آج کی تاریخ

بنام نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب

روزنامہ قوم ملتان 7 مارچ 2024۔۔۔

کار جہاں. میاں غفار

سوشل میڈیا پر ایک مختصر سا کلپ دیکھا جس میں پنجاب کی نو منتخب وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف کسی گرلز سکول میں کلاس کے آخری بنچ پر طالبات کے درمیان ایک طالبہ کی طرح بیٹھی ہیں اور خاتون ٹیچر پڑھا رہی ہیں۔ خوشی ہوئی کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلی پر اپنے والد کا وسیع تجربہ لے کر پرونشیل چیف ایگزیکٹو کا منصب سنبھالنے والی محترمہ جہاں بہت متحرک اور مستعد ہیں وہاں ایک خاتون ہونے کے ناطے جس طرح سے وہ پنجاب کی خواتین سے مسلسل ہونے والی ناانصافیوں کا از خود ادراک کر سکتی ہیں، کوئی اور نہیں کر سکتا اور پھر معاشرے کی بہتری میں خواتین کا کردار ہی تو اہم ترین ہوتا ہے اور پنجاب میں خواتین طالبات اور خصوصی طور پر ماوں کو بہت حد تحفظ اور توجہ درکار ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ماں کا تحفظ ہی دراصل معاشرے کی ترقی کا اہم سنگ میل ہے۔

میں یہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر دوبارہ اس واقعہ کو دہرا رہا ہوں۔ سابق آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کے والد مرحوم کی تعزیت کیلئے میں سینئر صحافی افتخار الحسن اور حسن رضا کھاکھی جو کہ اس وقت ملتان میں ایس پی تعینات ہیں، کے ہمراہ ٹوبہ ٹیک سنگھ گیا۔ نشست طویل ہوتی گئی اور باتوں باتوں میں سلیمی صاحب انتہائی احترام سے اپنے ایک سکول ٹیچر بارے گفتگو کرنے لگے کہ وہ اپنے طلبہ پر کتنی محنت کرتے اور جس بھی طالب علم کو سبق یاد نہ ہوتا اسے اپنے ساتھ گھر لے جاتے تھے۔ دیر تک وہ اپنے استاد کی شاندار الفاظ میں تحسین کرتے رہے تو میں نے سوال کیا کہ ان کی اپنی اولاد تو پھر بہت زیادہ پڑھ چکی ہو گی جس پر سلیمی صاحب نے کہا کہ بدقسمتی سے ان کی اولاد نالائق نکلی پھر انہوں نے کہا کہ اصل میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں باپ سے کئی گنا زیادہ کردار ماں کا ہوتا ہے اور ان کی یہ بات دو سو فیصد درست تھی۔

محترمہ وزیر اعلی، آج پنجاب میں جن حالات میں آپ نے صوبے کی چیف ایگزیکٹو کا چارج سنبھالا ہے وہ خواتین اور طالبات کے حوالے سے بہت ہی دگرگوں اور ناقابل بیان ہیں سرکاری اداروں میں خواتین کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ اس قدر اذیت ناک ہے کہ متاثرہ عورت کسی کو بتا ہی نہیں سکتی۔ وہ کسے بتائے کہ اس کے باس نے اسے کس کس طرح بلیک میل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کس منہ سے یہ جملے نکالے کہ اس کا یونیورسٹی پروفیسر اسے بار بار فیل کر کے کیوں بلیک میل کر رہا ہے۔ وہ کس حوصلے سے یہ بات کہے کہ تھانوں میں کن الفاظ کے ساتھ اس کی لفظی آبرو ریزی کی جاتی ہے، کن نظروں سے اسے دیکھا گیا ہے اور کس قسم کے شرمناک سوالات کئے جاتے ہیں۔ یہ باتیں پنجاب کی کوئی بھی ماں اور کوئی بھی بیٹی کسی مرد کو نہیں بتا سکتی حتیٰ کہ اپنے باپ اور بھائی کو بھی نہیں۔ اگر کوئی طالبہ اپنی والدہ سے اس قسم کی بلیک میلنگ شیئر بھی کرے تو 90 فیصد معاملات میں مائیں یہی کہتی ہیں اپنی زبان کو بند ہی رکھو، تعلیم چھوڑ دو یا چند دن گھر رہ لو۔

محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ۔ خدا کیلئے پہلی فرصت میں پنجاب کی یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم کے بعد پروفیسر حضرات کے ہاتھوں بلیک میل ہونے والی طالبات کے سر ڈھانپیں، رازداری اور پردے میں ون ٹو ون بیٹھ کر ان سے معلومات لیں، ہو سکے تو پہلی فرصت میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور زکریا یونیورسٹی ملتان کے گرلز ہاسٹلز میں چند گھنٹے گزاریں اور طالبات سے علیحدہ علیحدہ مکمل راز داری سے گفتگو کریں۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ بہت سے سیاستدانوں اور درجنوں اختیار رکھنے والے سرکاری آفیسرز کے ایسے ایسے بھیانک چہرے آپ کے سامنے آئیں گے کہ آپ حیرت میں گم ہو جائیں گی اور جس طرح کا آپ کا مزاج ہے آپ یقینی طور پر ایسا ایکشن لیں گی کہ کوئی پروفیسر‘ منتخب نمائندہ یا سرکاری آفیسر سالوں تک ایسی جرأت نہ کر سکے گا اور پھر یقینی طور پر یہی ایک قدم آپ کے لئے دنیاوی اور ابدی زندگی میں کامیابی کا باعث بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر مجھے معلوم ہے کہ کس میڈیکل کالج کے گرلز ہاسٹل کی کینٹین کا ٹھیکہ ایک بدنام شراب اور منشیات فروش کے پاس رہ چکا ہے تو سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جس کنٹین کے ٹھیکیدار بارے مجھے علم تھا تو کیا سرکاری ایجنسیوں کو علم نہ تھا؟ کیا کسی نے اس حوالے سے کوئی رپورٹ بھیجی؟ کیا طالبات کے تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز میں کینٹین کے ٹھیکیدار کی واحد اہلیت سب سے زیادہ بولی ہی ہے پھر چاہے وہ وہاں منشیات فروشی ہی شروع کرا دے یا پھر طالبات کے معصوم اذہان میں اپنی غلاظت کی آبیاری کرتا پھرے اوت کوئی پوچھنے والا نہیں ہو۔

محترمہ وزیر اعلیٰ کبھی طالبات سے پوچھیں کہ انہیں کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان و سربراہان طالبات کے علاوہ خواتین اساتذہ کو کس کس طرح بلیک میل اور کس کس طرح اکاموڈیٹ کرتے ہیں۔ ٹیچنگ سٹاف کو کتنی تنخواہیں دیتے ہیں اور کتنا کام لیتے ہیں حتہ کہ بعض تو گرمیوں کی چھٹیاں بھی نہیں دیتے۔ سوال یہ ہے کہ جو پنجاب میں ویمن ہراسمنٹ سیل بنائے گئے ہیں وہ بھی صرف خانہ پری ہے اور اس میں بھی خواتین کو سامنے آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ آخر پردہ داری بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے اور ہمیں رازداری کا بھی تو حکم ہے۔ میں ایک گرلز کالج میں بھرتی ہونے والی ایک ایسی ملازمہ کو بھی جانتا ہوں جو کسی غلیظ الزام میں سزا کاٹ چکی ہے مگر اسے سنبھالنے والوں نے اعلیٰ عدلیہ سے اسے باعزت بری کرا لیا اور پھر اس سے مزید ’’سہولت کاری‘‘ لینے کیلئے ایک تعلیمی ادارے میں بھرتی کروا دیا جہاں سے اسے جتنی تنخواہ ملتی تھی اتنی تنخواہ کا تو وہ وولن سویٹر پہن کر آیا کرتی تھی۔ کسی دردمند شہری نے اسے ملازمت سے نکلوایا مگر وہ بحال ہو کر واپس آ گئی اور بعض اطلاعات کے مطابق ’’ڈیوٹی‘‘ سرانجام دے رہی ہے۔

محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ! آپ اپنے دفتر میں ایک خصوصی سیل قائم کریں جس میں کوئی مرد نہ ہو صرف خواتین ہی ہوں۔ شکایت کنندہ کا نام نہ ہو بلکہ کوڈ ہو اور شہر و علاقے کا بھی کوڈ ہو تاکہ رازداری رہے۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ صرف تین ماہ میں ایسے ایسے پارسا بے نقاب ہوں گے کہ تصور محال ہے۔ان میں ایسے بھی ہیں جو بڑھ چڑھ کر گرجتے ہیں، کرتوت سامنے آنے پر کبھی آپ کے سامنے آنکھ اٹھا نہ سکیں گے اور ان کی ساری گھن گرج زمین بوس ہو جائے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں