آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

بندہ کرے کولیاں رب کرے سولیاں

(روردادِ زندگی) تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری (قسط نمبر1)

پچھلے کالم میں میں نے گورنمنٹ کالج آف سائنس ملتان سے گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور مائیگریشن کا ذکر کیا تھا جو میری غلطی کی وجہ سے ہوا تھا۔ مشہور کہاوت ہے “بندہ کرے کولیاں تے رب کرے سولیاں”۔ اِس کا مطلب ہے کہ کبھی کبھار انسان غلطی کرتا ہے تو اللہ اس پر بھی نوازتے ہوئے غلط کو بھی درست کر دیتا ہے۔جب میں لاہور داخل ہو گیا تو اِس کے نتائج بہت اچھے نکلے۔ والد صاحب کو قائل کرنا پڑا کہ لاہور میں تعلیم کا معیار اعلیٰ ہے اور ساتھ ہی چونیاں کے نزدیک گنگن پور کے علاقہ میں والد صاحب کی 30 ایکڑ زرعی اراضی تھی میں نے کہا کہ اس کی دیکھ بھال بھی کر لوں گا۔ رہنا تو ہاسٹل میں ہی ہے لہٰذا ماہانہ خرچے پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ والد صاحب نے یاد دلایا کہ تم تو کہتے تھے کہ زمین اسی کی ہے جو اس پہ کاشت کرتا ہے اس کی بٹائی لینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس دنوں ہم پر انقلابیت کا جذبہ اپنے عروج پہ تھا۔ ہمارے ’’انقلابی‘‘ اساتذہ بتاتے تھے کہ اشتراکی نظام میں وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی بنیادی وجہ ملکیت کا ہونا ہے اور ساتھ ہی زمین پر بنیادی حق اس پہ کاشت کرنے والوں کا ہے میں نے یہ بات ایک دفعہ والد صاحب سے کی تو انہوں نے کہا تھا کہ تم میری دو مربع اراضی دے دو۔ اپنے اور خاندان کے لیے وسائل خود پیدا کر لو۔ میں نے تو یہ رقبہ زندگی بھر محنت کر کے بنایا ہے حتہ کہ میں نے تو اپنی وراثتی زمین بھی آپ کے دادا جان سے نہیں لی تھی بلکہ اپنے بھائیوں کے حق میں دستبردار ہو گیا تھا۔ میں جواب میں کیا کہہ سکتا تھا سوائے اس کے کہ بھٹو صاحب نے سوشلزم تو نافذ نہیں کیا اس لیے جب انقلاب آئے گا تو دیکھیں گے میں تو حقیقت میں اپنی لاہور مائیگریشن کے فوائد بتا کر اپنا کیس بنا رہا تھا۔ والد صاحب نے کہا کہ اگر تم بہتر سمجھتے ہو تو ٹھیک ہے اس طرح خواجہ اظہر صاحب کےسفارشی خط اور ٹیلی فون کی وجہ گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ لاہور کے پرنسپل محترم مجید ملک صاحب نے فوری طور پر میری مائیگریشن اور ہاسٹل میں داخل کروا دیا۔پہلے تو سنتے تھے کہ لاہور لاہور ہے وہاں جا کر واقعی پتہ چلا کہ لاہور واقعی لاہور ہے۔ کالج کی فضا سماجی ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کیلئے بہت بہتر تھی وہاں بہت اچھے دوست ملے مگر بد قسمتی سے کسی کا بھی نام یاد نہیں ہے پہلے تو مباحثوں میں کالج کا بہترین مقرر قرار پایا اور شاعری خاص طور پر غزل میں بھی اول انعام پایا۔ وہاں بھی ایک باقاعدہ شاعر مل گیا تھا بد قسمتی سے ان کا نام بھی بھول گیا ہوں وہ محکمہ ڈاک سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 70/75 سال کے درمیان تھی۔ وہاں پر مباحثوں میں میرا جو ساتھی تھا وہ نقوی نام کا تھا شاعر موصوف کو اس نے تلاش کیا تھا۔ قریشی صاحب کو ان کے گھر سے لینا اور چھوڑنا پڑتا تھا۔ سگریٹ اور چائے کا ہوٹل کا بل ادا کرنا پڑتا تھا۔ قریشی صاحب صاحب دیوان شاعر تھے جس کا ایک نسخہ انہوں مجھے عنایت فرمایا تھا۔ زیادہ تر آزاد شاعری کرتے تھے۔ غزل بھی اچھی لکھتے تھے ان کے دیوان کا تعارف مشہور غزل گو شاعرجگر مراد آبادی نے لکھا تھا مجھ سے وہ دیوان بھی گم ہو گیا۔ قریشی صاحب خود اہل زبان تھے مگر ان کی بیگم کشمیری بٹ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اکثر شعرا کی طرح قریشی صاحب کی بیگم اور بچے ان سے زیادہ خوش نہیں رہتے تھے۔ قریشی صاحب کی بیگم سے جب میں ملتا تھا تو وہ بہت شفیق خاتون لگتی تھی مگر قریشی صاحب اپنی زوجہ محترمہ کے رویہ سے نالاں ہی رہتے تھے انہوں نے شاعری کے اسرار و رموز مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ طرح مصرع پر میں جو تک بندی کرتا تھا وہ بڑی محنت کر کے شعروں میں وزن ندرت خیال پیدا کر دیتے تھے۔ قریشی صاحب سےملاقات ہمیشہ فیروز پور روڈ پر وحدت روڈ سے تھوڑا سا آگے نہر کے کنارے چائے کے ایک کھوکھے پر ملاقات ہوتی تھی۔ ایک غزل مکمل کرنے میں دو سے تین گھنٹے لگتے تھے قریشی صاحب اکثر شاعروں کی طرح بہت موڈی اور دل کے بہت اچھے انسان تھے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں