وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے جائزہ اجلاس میں برآمدی ترقیاتی محصول کو فوری طور پر ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے، وہ بظاہر ایک درست قدم ہے، لیکن اسے برآمدات کے بحران کا مکمل حل سمجھنا خود ایک بڑی غلط فہمی ہوگی۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کی برآمدی صنعت پہلے ہی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت، غیر یقینی معاشی ماحول، ثانوی اہمیت کی حامل سرکاری ترجیحات اور عالمی منڈیوں میں کم ہوتی مسابقت سے شدید زخمی ہے۔ محض ایک سورت چارج کا خاتمہ کسی پالیسی انقلاب کے مترادف نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی علامت ہے جو دہائیوں سے غیر مؤثر اور غیر شفاف رہا۔برآمدی ترقیاتی محصول انیس سو اکیانوے میں اس بنیاد پر لگایا گیا تھا کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم برآمدی صنعت کے فروغ پر خرچ کی جائے گی۔ بعد ازاں انیس سو ننانوے اور دو ہزار پانچ کی ترامیم کے ذریعے ایک باقاعدہ فنڈ تشکیل پایا۔ لیکن برسوں کے دوران یہ فنڈ کس نے استعمال کیا، کن منصوبوں پر خرچ ہوا، اور کن کے ہاتھوں ضائع ہوا—یہ سب کچھ شدید ابہام میں ڈوبا ہوا ہے۔ وزارتِ تجارت کی ماتحت ویب گاہ پر دو ہزار انیس سے پہلے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں۔ کیا یہ خاموشی اس بات کی علامت ہے کہ ان برسوں میں کوئی منصوبہ نہیں بنا، یا پھر شفافیت کا فقدان اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ریاست اپنی ہی دستاویزات منظرعام پر لانے کی اہل نہیں؟ یہ سوالات خود فنڈ کی کارکردگی پر ایک ناقابلِ تردید فردِ جرم ہیں۔وزیراعظم کا فنڈ کا مکمل غیر جانب دارانہ آڈٹ کرانے کا حکم یقیناً قابلِ تحسین ہے۔ مگر اسی فنڈ سے جاری شدہ منصوبوں کی نوعیت پر نظر ڈالیں تو حیرانی مزید بڑھ جاتی ہے۔ محض چھ ملین کی لاگت سے مزدوروں کے حقوق سے متعلق عالمی معاہدوں پر تکنیکی معاونت کا منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔ دو ہزار بیس میں چار منصوبے شروع ہوئے جن میں سے ایک پودوں کے تحفظ کے نظام کی بہتری، دوسرا تجارت ترقیاتی ادارہ، تیسرا چھوٹے و درمیانے کاروبار کی برآمدات کو آن لائن تجارت کے ذریعے بڑھانا، اور چوتھا قبائلی علاقوں میں کسٹم اہلکاروں کے رہائشی دفاتر کی تعمیر جیسی چیزیں شامل تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا برآمدی فنڈ دراصل برآمدی صنعت کے لیے تھا یا سرکاری محکموں کی سہولت کاری کے لیے؟دو ہزار اکیس میں چمڑے کی صنعت کے لیے تجربہ گاہی ٹیسٹنگ پر پچھتر فیصد سرکاری سبسڈی، افغان وفد کے دورۂ پاکستان پر خطیر رقم، بین الاقوامی سمندری معاہدوں سے متعلق لابنگ، اور ٹونا مچھلی کی مصنوعات کی تیاری جیسے منصوبے بھی اسی فنڈ سے جاری ہوئے۔ یہ سب منصوبے اپنی جگہ اہم ہو سکتے ہیں مگر یہ براہِ راست برآمدی صنعت کی پیداواری لاگت اور مسابقت سے متعلق اصل مسائل سے میل نہیں کھاتے۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ فنڈ اپنے مقصد سے کتنا ہم آہنگ رہا؟ کیا یہ منصوبے برآمدی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط بنانے کے لیے تھے یا محض رسمی سرگرمیاں؟اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ آج پاکستان کی برآمدی صنعت کا المیہ یہ نہیں کہ اسے چوتھائی فیصد کا محصول ادا کرنا پڑتا تھا، بلکہ یہ ہے کہ وہ خطے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگی توانائی پر کام کرتی ہے۔ بجلی کے نرخ خطے سے کئی گنا زیادہ ہیں، گیس کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں، پیداواری لاگت میں ٹیکسوں کا حصہ ناقابلِ برداشت ہے، جبکہ سود کی شرح دہائیوں میں پہلی مرتبہ اتنی بلند سطح پر پہنچ کر صنعتوں کی سانسیں روک چکی ہے۔ ایسے میں اگر حکومت محض ایک محصول کو ختم کرکے سمجھتی ہے کہ برآمدات میں جان پڑ جائے گی تو یہ خوش فہمی کا شکار ہے۔مسئلہ دوسرا ہے: پاکستان کی برآمدات بنیادی اور روایتی مصنوعات تک محدود ہیں۔ دنیا جب ٹیکنالوجی، تحقیق، ڈیزائن اور جدت کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے، پاکستان کا برآمدی ڈھانچہ آج بھی تیس برس پرانے خاکے میں قید ہے۔ بلند قدر کی حامل مصنوعات ہماری برآمدی فہرست میں شامل ہی نہیں۔ جب تک تحقیق، مسابقتی ماحول، صنعتی جدت اور عالمی سطح کی ٹیکنالوجی ہماری صنعتوں کا حصہ نہ بنے گی، محض محصولات ختم کرنے سے کوئی معجزہ جنم نہیں لے گا۔عالمی بینک نے اپنی ایک جامع رپورٹ میں پاکستان کی برآمدات بڑھانے کے لیے چند بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔ ان میں نہ صرف تجارتی معاہدوں کی اصلاح شامل ہے بلکہ توانائی کی قیمتوں میں حقیقی استحکام، پیداواری لاگت میں کمی، اور صنعتی ڈھانچے میں وسیع پیمانے پر اصلاحات بھی ضروری قرار دی گئی ہیں۔ وزیراعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض ایک محصول ختم کرنے کو بڑی کامیابی نہ سمجھیں بلکہ ان عالمی سفارشات کو بھی اپنی پالیسی میں شامل کریں جن کے بغیر برآمدات کبھی نہیں بڑھ سکتیں۔حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے ہی موجودہ اخراجات ہیں۔ بجٹ کا بڑا حصہ جاری اخراجات کی نذر ہوتا ہے، جس سے ترقیاتی اخراجات اور صنعتی معاونت کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔ ایسے میں حکومت جب محصولات بڑھانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ بوجھ صنعتوں اور برآمدات پر پڑتا ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث بین الاقوامی کمپنیاں ملک چھوڑ رہی ہیں، اور ملکی صنعتیں اپنی پیداوار کم کرنے پر مجبور ہیں۔یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ عالمی سرمایہ کاری کبھی بھی ایسی معیشت میں نہیں آتی جہاں سود کی شرح خطے کے مقابلے میں دوگنی ہو، جہاں توانائی سیاسی فیصلوں کے باعث بار بار مہنگی ہو جائے، جہاں پالیسی ایک سال میں تین بار بدل جائے، اور جہاں برآمدی پالیسیوں کا تسلسل سرے سے موجود ہی نہ ہو۔وزیراعظم کا فیصلہ ایک درست سمت کی طرف پہلا قدم ضرور ہے، لیکن یہ واحد قدم نہیں ہونا چاہیے۔ برآمدات اس وقت بڑھیں گی جب ملک میں صنعت کو سستا اور قابلِ پیش گوئی ماحول ملے گا، جب تجارتی معاہدوں کی اصلاح ہوگی، جب حکومتی اخراجات کم ہوں گے، جب ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری بڑھے گی، اور جب حکومت پالیسی تسلسل کو ترجیح دے گی۔







