بگڑتا ہوا تجارتی توازن اور کھوکھلی بحالی کا سنگین دھوکہ

پاکستان کی بیرونی تجارت کی تازہ ترین صورتِ حال ایک گہری تشویش کو جنم دے رہی ہے۔ ظاہری طور پر بڑی صنعتوں کی معمولی بحالی کے باوجود، تجارتی خسارہ نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے گہرا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اعداد و شمار چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ملکی معیشت کی بنیادیں کمزور ہیں، اور جو ’’بحالی‘‘ پیش کی جا رہی ہے وہ نہ صرف غیر متوازن ہے بلکہ ایک نئے مالیاتی بحران کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔چار ماہ میں پاکستان کا تجارتی خسارہ ساٹھ فیصد بڑھ کر تئیس اعشاریہ ایک ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ یہ اضافہ معمولی نہیں، بلکہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہماری درآمدات بے لگام رفتار سے بڑھ رہی ہیں جبکہ برآمدات مسلسل پستی کا شکار ہیں۔ درآمدات میں سولہ فیصد اضافہ ہوا لیکن برآمدات چار فیصد گر گئیں۔ یہ وہ خطرناک فرق ہے جو کسی بھی ملک کی بیرونی کھاتوں کو شدید عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے۔اگرچہ بڑی صنعتوں میں مجموعی چهار اعشاریہ ایک فیصد نمو ریکارڈ کی گئی، مگر اس نمو کی نوعیت انتہائی ناقص ہے۔ دو تہائی برآمدات کا سہارا ٹیکسٹائل اور تیار ملبوسات کا شعبہ ہے، لیکن ان دونوں شعبوں میں نمو اعشاریائی سطح تک محدود رہی—صرف صفر اعشاریہ چار اور صفر اعشاریہ تین فیصد۔ جب برآمدی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی یوں مضمحل دکھائی دے تو پھر تجارتی خسارے کے بڑھنے پر حیرت کیسی؟گزشتہ برس اس کے برعکس تھا: بڑی صنعتوں کی ترقی سست مگر ملبوسات کا شعبہ مضبوط تھا۔ اس مرتبہ بڑھتے ہوئے ٹیکس، توانائی کی بلند قیمتیں، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ کم از کم اجرت، امریکی محصولات اور عالمی طلب میں کمی—سب عوامل مل کر پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو پسپا کر رہے ہیں۔ عالمی منڈی میں مقابلے کے لیے جو بنیادی قوت درکار ہوتی ہے، وہ ہماری پالیسیوں نے خود کمزور کر دی ہے۔سب سے زیادہ نمو گاڑیوں کے شعبے میں ریکارڈ کی گئی—پچاسی فیصد۔ لیکن یہ ترقی ہمارے لیے خوشی نہیں، تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اس تیزی کا تعلق براہِ راست درآمد شدہ گاڑیوں سے ہے، جس میں ایک سو گیارہ فیصد کا اضافہ ہوا۔ درآمدات میں اس غیر معمولی بڑھوتری کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ مہنگی گاڑیاں ملک میں آ رہی ہیں۔ گاڑیوں کی مقامی تیاری میں شمولیت کم ہے، روزگار کے مواقع قلیل ہیں، اور فائدہ محض چند امیر طبقوں کو پہنچ رہا ہے۔دوسرا بڑا شعبہ خوراک کا ہے، جس میں سات فیصد اضافہ ہوا، مگر یہی شعبہ ہمارے لیے ایک نئی تباہ کن تصویر پیش کر رہا ہے۔ گزشتہ سال کے برعکس اس سال خوراک کا تجارتی خسارہ صفر سے بڑھ کر ڈیڑھ ارب ڈالر ہو گیا۔ خوراک کی برآمدات میں پینتیس فیصد کمی—یہ ایک خوفناک اشارہ ہے کہ زرعی معیشت کو بدترین حکومتی پالیسیوں نے کس طرح نقصان پہنچایا ہے۔ جب مقامی پیداوار کمزور پڑے اور زرعی شعبہ لاوارث چھوڑ دیا جائے تو پھر درآمدی خوراک پر انحصار بڑھتا ہے، جو ملک کی معاشی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔یہ تمام مثالیں اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بڑی صنعتوں کی موجودہ نمو کھوکھلی ہے۔ اس سے روزگار نہیں بنتا، برآمدات نہیں بڑھتیں، اور معاشی بنیاد مستحکم نہیں ہوتیں۔ الٹا یہ نمو تجارت کے خسارے کو بڑھا رہی ہے اور ملک کو ایک نئے ادائیگیوں کے بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔ امیر طبقہ درآمدی گاڑیاں خرید کر خوش ہے، جبکہ غریب اور درمیانہ طبقہ مہنگائی، بیروزگاری اور عدم تحفظ کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔حکومت ہر بحران میں درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھا دیتی ہے، فنانسنگ محدود کر دیتی ہے، اور سٹیٹ بینک درآمدی پرزہ جات روک دیتا ہے۔ لیکن یہ عارضی اقدامات ہیں، مستقل حل نہیں۔ جب تک صنعتی ڈھانچہ مضبوط نہیں ہوگا، جب تک مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹھوس پالیسیاں نہیں اپنائی جائیں گی، جب تک تحقیق، ٹیکنالوجی، اور برآمداتی مسابقت پر سرمایہ کاری نہیں ہوگی، تب تک عارضی ٹیکس اور پابندیاں صورتحال نہیں سنبھال سکتیں۔دوسری طرف خوراک کا بڑھتا ہوا خسارہ حکومت کی زرعی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ غیر متوازن امدادی قیمتیں، پانی کی کمی کا حل نہ ہونا، مہنگا بیج، ڈی اے پی کی قیمتوں کا بحران، منڈیوں کی بدانتظامی اور موقعہ پرستوں کے ہاتھوں کسانوں کا استحصال—یہ سب اس تباہی کا راستہ ہموار کرتے رہے۔بیرونی قرضوں کے سہارے چلنے والی معیشت میں جب سرمایہ کاری گری ہو، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار بددل ہوں، اور صنعتی شعبہ بدترین بدگمانی کا شکار ہو تو پھر محض چند سہ ماہی اعداد و شمار دکھا کر معاشی بہتری کا دعویٰ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔معیشت کی موجودہ صورتحال ایک بنیادی سوال اٹھاتی ہے: کیا ہماری حکمت عملی درست ہے؟ کیا موجودہ معاشی ماڈل ہمیں بار بار بحران میں دھکیلتا رہے گا؟ کیا حکومت کی توجہ صرف ٹیکس بڑھانے پر ہے، یا معیشت کے بنیادی ڈھانچے کی مرمت پر بھی؟حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ کاری تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے، نوجوانوں کی بڑی تعداد ہر سال روزگار کے بغیر مارکیٹ میں آ رہی ہے، اور صنعتوں کا اعتماد بری طرح مجروح ہے۔ ایسے حالات میں محض پرائمری مالی بچتیں اور بلند شرحِ سود حقیقی معاشی استحکام کی ضمانت نہیں بن سکتیں۔پاکستان کو اس وقت ایک ہمہ جہت، متوازن، روزگار پیدا کرنے والی ترقی کی ضرورت ہے—وہ ترقی جو برآمدات بڑھائے، زرعی معیشت کو مستحکم کرے، صنعت کو مقامی سطح پر خودکفیل بنائے، اور تجارتی خسارے کو مستقل بنیادوں پر کم کرے۔اگر حکومت نے اب بھی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی نہ کی تو موجودہ بے ربط نمو، بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ، سکڑتی سرمایہ کاری اور اعلیٰ توانائی قیمتیں ملک کو ایک اور تباہ کن مالیاتی بحران کی راہ پر ڈال دیں گی۔وقت کم ہے—معاشی دھوکے کا سلسلہ روک کر حقیقی بنیادیں مضبوط کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں