ولی خان نے کہا تھا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو۔ یعنی ذوالفقار علی بھٹو یا جنرل ضیا الحق میں سے کسی ایک کو قبر میں اترنا ہے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ قبریں بھی دو ہی تھیں بس ٹائمنگ کا فرق تھا۔ قبر میں دونوں ہی کو اترنا تھا۔ اور دونوں ہی اتر گئے مگر مختلف طریقے سے۔ انگریز نے پھانسی کا قانون مغل حکمرانوں میں سے لیا تھا اور مغل حکمرانوں نے پھانسی کا وقت فجر سے پہلے تہجد کا مقرر کر رکھا تھا کہ اس وقت بارے کہا جاتا ہے کہ اللہ آسمان دنیا پر اپنے بندے کی فریاد سنتا ہے اور یہ وقت اللہ پاک کا پسندیدہ وقت ہے۔ بھٹو کے معاملے میں ضیا الحق نے صدیوں سے جاری اس قانون کوبھی بالائے طاق رکھا کہ رات کے 2بجے بھٹو کو پھانسی دے کر چند افراد کی موجودگی میں نماز جنازہ پڑھا کر انہیں گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا حتیٰ کہ بھٹو خاندان کے لوگ بھی میت کا آخری دیدار نہ کر سکے۔سوا9 سال بعد جنرل ضیا الحق طیارے حادثے میں جاں بحق ہوئے تو ان کے چہرے کی شناخت بھی نا ممکن ہو گئی لہٰذا ان کا آخری دیدار بھی ان کے لواحقین نہ کر سکے تاہم ان کی نماز جنازہ سرکاری سرپرستی میں ہوئی اور ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جنرل ضیا الحق اسلام آباد میں فیصل مسجد کے احاطے میں دفن ہوئے مگر دونوں قبروں میں رونق آج بھی بھٹو کی قبر پر جنرل ضیا الحق کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
کسی نے خوبصورت تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھٹو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور ضیاالحق جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے تو دونوں ہی کامیاب رہے۔ بھٹو نے جہاں ملک کو پہلا آئین دیا وہیں پر پرائیویٹ ادارے قومیائے گئے اور پاکستان کوترقی کے حوالے سے سو سال پیچھے دھکیل دیا۔ اس دور میں پاکستان میں دنیا کی بہترین سی جے 7 اور سی جے 5 جیپیں تیار ہوتی تھیں۔پیکو کمپنی موٹر سائیکل بنانے لگ گئی تھی۔ پاکستان میں صنعتی انقلاب نے دنیا کو حیرت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ پاکستان زرعی انقلاب کی طرف بھی تیزی سے بڑھ رہا تھا اور گندم میں خود کفیل ہو چکا تھا۔ سٹیل ملز کراچی،ہیوی میکنیکل کمپلیکس سمیت کئی بڑے بڑے ادارے وجود میں بھی آ رہے تھے اور تیزی سے ترقی کر رہے تھے مگر بھٹو نے نیشنلائزیشن کرکے پاکستان کو ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کی سزا آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔
بھٹو نے کئی جرنیلوں کو نظر انداز کرکے جنرل ضیا الحق کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا ۔ پیر صاحب پگاڑا شریف ایک مرتبہ لاہور آئے اور انہوں نے بلخ شیر مزاری کو اگلا نگران وزیراعظم قرار دیا۔ یہ اس دنوں کی بات ہے جب نواز شریف وزیراعظم تھے۔ جیل روڈ لاہور میں گوشی موٹرز نامی ایک شوروم پر ظہرانے میں پیر پگاڑا جو کہ جملے بازی کے ماہر تھے کہنے لگے سندھی ارائیں بھٹو نے اپنی برادری کے جنرل ضیا الحق کو ترقی دے کر چیف آف آرمی سٹاف بنایا اور ارائیں ارائیں کو ہی کھا گیا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ بات تب کہی جب ایک اخبارنویس نے کہا کہ آپ بلخ شیر مزاری کا نام لے رہے ہیں جبکہ ایک اور نام بھی صدر غلام اسحاق خان کے بہت قریب ہے تو پیر پگاڑا نے کہا اب ارائیں نہیں۔
وقت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ 1973 کے آئین ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو آج اس آئین کی پاسداری کی بجائے پامالی کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس نواز شریف کا ہم رکاب ہے جن کے ہزاروں افراد کے جلسوں میں کئے گئے الفاظ آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ملکی سیاست اور عمران خان نے بہت سوں کو بے نقاب کر دیاہے ۔ بہت سے پردے اتر گئے اور پھر وہی صدیوں پرانا مصرع لوگوں کی یادوں پر ابھر آیا۔
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
