آج کی تاریخ

تازہ ترین

بڑی صنعتوں کی کمزور بحالی اور اعداد و شمار کا بحران

پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس -پی بی ایس کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جون 2025 میں بڑے پیمانے کی صنعتوں-ایل ایس ایم میں سالانہ بنیادوں پر 4.14 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ ماہانہ بنیاد پر (جون بمقابلہ مئی 2025) 3.67 فیصد کمی دیکھی گئی۔ ان اعداد و شمار نے ماہرینِ معیشت اور مبصرین کو الجھن میں ڈال دیا ہے کیونکہ یہ رپورٹ کئی سطحوں پر تضاد اور غیر واضح تصویر پیش کرتی ہے، جو خود پی بی ایس کی رپورٹنگ کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔
اول تو پورے مالی سال 2024-25 کے دوران ایل ایس ایم کی اوسط شرح نمو منفی 0.74 فیصد بتائی گئی ہے، جبکہ وزارتِ خزانہ کے جولائی 2025 کے اپڈیٹ میں جولائی تا مئی 2025 کی شرح نمو منفی 1.21 فیصد درج ہے۔ اگر PBS کے مطابق جون میں بہتری آئی، تو پھر سالانہ اوسط جولائی تا جون کی شرح جولائی تا مئی کی نسبت کم کیسے ہو گئی؟ یہ سوال تکنیکی لحاظ سے نہ صرف منطقی ہے بلکہ PBS کی رپورٹ کی صداقت کو مشکوک بناتا ہے۔
یہ وہ تضادات ہیں جن کی بنیاد پر بین الاقوامی مالیاتی ادارہ -آئی ایم ایف نے اکتوبر 2024 کی اپنی رپورٹ میں پاکستان کے ڈیٹا سورسز پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ آئی ایم ایف کے مطابق تقریباً ایک تہائی معیشت کے متعلق دستیاب ڈیٹا نہ صرف ناقص بلکہ غیر قابلِ اعتبار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے مالیاتی اعداد و شمار میں بھی شفافیت اور گہرائی کی شدید کمی ہے۔
حکومتی معاشی ٹیم پر طویل عرصے سے دباؤ ہے کہ وہ کسی بھی طرح -ایل ایس ایم میں مثبت نمو دکھائے، کیونکہ یہی شعبہ روزگار میں اضافے اور مہنگائی میں کمی کی امید رکھتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کووڈ-19 کے بعد سے لے کر اب تک اس شعبے میں صرف 2021-22 کے دوران وقتی بہتری دیکھنے میں آئی، جو کہ درحقیقت پیداوار میں اضافہ نہیں بلکہ موجودہ اسٹاک کے فروخت سے متعلق تھی۔
شرح سود کو اگرچہ ایک سال میں 21 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کیا گیا ہے، لیکن یہ اب بھی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ صرف یہی نہیں، مالیاتی پالیسی بھی بدستور سخت ہے، جبکہ بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ بدستور غریبوں پر پڑ رہا ہے، جو کہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 75 سے 80 فیصد ٹیکس بوجھ غریب عوام پر منتقل کرتا ہے۔ یہی وہ معاشی فیصلے ہیں جن کی وجہ سے ملک میں غربت کی شرح 44.87 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
نجی شعبے کو قرض کی فراہمی میں اضافہ ضرور ہوا ہے، مگر اس کا زیادہ تر تعلق قیاس آرائی سے ہے، نہ کہ حقیقی صنعتی پیداوار سے۔ اگر اس کو غلط ثابت کرنا ہو تو حکومت کو شفافیت کے ساتھ اصل ڈیٹا فراہم کرنا ہوگا، جو تاحال سامنے نہیں آیا۔
مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب حکومت ایک جانب صنعتی شعبے کو عالمی سطح پر مقابلے کے قابل بنانے کے لیے توانائی نرخوں، درآمدی خام مال کی قیمتوں، اور قرض کی لاگت میں کمی کی بات کرتی ہے، تو دوسری جانبآئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا معاہدہ اسے سبسڈی اور قیمتوں میں سرکاری مداخلت سے باز رکھنے پر زور دیتا ہے۔آئی ایم ایف کی واضح تنبیہ ہے کہ ماضی میں حکومت کی قیمتوں کے تعین میں مداخلت اور مخصوص صنعتوں کو تحفظ دینا معیشت کو غیر مؤثر اور غیر مقابلہ پذیر بنا چکا ہے۔
یہ تمام حقائق اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہا ایل ایس ایم کا شعبہ ابھی بھی دباؤ کا شکار ہے، اور اس میں بہتری تب ہی ممکن ہے جب مانیٹری اور فِسکل پالیسیوں کو مزید نرم کیا جائے۔ تاہم، موجودہ حالات میں آئی ایم ایف سے سخت شرائط میں نرمی کی امید کرنا بے سود ہے۔ نتیجتاً، ایل ایس ایم کا شعبہ بدستور ان پالیسیوں کا یرغمال رہے گا جو قرضوں پر انحصار سے جڑی ہوئی ہیں۔
پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ جن شعبوں پر مشتمل ہے، ان کے درست اور قابل اعتماد ڈیٹا کے بغیر کوئی بھی پالیسی سازی، بہتری کی امید، یا بین الاقوامی سرمایہ کاری کا امکان ممکن نہیں۔ جب تک ڈیٹا کے معیار اور رپورٹنگ کی شفافیت کو ترجیح نہیں دی جاتی، تب تک ہم نہ صرف معیشت کی حقیقی تصویر سے محروم رہیں گے بلکہ ہر بجٹ، ہر منصوبہ، اور ہر بیان صرف نمائشی دعووں کا ایک بے بنیاد سلسلہ ہی رہے گا۔
لہٰذا، حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی اصلاحات کو نہ صرف ترجیح دے بلکہ مکمل طور پر شفاف اور آزاد ڈیٹا اکٹھا کرنے کا نظام نافذ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں کو توازن میں لا کر، صنعتی شعبے کو ایک حقیقی سہارا فراہم کرے تاکہ پاکستان صرف فائلوں اور رپورٹوں میں نہیں، زمین پر بھی معاشی بہتری کا سفر طے کر سکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں