کراچی، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں حالیہ بارشوں اور گلیشیئر پگھلنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے ایک بار پھر ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ چند گھنٹوں کی بارش نے کراچی جیسے شہر کی سڑکوں کو دریا بنا دیا، انڈرپاسز پانی سے بھر گئے، ٹریفک معطل ہو گئی، اور کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی بند ہو گئی۔ حکومتِ سندھ کی جانب سے ایمرجنسی نافذ کرنے اور اداروں کو ہائی الرٹ” پر رکھنے کے تمام دعوے زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتے۔ یہی حال پہاڑی علاقوں میں ہے، جہاں گلیشیئرز کے پگھلنے سے دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی آئی، مگر ریسکیو ٹیمیں تاخیر سے پہنچیں یا پہنچی ہی نہیں۔
ان تمام واقعات نے اس حقیقت کو بے نقاب کیا کہ پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نام پر بنائے گئے ادارے چاہے وہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) ہو، صوبائی اتھارٹیز ہوں یا ضلعی انتظامیہ، ان کی تیاری اکثر صرف کاغذوں پر نظر آتی ہے۔ جب آفات آتی ہیں تو دعوے کیے جاتے ہیں، اجلاس بلائے جاتے ہیں، اور پریس ریلیز جاری کی جاتی ہیں، مگر عوام کو بروقت مدد نہیں پہنچتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ادارے صرف بعد از تباہی کارروائی کے لیے بنے ہیں؟ یا ان کا اصل کام پیشگی تیاری، ممکنہ خطرات کی نشاندہی اور عوام کو محفوظ رکھنا ہونا چاہیے؟
اب صورتحال یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق سرائیکی وسیب، خصوصاً مظفرگڑھ، لیہ، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، تونسہ اور دیگر دریا کنارے علاقوں میں 20 اگست سے بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دریائے سندھ، چناب اور دیگر ندی نالوں میں طغیانی آ سکتی ہے، جس کے نتیجے میں کئی علاقے زیرِ آب آ سکتے ہیں۔ یہ علاقے نہ صرف جغرافیائی طور پر حساس ہیں بلکہ ہمیشہ سے انتظامی نظراندازی کا شکار رہے ہیں۔ اگر برسات میں ان علاقوں کو بروقت محفوظ نہ بنایا گیا، تو اس بار بھی ہم وہی منظر دیکھیں گے: لوگ چھتوں پر پناہ لیے مدد کے منتظر، مال مویشی بہہ جانے پر روتے ہوئے کسان، اور کچے مکانوں کی گرتی ہوئی دیواریں۔
یہی وقت ہے کہ ریاستی ادارے خواب غفلت سے جاگیں۔ صرف “ہائی الرٹ” کے اعلانات کافی نہیں ہوتے۔ NDMA، PDMA، ریسکیو 1122، ضلعی حکومتیں اور مقامی بلدیاتی نمائندے — سب کو فوری اور مربوط انداز میں کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے، ان علاقوں کی خطرے کی زد میں موجود آبادی کو شناخت کیا جائے۔ لوگوں کو پیشگی آگاہی دی جائے، مقامی زبانوں میں وارننگ پیغامات بھیجے جائیں، اور اگر ضرورت ہو تو احتیاطاً انخلا کا عمل قبل از وقت شروع کیا جائے۔
دوسرا، ہر ضلع کی سطح پر ہنگامی کیمپ، طبی مراکز، خوراک اور پینے کے پانی کی فراہمی کا انتظام پہلے سے موجود ہونا چاہیے۔ یہ وقت ایسی تیاریوں کا نہیں کہ جب پانی گھروں میں داخل ہو جائے تو ہم امدادی سامان پیک کرنا شروع کریں۔ تیسرے، دریائی بندوں اور نہروں کی فوری مرمت اور مضبوطی ناگزیر ہو چکی ہے۔ جنوبی پنجاب کے کئی بند برسوں سے خستہ حال ہیں، جن کے ٹوٹنے کا خطرہ ہر بار سر پر منڈلاتا ہے۔ ان بندوں پر فوری کام نہ کرنا کھلی غفلت ہوگی۔
مزید یہ کہ مقامی سطح پر فوری رسپانس ٹیمیں قائم کی جائیں جو بنیادی فرسٹ ایڈ، ابتدائی انخلا اور مقامی رہنمائی کا کام انجام دے سکیں۔ ان ٹیموں میں مقامی رضاکاروں کو شامل کرنا چاہیے تاکہ وہ بحران کے وقت اپنی برادری کی بہتر مدد کر سکیں۔ میڈیا، مقامی ریڈیو، موبائل الرٹس، مساجد کے اعلانات — یہ سب ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ ہر فرد کو خطرے کی نوعیت اور اقدامات سے آگاہ کیا جا سکے۔
آخر میں ایک بنیادی سوال: کیا ہمارے ریاستی ادارے واقعی قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ یا ہر سال کی طرح اس بار بھی ہم صرف بارش کے بعد پانی میں بہتی ہوئی لاشوں، گھروں کے ملبے اور امدادی پیکٹوں کی تصاویر دیکھیں گے؟ کیا ہر تباہی کے بعد ہم صرف وعدوں، پریس کانفرنسوں، اور کمیٹیوں کا انتظار کرتے رہیں گے؟ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو یہ نظام نہیں، صرف فریب ہے۔
عوام اب یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ قدرتی آفات کو روکنا ممکن نہ سہی، مگر ان سے پہلے تیاری کرنا، لوگوں کو محفوظ رکھنا، اور نقصان کو کم سے کم کرنا کیا واقعی بھی ہمارے اداروں کے دائرہ کار میں آتا ہے؟ اگر ہاں، تو پھر وقت آ گیا ہے کہ عمل سے یہ ثابت کیا جائے۔ بصورت دیگر، ہر بارش کے بعد ہم یہی لکھتے رہیں گے — کہ “یہ سب پہلے بھی ہو چکا ہے”۔
آخر میں ایک بنیادی سوال پوری شدت سے ہمارے سامنے کھڑا ہے: کیا ہمارے ریاستی ادارے واقعی قدرتی آفات سے نمٹنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں؟
یہ سوال اب محض تنقید یا شکایت نہیں، بلکہ بقاء کا سوال ہے۔ کیا ریاست صرف آفات کے بعد رسمی افسوس، مالی امداد کے وعدے، اور پریس کانفرنسز کے ذریعے اپنی ذمہ داری پوری کرتی رہے گی؟ یا وہ اس نکتہ پر پہنچ چکی ہے جہاں اسے خطرے سے پہلے متحرک اور جواب دہ ہونا پڑے گا؟
قدرتی آفات کے بعد ریسکیو اور ریلیف کی کارروائیاں جتنا بھی مؤثر ہوں، وہ انسانی جان، عزت اور روزگار کے نقصان کا مکمل نعم البدل نہیں بن سکتیں۔ جب ایک کسان کا سال بھر کی محنت سے اگایا گیا کھیت سیلاب میں بہہ جائے، جب ایک ماں اپنے بچوں کے ساتھ کچے گھر کی چھت پر پانی میں گھر جائے، جب ایک بزرگ کو مدد کے انتظار میں جان دینا پڑے، تو پھر کوئی ریلیف پیکٹ، کوئی فوٹو سیشن، کوئی بیوروکریٹ کا دورہ ان کے نقصان کو واپس نہیں لا سکتا۔
اصل امتحان آفت کے بعد نہیں، آفت سے پہلے تیاری کا ہوتا ہے۔ اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ریاستی نظام بری طرح ناکام نظر آتا ہے۔ ہر سال، ہر آفت کے بعد یہی منظرنامہ دہرایا جاتا ہے۔ تباہی آتی ہے، آنکھیں کھلتی ہیں، دورے ہوتے ہیں، وعدے کیے جاتے ہیں، چند دن بعد سب کچھ فراموش ہو جاتا ہے — اور اگلے سال پھر وہی سانحہ، پھر وہی دلاسے، پھر وہی غفلت۔
یہ صرف اداروں کی ناکامی نہیں، بلکہ ایک نظامی بے حسی ہے۔ ایک ایسا مزاج جو پیشگی تیاری کو غیر ضروری، اور انسانی جان کو قابلِ قدر نہیں سمجھتا۔ جب تک اس مزاج کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، ہم ہر بارش، ہر سیلاب، ہر گلیشیئر کے پگھلنے کے ساتھ اپنے ہی لوگوں کو ڈوبتے، بلکتے، اور مرتے دیکھتے رہیں گے۔
اس بار سوال صرف یہ نہیں کہ “کیا ادارے اہل ہیں؟” بلکہ یہ بھی ہے کہ کیا ریاستی ترجیحات میں عام انسان کی جان، اس کا روزگار، اور اس کی زمین کوئی اہمیت رکھتے ہیں؟ کیا پسماندہ علاقوں — جیسے سرائیکی وسیب، گلگت بلتستان، دیر، بونیر، آزاد کشمیر — میں بسنے والے لوگ صرف ووٹ کے دن یاد رکھے جاتے ہیں؟ کیا ان کے لیے مؤثر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کسی فائل میں دبا ہوا منصوبہ ہی رہے گا؟
اگر جواب “ہاں” میں ہے تو پھر ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے کہ ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ اور اگر ریاست واقعی اپنی عوام کی جان و مال کو تحفظ دینے میں سنجیدہ ہے، تو اب وقت آ گیا ہے کہ ہر سال دہرائی جانے والی اس بے حسی کے سائیکل کو توڑا جائے۔ ورنہ تاریخ ہمیں صرف ایک سست، غیر ذمہ دار اور تماشائی ریاست کے طور پر یاد رکھے گی۔
اگر ہم ان تمام تباہ کاریوں، ہر سال دہرائی جانے والی ناکامیوں، اور بے عملی کے سلسلے پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ محض ایک انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی بحران ہے۔ ریاست، اس کے ادارے اور پالیسی ساز اب تک قدرتی آفات کو صرف وقتی چیلنج سمجھتے ہیں، نہ کہ ایک مستقل، پیچیدہ اور مسلسل بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرے کے طور پر۔
جب دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی (climate change) کے اثرات سے نمٹنے کے لیے نئے قوانین، فوری ایکشن پلان، اور جدید سسٹمز پر کام ہو رہا ہے، ہم اب بھی سیلاب سے بچاؤ کے لیے وہی پرانی ریت، وہی ٹوٹے بند، اور وہی بیلچے لیے کھڑے ہیں۔ ہر سال مون سون آتا ہے، ہر سال لوگوں کی زندگیوں کا سلسلہ ٹوٹتا ہے، لیکن حکومتی رویہ “موسم کی مہربانی” یا “قدرت کا فیصلہ” کہہ کر جان چھڑانے کی روایت پر قائم ہے۔
یہ دراصل ریاستی ذمہ داری سے فرار ہے — ایک ایسا فرار جس کا سب سے زیادہ بوجھ ان علاقوں پر پڑتا ہے جو پہلے ہی پسماندگی، غربت اور سیاسی بے توجہی کا شکار ہیں۔ مثلاً سرائیکی وسیب جہاں نہ صنعتی ترقی ہے، نہ تعلیمی سہولیات، نہ ہی صحت کی سہولتوں کا جال — وہاں اگر سیلاب آ جائے تو لوگوں کے پاس نہ محفوظ جگہ ہوتی ہے، نہ ہجرت کا وسیلہ، نہ بحالی کی امید۔
یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ کیا یہ غفلت محض غیر ارادی ہے؟ یا ریاست کا نظام واقعی ان علاقوں اور لوگوں کو سیاسی طور پر غیر اہم سمجھتا ہے؟ اگر کراچی میں ڈیفنس یا گلشن میں پانی بھر جائے تو سوشل میڈیا، میڈیا اور حکومتی مشینری فوراً متحرک ہو جاتی ہے، لیکن راجن پور، کوہِ سلیمان یا لیہ کے نالہ جات میں درجنوں گھر بہہ جائیں تو بس ایک سطر کی خبر بن کر رہ جاتی ہے۔
یہ دہرا معیار بھی اسی بحران کا حصہ ہے — جغرافیائی اور طبقاتی ناانصافی۔ اور یہ وہ مسئلہ ہے جو نہ صرف ماحولیاتی انصاف کے خلاف ہے، بلکہ آئینی، انسانی اور اخلاقی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔
لہٰذا، ہمیں صرف اداروں کی ناکامی کا تجزیہ نہیں کرنا بلکہ ریاست کی ترجیحات اور فیصلوں کی بنیادوں کو بھی چیلنج کرنا ہوگا۔ ہمیں سوال اٹھانا ہوگا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ماحولیاتی تحفظ، اور انسانی جان کا تحفظ ہماری پالیسیوں کے مرکز میں کیوں نہیں ہے؟ جب تک یہ بنیادی سوالات نہیں اٹھائے جائیں گے، تب تک ہر سال کی تباہی محض “قدرت کا قہر” کہہ کر ٹال دی جائے گی۔
ہمیں ایک نئی سیاسی، انتظامی اور اخلاقی بیداری کی ضرورت ہے — جو صرف حکومت نہیں، بلکہ معاشرے، میڈیا، سول سوسائٹی، اور ہر فرد کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہمیں ایک ایسے اجتماعی شعور کی تشکیل کرنی ہے جو قدرتی آفات کو صرف موسم کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی بقاء کا سوال سمجھے۔ ایک ایسا شعور جو وقت سے پہلے عمل کرے، وقت پر خبردار کرے، اور وقت کے بعد صرف نوحہ نہ لکھے بلکہ جواب دہی بھی کرے۔
