آج کی تاریخ

جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے

تازہ ترین

بچوں سے جبری مشقت ایک لعنت

پاکستان میں گھریلو بچوں کی مشقت ایک ایسا ناسور بن چکی ہے جو نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ ریاستی، سماجی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے مجرمانہ غفلت کا عکاس بھی ہے۔ دنیا بھر میں جب کسی ملک میں بچے غلاموں کی طرح کام کرتے دکھائی دیں، تو مہذب اقوام اسے جدید غلامی قرار دیتی ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ معمول کی بات بن چکی ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہر چوتھے گھر میں کوئی بچہ کام کرتا دکھائی دیتا ہے، بلکہ اس پر معاشرہ فخر کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔ یہ صورتحال قومی ضمیر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
بین الاقوامی محنت تنظیم (آئی ایل او) کی جولائی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھے گھر میں کم عمر بچہ یا بچی گھریلو ملازم کے طور پر کام کر رہا ہے، جن میں اکثریت دس سے چودہ سالہ بچیوں کی ہے۔ یہ تعداد بظاہر 2 لاکھ 64 ہزار سے زیادہ ہے، مگر سندھ چائلڈ لیبر سروے 2022–2024 کی رپورٹ نے اس تاریک حقیقت کو اور بھی عیاں کر دیا ہے کہ صرف ایک صوبے — سندھ — میں پانچ سے سترہ سال کی عمر کے 16 لاکھ بچے اس ظلم کا شکار ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہمارے ملک میں بچوں کو بچہ سمجھا ہی نہیں جاتا، بلکہ وہ محض ایک مزدور، ایک بوجھ یا ایک ذریعہ آمدن کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
اس المیے کی بنیادی وجہ وہ مبہم اور الجھی ہوئی قانون سازی ہے جس نے تاحال “بچے” کی واضح تعریف تک متعین نہیں کی۔ جب ریاست ہی یہ طے نہ کر سکے کہ کس عمر کے شخص کو بچہ تصور کیا جائے، تو قانون کس کو تحفظ دے گا؟ اس قانونی ابہام کے سبب ملک میں نہ صرف کم عمر بچوں کی مشقت کا دروازہ کھلا ہے بلکہ ان کے ساتھ ہونے والے جسمانی، ذہنی، اور جنسی استحصال کی روک تھام بھی ممکن نہیں ہو پاتی۔
یہ سچ ہے کہ چائلڈ لیبر، غربت کی پیداوار ہے۔ جب ایک گھر میں تین وقت کی روٹی میسر نہ ہو، جب اسکول دور ہوں یا فیسوں کے بوجھ تلے والدین کچلے جا رہے ہوں، جب تعلیم محض امیروں کا شوق بن جائے اور صحت کی سہولیات خواب بن جائیں، تو والدین کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ اپنے بچوں کو مزدوری پر لگا دیں۔ مگر ریاست کا کام صرف غربت کا بہانہ بنا کر ہاتھ کھڑے کر دینا نہیں، بلکہ یہ دیکھنا بھی ہے کہ اس کی پالیسیوں، قوانین اور اداروں کی کمزوری کس طرح بچوں کو مزدور اور غلام بننے پر مجبور کر رہی ہے۔
2022 کے کچھ تخمینوں کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا، اور ماہرین کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں اس رجحان میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کا ہر دوسرا بچہ یا تو کسی فیکٹری میں مشین کے پرزے جوڑ رہا ہو گا، یا کسی امیر گھر میں جھاڑو پونچھ، برتن دھونے اور بچوں کی دیکھ بھال میں اپنی معصومیت کا خون دے رہا ہو گا۔
اس بڑھتے ہوئے بحران کا سدباب محض زبانی دعووں، عالمی معاہدوں پر دستخط کرنے یا سالانہ کانفرنسوں سے ممکن نہیں۔ جب تک حقیقی اصلاحات، قانون سازی اور سخت عملی اقدامات نہیں کیے جائیں گے، تب تک بچوں کا بچپن ان ظالم ہاتھوں کے شکنجے میں جکڑا رہے گا۔ حکومت کو فوری طور پر ایک مستند، قابل اعتماد اور جامع ڈیٹا بیس تیار کرنا ہو گا جس میں ملک بھر میں چائلڈ لیبر کا مکمل ریکارڈ موجود ہو۔ صرف اندازوں اور تخمینوں سے مسائل کا حل ممکن نہیں۔
اس مقصد کے لیے تمام صوبائی اور وفاقی اداروں کو متحرک کیا جائے۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی رجسٹریشن کی جائے، محنت کش بچوں کا ڈیٹا مرتب کیا جائے اور ان کے لیے الگ سے تعلیمی، طبی اور نفسیاتی امداد کے پروگرام شروع کیے جائیں۔ پولیس کو چائلڈ پروٹیکشن کے اصولوں پر تربیت دی جائے تاکہ وہ محض جرائم کی تفتیش کرنے والا ادارہ نہ رہے بلکہ استحصال زدہ بچوں کا محافظ بھی بن سکے۔
معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بچوں کو محض گھر کا بوجھ یا روٹی کمانے والا ہاتھ سمجھنے کی سوچ کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ میڈیا، اسکولز، مساجد، اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے شعور بیدار کیا جائے کہ بچوں کا کام صرف کھیلنا، سیکھنا اور خواب دیکھنا ہے، مشقت کرنا نہیں۔ یہ اجتماعی حساسیت ہی وہ تبدیلی لا سکتی ہے جو قانون بھی شاید نہ لا پائے۔
اس کے ساتھ ساتھ ریاست کو اپنی صحت اور تعلیم کی انفرااسٹرکچر کو فوری طور پر بحال کرنا ہو گا۔ اگر والدین کو یقین ہو جائے کہ ان کے بچوں کو مفت، معیاری اور محفوظ تعلیم ملے گی، اگر انہیں اعتماد ہو جائے کہ سرکاری اسپتال میں ان کا بچہ ٹھیک ہو جائے گا، تو وہ کبھی بھی اپنے لخت جگر کو دوسروں کے در پر غلامی کے لیے نہیں بھیجیں گے۔ غربت کا خاتمہ محض امدادی پروگراموں سے ممکن نہیں، یہ ایک ہمہ جہتی اصلاحاتی عمل ہے جس میں تعلیم، صحت، روزگار، اور انصاف کی فراہمی بنیادی ستون ہیں۔
پاکستان نے آئی ایل او کے کئی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں، جن میں بچوں سے مشقت کے خاتمے اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ مگر جب تک ان معاہدوں پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہوتا، تب تک یہ محض کاغذی کاروائی ہی رہیں گے۔ عالمی سطح پر ہمارا انسانی حقوق کا پروفائل اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنے سب سے ناتواں طبقے — بچوں — کے حقوق کا تحفظ یقینی نہ بنائیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ایک بچہ کام کرتا ہے تو وہ کسی بالغ فرد کی جگہ لیتا ہے، یعنی ایک بڑا بے روزگار رہتا ہے۔ چائلڈ لیبر نہ صرف بچوں کا استحصال ہے بلکہ یہ مجموعی معیشت کی بھی دشمن ہے۔ ان بچوں کو تعلیم سے محروم رکھ کر ہم نہ صرف ان کا مستقبل برباد کرتے ہیں بلکہ ملک کی ترقی میں ممکنہ کردار ادا کرنے والے شہریوں کو محرومی، پسماندگی اور غربت کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔
پاکستان کا مستقبل ان بچوں کے ہاتھوں میں ہے، جنہیں آج ہم اپنی کوتاہیوں اور بے حسی کے باعث مزدوری پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر آج ان بچوں کو تعلیم، تحفظ اور آزادی نہ ملی، تو کل یہ ملک علم، ترقی اور خوشحالی سے محروم ہو جائے گا۔
لہٰذا یہ وقت ہے کہ ہم صرف بیانات سے آگے بڑھیں اور حقیقی معنوں میں ان بچوں کو وہ بچپن لوٹائیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ ماں کی گود سے کتابوں کی طرف ان کا سفر، جھاڑو پونچھ یا فیکٹری کی مشینوں کے بجائے اسکول کے بستے کی طرف ہونا چاہیے۔ یہ نہ صرف انسانی حقوق کا تقاضا ہے بلکہ پاکستان کی بقا اور فلاح کا بھی واحد راستہ ہے۔
آج اگر ہم نے فیصلہ نہ کیا، تو کل ہمارے بچے ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ ان کے چھوٹے ہاتھوں میں کھلونے ہونے چاہئیں، برتن یا اوزار نہیں۔ ان کی آنکھوں میں خواب ہوں، خوف نہیں۔ اور ان کے قدم اسکول کے دروازوں کی طرف بڑھیں، کسی رئیس کی کوٹھی کی طرف نہیں۔
یہ وقت ہے — خود احتسابی، قانون سازی، اور عملی اقدام کا۔ کیونکہ اگر ایک قوم اپنے بچوں کا مستقبل تاریک کر دے، تو اس کی تقدیر کبھی روشن نہیں ہو سکتی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں