلئے سپاہ بھی مہیا کرتے تھے۔ برصغیر یا ہندوستان میں بھی مختلف ریاستیں اسی فارمولے کے تحت وجود میں آئیں صرف اشو کا مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی پورے برصغیر پر حکمرانی قائم ہوئی جو بعد میں اس کی اولاد میں بھی چلی مگر تاریخ شاہد ہے کہ پورے برصغیر میں اشوکا اکبر اور پھر انگریزوں نے یہی حکمرانی کی اور پھر برطانیہ نے پورے برصغیر پر راج کیا۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہاں پر پنج ہزاری یا دس ہزاری لوگ بادشاہ کے نمائندہ ہوتے تھے۔ پنج ہزاری کا مطلب تھا کہ مخصوص علاقہ کا وہ سربراہ پنج ہزاری وہ ہوتا تھا جس کے پاس پانچ ہزار سپاہ ہوتے تھے۔ اسی طرح دس ہزاری کہلانے والا دس ہزار سپاہی جنگ کے زمانے میں بادشاہ یا شہنشاہ کو مہیا کرتا تھا اور ساتھ ہی زیر قبضہ زمین کے حساب سے ٹیکس بھی دیتا تھا تاہم یہ پنج ہزاری یا دس ہزاری سربراہ بھی بادشاہ کی مرضی کے مرہون منت ہوتے تھے۔ بادشاہ جب چاہتا ان سے یہ عہدہ واپس لیکر کسی اور کو بھی دے سکتا تھا وہ اس دور کے کمیشن ایجنٹ تھے۔ اسی طرح وفات پانے کی صورت میں ضروری نہیں ہوتا تھا کہ متوفی کی اولاد کو یہ عہدہ دیا جائے یعنی وراثت کا رواج نہیں تھا مگر ریاستوں کے نواب یا راجہ مہاراجہ میں وراثت کا قانون تھا۔ یہ ریاستیں یا راجواڑے بھی اکثر بادشاہ کے زیر اثر ہی ہوتے تھے اور بغاوت کی صورت میں انہیں سبق سکھایا جاتا تھا۔ جب برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کیا جونواب یا راجہ جنہوں نے انگریز کی اطاعت کی ان کو ریاستیں بخش دی گئیں اور جنہوں نے مزاحمت کی انہیں ملیا میٹ کر دیا گیا مگر انہوں نے پنج ہزاری یا دس ہزاری کی جگہ جاگیر ( انگریز کے وفادار گدی نشینوں کو بھی بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں) اور قبائل میں سرداری کے عہدہ کو مستقل اور وراثتی قرار دے کر قبائل پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ اس طرح برطانیہ سرکار کے غلاموں‘ قوم و ملت کے غداروں پر مشتمل ایک اشرافیہ ظہور پذیر ہوئی اسی اشرافیہ نے پھر پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کیلئے برطانیہ کو فوج میں سپاہی بھرتی کروا کر رفعتیں پائیں۔ بدقسمتی سے پاکستان پر وہی اشرافیہ اور اسی اشرافیہ کی اولادیں مسلط ہیں جن کا آج بھی قبلہ امریکہ اور برطانیہ ہے۔ مجھے یاد آیا ملکہ برطانیہ پاکستان کے دورہ پر جب پاکستان آئیں اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو نے ملکہ برطانیہ سے کہا تھا ’’ہم تو اب بھی آپ کی رعایا ہی ہیں‘‘۔

شیئر کریں

:مزید خبریں