تحریر : ڈاکٹر ظفر چوہدری
بچپن کا زمانہ عام طور پر 10/11سال تک کا سمجھا جاتاہے اس کے بعد لڑکپن یا Teen ageگیارہ بارہ سال سے 19سال تک کی عمر کو سمجھاجاتاہے۔
ہمارے بچپن میں جو چیز بچوں کےلئے تکلیف دہ ہوتی تھی وہ تھی مار، یعنی استاد کی مار ، والدین کی ماربلکہ اسے مارہی مار کا دور ہی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا اسی لیے موجودہ زمانے میں مار نہیں پیار کا نعرہ اسی کا ردِ عمل ہے۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں میں ان خوش نصیب بچوں میں سے تھا جنہیں مار سے کم ہی واسطہ پڑاتھا۔ جس کیلئے وہ والد صاحب کی بے حد شفقت تھی۔ نچلے طبقات کے بچے بچپن میں ہی محنت مزدوری پر لگا دئیے جاتے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہےیا پھر کسی درس میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کےلئےکل وقتی طور پرداخل کرادیا جاتاتھا۔ جنہیں عام طور پر طالب کہتے تھے یہ بچے اپنے مدرسہ میں جوکہ عام طور پر مسجد سے ملحقہ ہوتا تھایہیں قیام کرتےان نادار بچوں پر مدرسہ میں کیا گزرتی یہ تو کوئی درس میں تعلیم حاصل کرنے والا ہی بتا سکتا ہے۔ یہ بچے شام کو لوگوں کے گھروں سے سالن اور روٹیاں اکٹھی کرتے تھے اور سارا جمع شدہ کھانا درس کے مدرس یعنی مولوی صاحب کے پاس جمع کروا دیتے تھے ۔ ان کے اخراجات بھی مقامی لوگوں کے چندہ سے پورے کئے جاتے تھے ۔ خاص طور پر جمعہ کے اجتماع میں جھولی پھیلا کر دو بندے نمازیوں کے سامنے سے گزرتے اور عوام حسب توفیق اس میں چندہ ڈال دیتے تھے ۔ بچوں کو جو بتایا جاتا تھا وہ اس پر یقین کرلیتے تھے ۔ چاند کو چنداماموں کہا جاتا تھا اور بڑھیا کے چرخہ چلانے پر ہم یقین رکھتے تھے جو محاورے بعد میں سنے جیسے کسی کو ماموں بنانا یعنی بے قوف بنانا یہ محاورہ اسی وجہ سے بنا ہوگا کیو نکہ عام طور پر ننھیال والے یعنی نانا نانی اور ماموں بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔اسی لئے جب کوئی کسی کی حمایت کرتا تھا تو کہتے تھے تم اس کے مامے لگتے ہو یعنی ماموں کی محبت کو چچا کی محبت پر ترجیح اور فوقیت دی جاتی تھی۔
مثلاً جب گھر میں چھوٹا بھائی یا بہن پیدا ہوتی تو نانی جان دادی جان بتاتیں کہ روشن دان سے آئی ہے اور ہم یقین بھی کرلیتے تھے۔
بچے تو ایک طرف 14/15سال کے لڑکوں کو بھی جنسی معاملات بارے معلوم نہیں ہوتا تھا آجکے نوجوان ان باتوں پریقین نہیں کریں گے مگر ایسا ہی تھا ۔ آج کل کے بچے ہمار ی لاعلمی پر حیران ہوتے ہونگے۔ بقول پروین شاکر
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
آجکل کے بچے تو وہ کچھ بھی جانتے ہیں جو ہماری نسل کے لوگ ابھی تک نہیں جانتے۔