ملتان(سٹاف رپورٹر) شرمناک ترین اخلاقی الزام میں بدترین ذلت کے بعد ایمرسن یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ سے مستعفی ہونے والے ڈاکٹر رمضان گجر کے مالی حرام خوری کے ساتھی ڈاکٹر فاروق اور ڈاکٹر شبیر کے علاوہ ڈاکٹررمضان کے سہولت کاروں نے پھر سے اپنے گرو کو بچانے کیلئے دوڑ دھوپ شروع کردی ہے اور اس سلسلے میں برادری کا پلیٹ فارم بھرپور انداز میں استعمال کیا جارہا ہے دو روز قبل شیر محمد نامی ایک نوجوان جس کا شناختی کارڈ نمبر36102-1906976-7 جبکہ ایڈریس مدینہ ٹائون ملتان ہے نے فون نمبر0300-7347384سے فون کرکے اعجاز حسین باورچی کو سخت نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ ہماری پولیس سے بات ہوگئی ہے ۔آپ لکھ دو کہ آپ کارروائی نہیں کرنا چاہتے اور درخواست واپس لے لو ورنہ نتائج کے تم خود ذمہ دار ہوگے۔اعجاز حسین نے اس فون کال کی ریکارڈنگ نہ صرف محفوظ کرلی بلکہ اسے اپنے دوستوں کو فارورڈ کرکے انہیں بھی محفوظ کرنے کا کہہ دیا ہے تاکہ کل کلاں کسی بھی حادثے کی صورت میں فون پر دھمکی دینے والے کیخلاف کارورائی کی جاسکے۔توجہ طلب امر یہ ہے کہ اس نمبر سے فون کرنے والا شخص اپنا تعارف حساس ادارے کے ملازم کے طور پر کراتا رہا اور اس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمہیں یعنی اعجاز حسین کو بھی اٹھا لیں گے علاوہ ازیں ایک خط بھی سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا جس پر کسی کے دستخط نہیں مگر اس پر اتحاد اساتذہ جامعات لکھا ہوا ہے اور اس خط کے نیچے دس یونیورسٹیوں کے نام لکھے ہوئے ہیں مگر کسی بھی استاد کا نام نہیں لکھا حتیٰ کہ اس اتحاد اساتذہ کے سربراہ کا نام بھی اس خط میں موجود نہیں ہے۔اس خط میں جوکہ حساس ادارے کے نام لکھا گیا ہے جس میں ایمرسن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کےثابت شدہ جنسی سکینڈل کو بلیک میلنگ اور منظم سازش قراردیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ محض ڈاکٹر رمضان کی ذاتی کمزوری کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک منصوبہ بندی کے تحت نیٹ ورک کی کارستانی ہے جس کا مقصد وائس چانسلر کو ذاتی کمزوریوں کی بنا پر بلیک میل کرنا ہے۔یہ محض بدفعلی کا معاملہ نہیں بلکہ چند اساتذہ،سیاستدان،پرائیویٹ مافیا اور بدنام صحافی وائس چانسلر کو عرصہ دراز سے بلیک میل کرتے آرہے ہیں اب انہوں نے ان کی ذاتی کمزوری کو نشانہ بنا کر ادارے کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔اس خط میں سوال کیا گیا ہے کہ اعجاز حسین جوکہ36سالہ نوجوان ہے کیوں کر ایک بزرگ شخص(ڈاکٹر رمضان)کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہا اور اچانک مظلوم بن گیا۔اس خط میں ڈاکٹر رمضان کے مکروہ فعل کو تحفظ دینے کیلئے اس کےپروردہ لوگوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ اعجاز حسین نے ایک معمر شخص کو جنسی طور پور ورغلایا اور مالی مفاد حاصل کئے اپنی اہلیہ اور دو قریبی افراد کو یونیورسٹی میں ملازمتیں دلوائیں،لاکھوں روپے وصول کئے۔کچھ سیاستدان،چند وی سی بننے کے خواہشمند حضرات اور بدنام زمانہ صحافی اس کھیل میں فائدہ اٹھاتے رہے۔جب وائس چانسلر(ڈاکٹر مضان)نے مزید مالی رقوم دینے سے انکار کیا تو یہ گروہ مظلوم بن کر سامنے آگیا جس کا مقصد ادارے کی ساکھ کو تباہ کرنا ہے۔ہمارے معاشرے میں اخلاقی لغزش پر اداروں کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس نامعلوم تنظیم کی طرف سے لکھے گئے خط میں ڈاکٹر رمضان کی بداخلاقی کا بھرپور دفاع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ار اگر اس تنظیم کا کوئی وجود ہے اور انہوں نے یہ خط بھی جاری کیا ہے تو یہ تعلیمی اداروں سے وابستہ اعلیٰ حیثیت کے اساتذہ کی اخلاقی پستی پر مہر تصدیق سے زیادہ کچھ نہیں۔
