پاکستان میں طاقتور افراد اور اداروں کے احتساب کی تاریخ ہمیشہ متنازع اور نیم دل رہی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں بحریہ ٹاؤن اور اس کے سربراہ ملک ریاض کی جانب سے ریاست کے سامنے باعزت مکالمے” اور “وقار کے ساتھ حل” کی اپیل نے ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے — ایک ایسا باب جس میں ایک عرصے تک ناقابلِ احتساب سمجھے جانے والے شخص کو پہلی مرتبہ ریاستی شکنجے کی شدت محسوس ہو رہی ہے۔
یہ وہی بحریہ ٹاؤن ہے جو عشروں تک پاکستان کی طاقتور اشرافیہ کا نمائندہ منصوبہ رہا۔ زمینوں پر قبضے، غیر شفاف سودے، اور طاقتور بیوروکریسی و سیاسی حلقوں سے قریبی تعلقات نے اسے ناقابلِ تسخیر حیثیت عطا کر دی تھی۔ سپریم کورٹ کے احکامات ہوں یا نیب کی تحقیقات، اکثر اوقات یہ کمپنی بچ نکلتی تھی — یا کم از کم وقتی ریلیف حاصل کر لیتی تھی۔
مگر اب حالات نے کروٹ لی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کی جائیدادوں کی نیلامی سے متعلق نیب کی درخواست پر فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے، اور خود ملک ریاض یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کی کمپنی کی مالی حالت دگرگوں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تنخواہیں دینا ممکن نہیں رہا، روزمرہ خدمات رُک چکی ہیں، اور وہ مکمل بندش کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
یہ منظرنامہ صرف ایک بزنس گروپ کے زوال کی کہانی نہیں — بلکہ یہ ریاست پاکستان کے لیے بھی ایک موقع ہے کہ وہ ثابت کرے کہ قانون کی بالادستی محض کمزوروں کے لیے نہیں، بلکہ بااثر طبقے بھی اسی قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کے خلاف اربوں روپے کی ادائیگی کا معاملہ بھی خود اس کے ماضی کی غیر قانونی سرگرمیوں سے جڑا ہے۔ 2019 میں سپریم کورٹ نے کراچی کے ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ زمین کے غیر قانونی حصول پر 460 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اسی سال ملک ریاض نے یو کے نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ 190 ملین پاؤنڈ کا سیٹلمنٹ کیا، جسے بعد ازاں پاکستان لایا گیا، مگر یہ رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی — ایک ایسا پیچیدہ قانونی و اخلاقی سوال، جس نے آج تک مکمل وضاحت نہیں پائی۔
اور اب جب نیب نے بحریہ ٹاؤن کی 450 سے زائد جائیدادیں منجمد کی ہیں، اور عدالتیں بھی اب نرم گوشہ دکھانے سے گریز کر رہی ہیں، تو ملک ریاض کا یہ مؤقف کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، محض ایک دفاعی حکمت عملی نظر آتی ہے۔
ملک ریاض کا کہنا ہے کہ ان پر دباؤ اس لیے ہے کیونکہ انہوں نے القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تعاون سے انکار کیا۔ اگر یہ سچ ہے، تو یہ ریاست کے لیے ایک اور امتحان ہے — اگر عمران خان کو کسی غیر قانونی رعایت دینے پر سابق حکومت پر تنقید کی گئی، تو اب کسی نئے “تعاون” کے بدلے میں بحریہ ٹاؤن کو رعایت دینا وہی گناہ ہو گا۔
اس وقت انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ملک ریاض اور ان کی کمپنی کو مکمل طور پر شفاف، غیر جانب دار اور قانونی دائرے میں رہ کر احتساب کا سامنا کرنا چاہیے۔ کوئی خصوصی رعایت، کوئی خفیہ سیٹلمنٹ یا غیر رسمی مکالمہ نہ صرف عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا بلکہ عام شہری کا ریاست پر اعتماد مزید کمزور کرے گا۔
یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بحریہ ٹاؤن کے پھیلاؤ کی قیمت صرف ریاستی خزانے نے نہیں بلکہ ان عام شہریوں نے بھی چکائی ہے جنہیں زمینوں سے بے دخل کیا گیا، مقدمات میں الجھایا گیا، یا برسوں اپنی سرمایہ کاری کے بدلے پلاٹ اور گھر نہ ملے۔ آج اگر بحریہ ٹاؤن مشکل میں ہے تو ہزاروں متاثرین کے لیے یہ محض انصاف کا آغاز ہے، انتقام نہیں۔
ریاست کے پاس اب ایک تاریخی موقع ہے — وہ چاہے تو اس کیس کو قانون کی بالادستی کی علامت بنا سکتی ہے، یا پھر ایک اور موقع پرست سمجھوتے کی علامت۔
انتخاب ریاست کا ہے، لیکن یاد رکھنا چاہیے: اگر قانون طاقتور پر لاگو نہ ہو، تو وہ صرف کمزور کو دبانے کا آلہ بن جاتا ہے۔
وفاق اور صوبوں کی مالیاتی کارکردگی
حکومتِ پاکستان نے مالی سال 2024-25 کے لیے وفاقی و صوبائی مالیاتی کارکردگی کی جو مرکب رپورٹ پانچ اگست کو وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر شائع کی ہے، وہ نہ صرف اعداد و شمار کے پیچیدہ تانے بانے کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی معاشی “اصلاحات” کے دعووں کو بھی سخت آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔
ایک طرف دعویٰ ہے کہ پاکستان اب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جاری پروگرام کو آخری پروگرام بنانا چاہتا ہے، اور دوسری جانب مالیاتی نظم و ضبط کی صورت حال بتدریج بگڑتی جا رہی ہے، خاص طور پر کرنٹ اخراجات کے معاملے میں جو کہ اب جی ڈی پی کا 95 فیصد ہو چکے ہیں — یہ ایک خطرناک حد ہے جو نہ صرف مالیاتی پالیسی کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش ختم ہونے کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
حکومت نے 17 کھرب روپے کے کرنٹ اخراجات کا بجٹ پیش کیا، جس میں سے 15.69 کھرب روپے خرچ کیے گئے — بظاہر 1.6 کھرب روپے کی بچت ہوئی، جس کا سبب ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی بتایا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سود کی ادائیگیاں کرنٹ اخراجات کا سب سے بڑا جزو بن چکی ہیں: پچھلے سال 8.15 کھرب روپے کے مقابلے میں اس سال 8.88 کھرب روپے صرف سود میں ادا کیے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ریاست اپنی آمدنی کا بڑا حصہ محض قرضوں کی ادائیگی میں جھونک رہی ہے — نہ کہ تعلیم، صحت، یا ترقیاتی منصوبوں پر۔
حکومتی آمدنی میں اضافے کا دعویٰ بھی ایک غیر متوازن ٹیکس پالیسی پر مبنی ہے۔ اگرچہ براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے، لیکن حقیقت میں ان میں زیادہ تر وہ ٹیکس شامل ہیں جو سیلز ٹیکس کے انداز میں منہا کیے گئے “ودہولڈنگ ٹیکس” کی صورت میں عوام پر نافذ کیے گئے — یعنی بظاہر “براہ راست ٹیکس”، مگر عملاً غیر مستقیم ٹیکس جو کم آمدنی والے طبقے پر زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں۔
اسی طرح پٹرولیم لیوی اور اسٹیٹ بینک کے منافع میں غیر معمولی اضافے نے غیر ٹیکس آمدنی کو بڑھایا ہے۔ مگر یہ اضافہ قیمتوں میں اضافہ، عوام کی قوتِ خرید میں کمی، اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارکیٹ سے ڈالر نکالنے کی پالیسی کا نتیجہ ہے، جس سے روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کا تسلسل جنم لے رہا ہے۔
ترقیاتی اخراجات میں دکھایا گیا اضافہ بھی محض کاغذی اجازتوں کی بنیاد پر ہے، اصل رقوم کی ادائیگی یا عملی منصوبوں کا آغاز نہ ہونے کے برابر ہے۔ مالی سال کے آخر میں اچانک 189 ارب روپے کی ادائیگیوں کا دعویٰ بھی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔
جی ڈی پی کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے وہ بھی گمراہ کن محسوس ہوتا ہے۔ جب حقیقی شرح نمو صرف 2.6 فیصد رہی، تو نام نہاد 8 فیصد کا اضافہ دراصل افراطِ زر یا کرنسی کی قدر میں کمی کا مظہر ہو سکتا ہے، نہ کہ معاشی ترقی کا۔ اسی تناظر میں آئی ایم ایف نے بھی حکومت کو حقیقی مؤثر زر مبادلہ کی شرح (ریئل ایفیکٹو ایکسچینج ریٹ) کی نگرانی کا مشورہ دیا ہے تاکہ برآمدات کی مسابقت برقرار رہ سکے۔
صوبوں کی سطح پر سروسز پر سیلز ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ضرور ہوا ہے، خاص طور پر سندھ اور پنجاب کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی ہے، مگر اندرونی طور پر صوبوں کا بینکوں سے قرض لینا (منفی بیلنس) اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے دعویٰ کردہ مالیاتی “سرپلس” دراصل ایک ادھار پر چلنے والا بیلنس ہے، نہ کہ مالیاتی نظم و ضبط کا ثبوت۔
جہاں بجٹ خسارے میں کمی دکھائی گئی ہے (7.2 کھرب سے کم ہو کر 6.1 کھرب)، وہاں یہ واضح ہے کہ یہ کمی آمدنی میں حقیقی بہتری کے بجائے قرضوں میں اضافے اور ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کا نتیجہ ہے۔
ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اپنی معاشی پالیسی کو وقتی سہولتوں اور عددی جادوگری کے ذریعے پیش کر رہی ہے، مگر اصلاحات کی اصل روح — یعنی قرضوں پر انحصار کم کرنا، ٹیکس نظام کو منصفانہ بنانا، اور ترقیاتی سرمایہ کاری بڑھانا — تقریباً ناپید ہے۔
اگر یہی روش برقرار رہی تو نہ صرف موجودہ آئی ایم ایف پروگرام آخری ثابت نہیں ہوگا، بلکہ پاکستان ایک ایسے مالیاتی دائرے میں قید رہے گا جہاں ہر آنے والا بجٹ مزید قرض، مزید سود، اور مزید عوامی مشکلات کا پیش خیمہ ہوگا۔
وقت آ چکا ہے کہ معاشی پالیسی کو اعداد و شمار کے پردے سے نکال کر حقیقی معیارات پر جانچا جائے: غربت میں کمی، روزگار کے مواقع، تعلیم و صحت کی سہولیات، اور معاشی خودمختاری۔ یہ سب وہ پیمانے ہیں جو کسی بھی قوم کی ترقی کا اصل پیمانہ ہوتے ہیں — نہ کہ عارضی “فِسکل بیلنس”/ مالیاتی توازن یا “کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس”۔