بڑھتا ہوا موسمِ غضب اور ریاستی غفلت کا ناقابلِ معافی بوجھ

پاکستان میں خطرے کی گھنٹیاں ایک بار پھر بج چکی ہیں—اور اس بار پہلے سے کہیں زیادہ زور سے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جاری کردہ قبل از وقت پیش گوئی کہ اگلے برس مون سون کی بارشیں معمول سے بائیس سے چھبیس فیصد زیادہ ہو سکتی ہیں، محض ایک انتباہ نہیں بلکہ ایک ایسا الارم ہے جو یہ یاد دلانے آیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تباہ کاریوں کے عہد میں داخل ہو چکا ہے جہاں ہر سال نئی ہولناکی، نئی تباہی، اور نئے ریکارڈ ہمارے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ 2022ء کے سیلاب، گلیشیائی پگھلاؤ اور ریکارڈ مون سون کی بربادی، پھر 2024ء کی طوفانی بارشیں—جو کئی دنوں تک ایک ہی جگہ ٹھہری رہی اور پورے دیہات کو بہا لے گئیں—یہ سب ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھے، لیکن ریاستی نظام جیسے جاگنے سے انکاری ہے۔این ڈی ایم اے کے مطابق صرف اس سال اکتیس لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑا۔ یہ اعداد و شمار محض انسانی المیہ نہیں بتاتے بلکہ ملک کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کمزور ڈھانچے کی قلعی بھی کھولتے ہیں۔ اگر چھ تا آٹھ ماہ قبل جاری ہونے والی وارننگ کے باوجود دریاؤں کے کناروں پر ناجائز تعمیرات قائم رہیں، نالے بند رہیں، نکاسیٔ آب کا نظام غیر فعال رہے، اور صوبائی و ضلعی انتظامیہ لوگوں کو نکالنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو تو پھر ایسی پیشگی تنبیہات محض رسمی اعلانات بن کر رہ جاتی ہیں۔ تباہی کے بعد میڈیا پر ماتم اور حکومتی اعلانات تو ہر سال دیکھنے کو ملتے ہیں، مگر عملی تبدیلی کہیں نظر نہیں آتی۔جون اور جولائی میں سیاحتی پابندیوں کا اعلان اگرچہ ایک دانشمندانہ قدم ہے، لیکن یہ کسی طور بنیادی مسئلے کا حل نہیں۔ جب تک وادیوں، دریاؤں اور پہاڑی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ مضبوط نہیں ہوتا، جب تک سڑکیں، پل، حفاظتی بند اور آبادیوں کے گرد حفاظتی اقدامات قائم نہیں کیے جاتے، تب تک سیاحت بند کرنے یا کھولنے سے تباہی نہیں رکے گی۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ خطرے والے علاقوں میں کمیونٹی سطح پر فوری ردعمل کی مشقیں کی جائیں، مقامی کمیٹیاں بنائی جائیں، لوگوں کو محفوظ راستوں کی تربیت دی جائے، اور ہر ضلع میں ہنگامی سامان پہلے سے رکھا جائے۔وزیراعظم کا یہ ہدایت دینا کہ فوری طور پر تیاریاں شروع کی جائیں، ایک مثبت قدم ضرور ہے لیکن محض حکم دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ سنگین حقیقت بیان کرتی ہے کہ کاغذی منصوبے تو بن جاتے ہیں، اجلاس بھی ہو جاتے ہیں، فوٹو سیشن بھی پورے ہوتے ہیں، لیکن جب بارش آتی ہے تو وہی محلے، وہی گاؤں، وہی اضلاع ڈوبتے ہیں۔ وجہ صرف ایک ہے—نچلی سطح پر حکومتی نظام کا ناکام ہونا، بدعنوانی، غفلت اور حکم عدولی۔ جب تک صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کو جوابدہ نہیں بنایا جاتا، جب تک ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی جو حفاظتی اقدامات کو نظرانداز کرتے ہیں، تب تک ہر سال وہی المیہ دہرایا جائے گا۔نیشنل واٹر کونسل کا اجلاس اگر محض رسمی ہوا تو یہ قوم کے ساتھ دھوکے کے مترادف ہوگا۔ اس اجلاس میں وہ مسائل زیرِ بحث آنے چاہئیں جو دہائیوں سے قومی تباہیوں کی جڑ بنے ہوئے ہیں—زمین کے استعمال کے ضابطے، دریائی بہاؤ کی غلط سمتیں، پانی کی بدانتظامی، غیر مستقل ڈیم فنڈز، اور بجٹ میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم۔ جب تک یہ بنیادی نظامی خرابیاں دور نہیں ہوں گی، ہم چاہے کتنی بھی جدید ٹیکنالوجی لے آئیں، نقصان کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی رہے گا۔دریاؤں کے کناروں پر بے ہنگم آبادیاں، برساتی نالوں پر تجاوزات، شہروں میں بے قابو تعمیرات—یہ سب وہ زخم ہیں جو ریاستی اداروں نے اپنی ناکامی سے خود پیدا کیے۔ کراچی ہو یا لاہور، پشاور ہو یا سکھر—شہری نکاسیٔ آب کا نظام مسلسل تباہی پھیلا رہا ہے۔ مون سون کی ہلکی بارش بھی گھنٹوں کے ٹریفک جام، گندے پانی کے تالابوں اور بجلی کے لمبے بریک ڈاؤن کا سبب بن جاتی ہے۔ بڑے شہروں کے یہ جھوٹے ’’میگا پروجیکٹس‘‘ بارش کے سامنے چند گھنٹوں میں ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔این ڈی ایم اے کی جانب سے چھ ماہ پہلے کی تنبیہ ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ وہ موقع ہے جو ہر سال ہمیں نہیں ملتا۔ اس موقع کو ضائع کرنا ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔ اس بار ہمیں سیلاب آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ بعد میں امدادی ٹرک چلیں اور لوگ سوشل میڈیا پر حکومت کو کوستے رہیں۔ اس بار ہمیں پیشگی بند باندھنے ہوں گے، نالے صاف کرنے ہوں گے، دریائی راستوں سے تجاوزات ہٹانی ہوں گی، اور خطرہ زدہ بستیوں کے مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے ٹھوس منصوبے بنانے ہوں گے۔ہمیں حقیقت پسند ہو کر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان دنیا کے اُن تین ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جھیل رہے ہیں۔ نہ ہم نے کاربن پیدا کیا، نہ صنعتی آلودگی میں حصہ ڈالا، مگر نقصان سب سے زیادہ ہمارا ہوا۔ یہ ناانصافی اپنی جگہ، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا اپنا نظام اس بحران سے نمٹنے کے قابل نہیں رہا۔ عالمی سطح پر موسمیاتی انصاف کے لیے آواز اٹھانا اہم ہے، لیکن اپنے گھروں، شہروں اور گاؤں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات بدلے۔ شاہراہوں کے افتتاح، غیر ضروری تعمیرات، پروٹوکول اور فضول منصوبوں پر خرچ ہونے والے اربوں روپے عوام کی زندگی بچانے والے اقدامات پر لگائے جائیں۔ اگر حکومت اب بھی غفلت برتے گی تو اگلا سیلاب دوبارہ لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرے گا، کھیت تباہ ہوں گے، پینے کا پانی آلودہ ہوگا، بیماریاں پھیلیں گی اور ملک مزید معاشی دھچکے کا شکار ہوگا۔وقت اب بہت کم رہ گیا ہے۔ قدرت ہر سال ہمیں نئی آزمائش دے رہی ہے۔ اگر ہم نے اس بار بھی تیاری نہ کی تو قصور بارش کا نہیں—ہماری غفلت، ہماری بدانتظامی اور ہمارے ٹوٹے ہوئے ریاستی نظام کا ہوگا۔ اس بحران کا مقابلہ صرف آغاز میں ممکن ہے؛ سیلاب آنے کے بعد ہاتھ ملنے سے کچھ نہیں ہوتا۔یہ وقت فیصلہ کن کارروائی کا ہے۔ اور اس بار ناکامی کی کوئی گنجائش نہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں