اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام قومی مشاورت اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ اب ایک دور کی بات لگتی ہے، بدقسمتی سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومت کی رٹ موجود نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی ناکامی یا شعوری غفلت کے باعث ملک بدامنی کا شکار ہے، دن دیہاڑے دہشت گرد آزاد گھومتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے اسلحہ اٹھانا غیر شرعی ہے، مسلح جدوجہد کو ہم پہلے بھی حرام قرار دے چکے ہیں اور آئندہ بھی اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ فاٹا سے سوات اور وزیرستان تک ہونے والے آپریشنز کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے باوجود بے گھر ہونے والے آج بھی واپس اپنے گھروں کو نہیں جا سکے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے سود کے خاتمے سے متعلق آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 31 دسمبر 2027 سود کے خاتمے کی آخری تاریخ ہے، اگر حکومت اپنے وعدے سے پیچھے ہٹی تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔
غیرت کے نام پر قتل کو غیر شرعی اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نکاح جیسے جائز عمل میں رکاوٹ ڈال کر بے راہ روی کو فروغ دینا اسلام اور آئین دونوں کے خلاف ہے۔
انہوں نے کشمیر پالیسی پر بھی ریاستی موقف کی کمزوری کی نشاندہی کی اور کہا کہ پاکستان آہستہ آہستہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ رہا ہے، اور فاٹا انضمام جیسے فیصلے امریکی ایجنڈے کے تحت کیے گئے، جو آج خود صوبائی حکومت بھی غلط تسلیم کر رہی ہے۔
فلسطین کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے، جبکہ ایران کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کے جواب کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حرمین شریفین اور قبلہ اول کے تحفظ کے لیے ہم امت مسلمہ کے ساتھ میدان میں موجود رہیں گے۔
