آج کی تاریخ

ایک نئی صبح – نئے سال 2025 پر عزم و امید کا اظہار

دنیا 2025 میں داخل ہو رہی ہے، اور یہ وقت ہے کہ ہم گزرے ہوئے سال پر غور کریں، اس کے سبق سیکھیں، اور نئے سال کے لیے اپنی امیدوں اور عزائم کو واضح کریں۔ 2024 کا سال دنیا بھر کے لیے کٹھن اور چیلنجنگ رہا، لیکن ساتھ ہی اس میں انسانیت کی قوتِ برداشت، تخلیقی صلاحیتوں اور اتحاد کے کئی مظاہر بھی دیکھنے کو ملے۔ عالمی سطح پر، ماحولیاتی تبدیلیاں اور ان کے اثرات سب سے بڑے چیلنج کے طور پر ابھرے۔ شدید گرمی کی لہریں، تباہ کن سیلاب، اور جنگلات کی آگ نے یہ واضح کر دیا کہ زمین کو بچانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ قابل تجدید توانائی میں اضافہ، ماحولیاتی تحفظ کے منصوبے، اور عالمی سطح پر گرین انیشیٹو جیسے اقدامات بھی کیے گئے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر ہم متحد ہو کر عمل کریں تو ماحولیاتی بحران کو کم کرنے کی سمت میں پیشرفت ممکن ہے۔
معاشی طور پر، 2024 ایک مشکل سال تھا، جہاں مہنگائی، سپلائی چین کے مسائل، اور عالمی منڈیوں کی غیر یقینی صورتحال نے کئی ممالک کو متاثر کیا۔ اس کے باوجود، ٹیکنالوجی اور جدید سائنس میں ہونے والی ترقی نے امید کی نئی کرنیں پیدا کیں۔ مصنوعی ذہانت اور بائیوٹیکنالوجی کے میدان میں انقلابی ایجادات دیکھنے کو ملیں، جنہوں نے نہ صرف صحت کے شعبے میں بہتری کی راہیں ہموار کیں بلکہ تعلیم اور کاروبار میں بھی نئی جہتیں پیدا کیں۔ تاہم، ان ایجادات کے ساتھ اخلاقیات کے مسائل بھی پیدا ہوئے، جن پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ ٹیکنالوجیز انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال ہوں، نہ کہ نقصان کے لیے۔
سیاسی طور پر، دنیا بھر میں کئی تنازعات جاری رہے، لیکن ان کے حل کے لیے کچھ اہم سفارتی اقدامات بھی کیے گئے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بات چیت، اگرچہ مشکل رہی، لیکن اس میں معمولی پیشرفت نے امن کی امید کو زندہ رکھا۔ افریقی ممالک نے اپنے علاقائی اتحاد کو مضبوط بنایا، اور مختلف خطوں میں امن و استحکام کے لیے مقامی سطح پر کوششیں کی گئیں۔ یہ لمحے اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ انسانیت کی سب سے بڑی طاقت اس کی گفتگو اور ہمدردی کی صلاحیت میں پوشیدہ ہے۔
پاکستان کی بات کریں تو 2024 کا سال بے شمار چیلنجز اور ان سے نمٹنے کی کہانی رہا۔ معاشی حالات نے عوام پر گہرے اثرات ڈالے، جہاں مہنگائی، بے روزگاری، اور کرنسی کی قدر میں کمی نے زندگیوں کو مشکل بنا دیا۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام نے ان حالات کا مقابلہ غیر معمولی ہمت اور تخلیقی صلاحیت کے ساتھ کیا۔ ڈیجیٹل کاروبار اور نوجوانوں کی تکنیکی جدت طرازی نے یہ ثابت کیا کہ مشکلات کے باوجود پاکستان میں ترقی کی صلاحیت موجود ہے۔
پاکستان میں سیاسی میدان بھی ہنگامہ خیز رہا، جہاں بدعنوانی کے خلاف مظاہرے، شفاف انتخابات کے مطالبات، اور سیاسی قیادت کے احتساب کی آوازیں بلند ہوئیں۔ یہ تحریکیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی عوام اب سیاسی شعور اور اجتماعی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عدلیہ نے آئین کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا، لیکن اس کے فیصلے عوامی رائے میں تقسیم کا سبب بنے۔ آئندہ سال کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور ادارے عوام کا اعتماد بحال کریں اور شفافیت کو یقینی بنائیں۔
سماجی لحاظ سے، 2024 ایک اہم تبدیلی کا سال رہا۔ صنفی مساوات، خواتین کے حقوق، افراد کے مسائل، اور مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے اہم گفتگو شروع ہوئی۔ یہ باتیں طویل عرصے تک ممنوع سمجھی جاتی تھیں، لیکن اب ان پر بات کرنے کا آغاز ہوا ہے، جو ایک مثبت سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور افراد نے نہ صرف ان موضوعات کو اجاگر کیا بلکہ متاثرہ افراد کے لیے آواز بھی اٹھائی۔
ماحولیاتی بحران کے حوالے سے، پاکستان 2024 میں شدید متاثر ہوا۔ تباہ کن سیلاب، فصلوں کی تباہی، اور پانی کی قلت جیسے مسائل نے ماحولیاتی پالیسیوں کی کمزوری کو بے نقاب کیا۔ تاہم، خوش آئند بات یہ رہی کہ حکومت اور عوام دونوں سطحوں پر گرین انیشیٹو، شجر کاری مہم، اور پانی کے بہتر استعمال کے منصوبے شروع کیے گئے۔ ان منصوبوں کو مزید وسعت دینے اور قدرتی آفات کے انتظام کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے بحرانوں سے نمٹا جا سکے۔
نیا سال 2025ء میں، پاکستان اور دنیا دونوں کے لیے بہت سے اہم اہداف اور ترجیحات موجود ہیں۔ عالمی سطح پر، ماحولیاتی اقدامات کو فوری طور پر عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ ٹیکنالوجی اور بائیوٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے اخلاقی اصول وضع کرنا، پناہ گزینوں کے بحران کو حل کرنا، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھانا بہت ضروری ہے۔ صحت کے شعبے میں مساوات، ویکسین کی دستیابی، اور ذہنی صحت کی سہولیات پر توجہ دینے سے دنیا ایک بہتر اور محفوظ جگہ بن سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے، معاشی استحکام سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات، تعلیمی میدان میں سرمایہ کاری، اور غربت کو کم کرنے کے لیے ٹھوس پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ سماجی انصاف کے شعبے میں، صنفی تشدد کے خلاف قوانین کا نفاذ، اقلیتی حقوق کا تحفظ، اور مذہبی انتہا پسندی کو چیلنج کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے تعلیم اور ہنر کی ترقی کے منصوبے نہایت اہم ہیں تاکہ وہ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے ملک کی نمائندگی کر سکیں۔
2025 ایک ایسا سال ہونا چاہیے جہاں امید، اتحاد، اور عمل کی طاقت سے نئی تاریخ رقم کی جائے۔ یہ سال ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم متحد ہو کر اپنے مسائل کا حل تلاش کریں تو کوئی چیلنج ناقابلِ شکست نہیں۔ دنیا اور پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ ہم نئے عزم کے ساتھ نئے سال کا آغاز کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری کوششیں ایک بہتر کل کے خواب کو حقیقت میں بدل دیں۔ آئیے، ہم سب مل کر 2025 کو تبدیلی اور ترقی کا سال بنائیں۔ نیا سال مبارک ہو!

دو سال کا سفر – قلم کی حرمت اور عوامی مفادات کی ترجمانی

نئے سال کے آغاز پر روزنامہ قوم، ملتان کے قارئین اور حامیوں کو یہ اطلاع دیتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کے محبوب اخبار کی اشاعت کا تیسرا سال شروع ہو چکا ہے۔ دو سال قبل جب ہم نے اس سفر کا آغاز کیا تھا، تو ہمارے عزم کا مرکز عوامی مسائل، علاقائی و عالمی معاملات، اور مقامی حقائق کو درست تناظر میں پیش کرنا تھا۔ ہمارا مقصد ہمیشہ سے صحافت کو معاشرے کی خدمت اور عوامی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنانا رہا ہے، اور اس دوران ہمیں کئی چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ہم نے اپنے اصولوں اور صحافتی اخلاقیات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
گزشتہ دو سالوں میں ہم نے اپنے اداریوں اور مضامین کے ذریعے معاشرتی اور سیاسی مسائل پر روشنی ڈالی، طاقتور طبقات کی ناانصافیوں کو بے نقاب کیا، اور انسانی حقوق کی پاسداری کو اپنی ترجیح بنایا۔ ہم نے ہمیشہ مظلوم اور پسماندہ طبقات کی آواز بننے کی کوشش کی اور ان مسائل پر بات کی جنہیں اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ خواہ وہ خواتین کے حقوق کی پامالی ہو، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، یا محنت کش طبقے کے استحصال کی کہانیاں، ہم نے اپنے قلم کو ان سب کے لیے وقف کیا۔
پاکستان میں پریس کی آزادی پر قدغنیں کوئی نئی بات نہیں، لیکن گزشتہ سال حکمران طبقات کی جانب سے آزادیٔ اظہار کو دبانے کی کوششوں میں مزید شدت آ گئی۔ یہ وہ دور تھا جب آزاد صحافت پر حملے معمول بن چکے تھے، صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا، اور حقائق کو دبانے کی سازشیں کی گئیں۔ اس جبر کے ماحول میں روزنامہ قوم نے نہ صرف اپنے فرائض پورے کیے بلکہ ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا۔ ہم نے نامساعد حالات میں اپنی آواز بلند کی اور قلم و حروف کی حرمت کو برقرار رکھا۔
ہمارے اداریوں نے نہ صرف حکومتی نااہلیوں کی نشاندہی کی بلکہ ان مسائل کے ممکنہ حل بھی تجویز کیے جو عوام کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ دلیل اور تحقیق کی بنیاد پر اپنی رائے پیش کی، تاکہ ہمارے قارئین کو نہ صرف معلومات بلکہ ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے معاملات کا گہرا شعور بھی حاصل ہو۔ یہ ہمارے قارئین کی فہم اور تعاون کا نتیجہ ہے کہ ہم نے نہ صرف اپنے ادارتی صفحے کو بامقصد بنایا بلکہ اسے عوامی رائے عامہ کی نمائندگی کا پلیٹ فارم بھی بنایا۔
علاقائی اور مقامی مسائل پر بھی ہماری توجہ مرکوز رہی۔ ملتان اور جنوبی پنجاب کے مسائل، جنہیں قومی سطح پر اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے، ہماری اولین ترجیحات میں شامل رہے۔ ہم نے ان مسائل کو اجاگر کیا جو اس خطے کے عوام کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کرتے ہیں، جیسے صحت، تعلیم، زراعت، اور انفراسٹرکچر کی صورتحال۔ ہم نے ان مسائل پر روشنی ڈالی جن پر حکومتی توجہ کی اشد ضرورت ہے اور عوام کو ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی ترغیب دی۔
عالمی اور ملکی سطح پر بھی، ہم نے ہر اہم مسئلے پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ چاہے وہ ماحولیاتی تبدیلی کا بحران ہو، دنیا میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات، یا پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری جیسے چیلنجز، روزنامہ قوم نے ہمیشہ اپنے قارئین کو حقائق پر مبنی تجزیہ اور عوامی مفادات کی نمائندگی فراہم کی۔ ہمارا ماننا ہے کہ صحافت کا اصل مقصد عوام کو باخبر رکھنا اور ان کے مسائل کو طاقتور حلقوں تک پہنچانا ہے۔
ہمیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ ہم نے انسانی حقوق کے معاملات پر کبھی خاموشی اختیار نہیں کی۔ خواتین کے خلاف تشدد، بچوں کے ساتھ ناانصافی، اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ جیسے مسائل پر ہم نے بے باک انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ہم نے ان مظلوموں کی آواز بننے کی کوشش کی جنہیں اکثر دبایا جاتا ہے، اور ان مظالم کی مذمت کی جو طاقتور طبقات کی طرف سے روا رکھے جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ آسان نہیں تھا۔ ہمیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ہم نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہماری ٹیم نے نہایت لگن اور پیشہ ورانہ ذمہ داری کے ساتھ ان تمام رکاوٹوں کا مقابلہ کیا۔ یہ آپ، ہمارے قارئین، کی محبت اور اعتماد ہی تھا جس نے ہمیں اس سفر کو جاری رکھنے کی طاقت دی۔
نئے سال اور تیسرے سال کے آغاز پر ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ روزنامہ قوم اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو مزید بہتر طریقے سے نبھائے گا۔ ہم اپنے قارئین کے اعتماد کو اپنی سب سے بڑی طاقت سمجھتے ہیں اور یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم آپ کی آواز کو مزید بلند کریں گے، آپ کے مسائل کو اجاگر کریں گے، اور صحافت کی اصل روح کو زندہ رکھیں گے۔ ہمارا مقصد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں حصہ ڈالنا ہے جہاں انصاف، مساوات، اور آزادیٔ اظہار بنیادی اصول ہوں۔
آئیے، اس نئے سال میں مل کر ایک بہتر اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کی جانب بڑھیں۔ روزنامہ قوم آپ کے ساتھ کھڑا ہے، آپ کے مسائل کا ترجمان ہے، اور آپ کے خوابوں کا ہمسفر ہے۔ نئے سال اور نئے سفر پر ہمیں آپ کی دعاؤں، حمایت، اور اعتماد کی ضرورت رہے گی۔ آپ سب کو نیا سال مبارک ہو!
بیرون ملک مقیم پاکستانیوںکیلئے ایف بی آر کی نئی اسکیم – ایک سہولت یا نیا بوجھ؟
ایف بی آر نے حال ہی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو فائدہ پہنچانے کے مقصد سے ایک نئی اسکیم کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت وہ افراد جو فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، انہیں جائیداد کے لین دین پر عائد زیادہ شرح والے پیشگی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا جائے گا۔ یہ استثنیٰ سیکشن 236سی اور 236کے کے تحت ہوگا، جو کہ جائیداد کے لین دین پر پیشگی انکم ٹیکس سے متعلق ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی، اپنی غیر مقیم حیثیت کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مالیاتی ایکٹ 2022 کی شق 111اے سی کے تحت انہیں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نام فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل نہیں ہوتے۔ چونکہ غیر گوشوارہ دہندگان کو جائیداد کے لین دین پر زیادہ ٹیکس کی شرح ادا کرنی پڑتی ہے، اس لیے فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر موجودگی انہیں مالی نقصان میں ڈال دیتی ہے۔ یہ نئی اسکیم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ غیر مقیم افراد کو گوشوارہ دہندگان پر عائد کم ٹیکس کی شرح ادا کرنے کی اجازت دی جا سکے۔
اس مقصد کے لیے، ایف بی آر نے اپنے آئی آر آئی ایس پورٹل پر ایک نیا ڈیجیٹل تصدیقی نظام متعارف کرایا ہے۔ اس کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی غیر مقیم حیثیت کی تصدیق کروا سکیں گے اور جائیداد کے لین دین پر گوشوارہ دہندگان کے لیے مختص کم ٹیکس کی شرح سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اس عمل کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے پاکستانی اور قومی شناختی کارڈ برائے اوورسیز (پی او سی یا نائیکوپ) دستاویزات اپ لوڈ کرنی ہوں گی، جس کے نتیجے میں ایک کمپیوٹرائزڈ ادائیگی رسید (سی پی آر) پیدا ہوگی۔
بعدازاں، ایک عارضی ادائیگی کے شناختی نمبر (پی ایس آئی ڈی) تخلیق کیا جائے گا، جو تصدیقی عمل کا آغاز کرے گا۔ یہ عمل ابتدائی جائزے کے لیے چیف کمشنر اندرونی محصولات کے پاس جائے گا، جو پھر متعلقہ کمشنر اندرونی محصولات کو حتمی منظوری کے لیے بھیجے گا۔ درخواست دہندگان کو فیصلے کی اطلاع مختصر پیغام رسانی اور برقی خط کے ذریعے دی جائے گی۔
ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ یہ پورا عمل ایک کاروباری دن کے اندر مکمل کر لیا جائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس عمل میں متعدد مراحل شامل ہیں، اور پاکستان میں عمومی طور پر سرکاری کارروائیوں کی سست رفتاری کو دیکھتے ہوئے یہ شک بے جا نہیں ہوگا کہ یہ ٹائم لائن عملی طور پر ممکن نہیں ہوگی۔ یہ پورا عمل ایک وقت طلب مشق بن سکتا ہے، جو اپنی مقصدیت کو پورا کرنے کے بجائے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ غیر مقیم پاکستانیوں کو جائیداد کے لین دین پر زیادہ ٹیکس کی شرح سے استثنیٰ کی شق پہلے ہی 30 جون 2024 تک ٹیکس قوانین کا حصہ تھی۔ تاہم، جیسے کہ اس اخبار نے اپنی سابقہ رپورٹ میں ذکر کیا تھا، ایف بی آر نے اپنے پورٹل پر “غیر مقیم” کیٹیگری کو “تاخیر سے گوشوارہ جمع کرانے والوں” کی کیٹیگری سے بدل دیا، جس کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مزید الجھنیں اور مشکلات پیدا ہوئیں۔
ایف بی آر نے یہ وضاحت کی کہ سیکشن 236سی اور 236کے کے تحت غیر مقیم افراد پر ٹیکس کے احکامات لاگو نہیں ہوتے، لیکن کمشنر اندرونی محصولات سے تصدیقی سرٹیفکیٹ کی شرط نے دراصل ایک نیا بیوروکریٹک مرحلہ شامل کر دیا ہے۔ ٹیکس بیوروکریسی کی جانب سے ایسے فیصلے جو تضادات اور الجھنوں سے بھرپور ہوں، پہلے سے پیچیدہ نظام کو مزید مشکل اور مایوس کن بنا دیتے ہیں۔
پاکستان میں جائیداد کے شعبے میں حالیہ دنوں میں معاشی سرگرمیاں نمایاں طور پر سست روی کا شکار رہی ہیں۔ ایف بی آر کی اس نئی اسکیم کو جائیداد کے شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور ٹیکس وصولی میں بہتری کے لیے ایک کوشش کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اس کی حقیقی مؤثریت شک کے دائرے میں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا جائیداد کا شعبہ کئی سنگین مسائل کا شکار ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف ٹیکس چوری شدہ پیسوں اور غیر قانونی دولت کو چھپانے کا آسان ذریعہ بن چکا ہے، بلکہ یہاں کی جانے والی سرمایہ کاری اکثر غیر پیداواری ہوتی ہے۔ جائیدادیں محض قیاس آرائی کے لیے خریدی جاتی ہیں، اور زمین کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بجائے معیشت پر بوجھ بن جاتی ہیں۔
ان بنیادی مسائل کو مؤثر طور پر حل کرنے کے بجائے، حکام مسلسل ایسے اقدامات کرتے رہتے ہیں جو ان گہرے ڈھانچہ جاتی مسائل کا احاطہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نیا اقدام بھی شاید جائیداد کے شعبے میں بامعنی سرمایہ کاری کو فروغ دینے یا ٹیکس کے نظام میں مجموعی طور پر بہتری لانے میں ناکام رہے گا، اور یہ شعبہ بدستور غیر مؤثر اور مسائل کا شکار رہے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں