آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

ایک خاموش دھماکے کے بعد

کوئٹہ میں حالیہ خودکش حملہ، جس میں درجنوں جانیں ضائع ہوئیں، محض ایک دہشت گردی کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی حقیقت کی نقاب کشائی تھی جسے ہم اکثر جان بوجھ کر نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس واقعے نے بلوچستان کے منظرنامے پر ایک اور دھندلکے کو ظاہر کیا، ایک ایسا دھندلکا جو پرانی شناختوں، نظریاتی خولوں، اور ریاستی ردعمل کی تہوں کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا۔ یہاں محض ایک نیا “کردار” سامنے نہیں آیا، بلکہ ایک بار پھر یہ سوال اُبھرا کہ ہم کس زبان میں اپنے خوف، اپنی شکست، اور اپنے تعلق کو بیان کرتے ہیں۔بلوچستان ایک عرصے سے ریاستی بیانیے اور مزاحمتی آوازوں کے درمیان کھینچا ہوا ایک منظر ہے۔ یہاں ہر واقعہ، ہر دھماکہ، ہر احتجاج گویا ایک تکرار ہے — ایک ایسی تکرار جس میں کوئی “ابتداء” بھی نہیں، اور کوئی انجام” بھی۔ خودکش حملہ، چاہے کسی مذہبی شدت پسند گروہ کی طرف سے ہو یا علیحدگی پسند تحریک کی جانب سے، اصل میں اُس تنگ فکری بندوبست کا شاخسانہ ہے جس میں زندگی کے امکانات کو صرف طاقت، خاموشی اور کنٹرول کے اصولوں کے تحت ترتیب دیا جاتا ہے۔جب اجتماع کے مقام پر موجود سیاسی قائدین محفوظ رہے، اور عوام کی جانیں چلی گئیں، تو گویا ایک بار پھر یہی اشارہ ملا کہ یہاں انسانی زندگی کا درجہ، اس کی شناخت اور قربت سے نہیں، بلکہ طاقت سے متعین ہوتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق خطرے کی اطلاعات پہلے سے موجود تھیں، اور اس کے باوجود ایک خودکش حملہ آور وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا — یہ ناکامی صرف سیکیورٹی کی نہیں، ایک پوری سوچ کی ہے۔اس دھماکے میں جو جانیں گئیں، وہ محض اعداد نہیں، بلکہ ان آوازوں کی علامت تھیں جنہیں ہم ہمیشہ پس منظر” سمجھ کر کہانی سے کاٹ دیتے ہیں۔ بلوچستان میں ہونے والے پے در پے حملے — چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، چاہے وہ ٹرین پر ہوں یا اسکول بس پر — ان سب میں ایک مشترک پہلو ہے: ایک ایسا خلا، ایک ایسی خامشی” جو ہر بار خود کو دہراتی ہے، مگر کبھی مکمل طور پر سنائی نہیں دیتی۔اسی خلا میں، شدت پسندی کا نیا چہرہ — جسے اب بین الاقوامی شدت پسند گروہوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے — داخل ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ نیا چہرہ واقعی “نیا” ہے؟ یا یہ محض پرانے بدن میں ایک نئی علامت ہے؟ جب کوئی خلا اتنا وسیع ہو جائے کہ اُس میں ہر آواز گم ہونے لگے، تو وہاں ہر بیرونی مداخلت کو جڑیں پکڑنے میں دیر نہیں لگتی۔اب سوال یہ نہیں کہ سیکیورٹی کا دائرہ کیسے وسیع کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے بلوچستان کو کس طرح ایک ایسا مقام بنا دیا ہے جہاں زندگی محض اتفاق، اور موت ایک معمول بن چکی ہے۔ کیا صرف فوجی کارروائیوں سے وہ امن حاصل کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد میں شرکت، مساوات اور شناخت کی تسلیم شدہ زبان موجود نہ ہو؟ کیا ہم اس خطے میں امن کو کسی ایسی مداخلت سے جوڑ سکتے ہیں جو محض بندوق، یا محض ترقیاتی منصوبے کی صورت میں ہو؟یہاں مسئلہ صرف شدت پسندی کا نہیں، بلکہ ان حالات کا ہے جو شدت پسندی کو ممکن بناتے ہیں۔ جب ریاستی بیانیہ کسی خطے کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرے، جب مذاکرات کو محض ایک وقتی تدبیر سمجھا جائے، اور جب مقامی قیادت کو محض ایک علامتی کردار دیا جائے — تو پھر خلا میں داخل ہونے والے عناصر کی زبان، خواہ وہ مذہبی ہو یا علیحدگی پسند، ایک جیسی ہو جاتی ہے: وہ زبان جو مرکز کی گونج کو رد کرتی ہے۔سیاسی عمل کی شمولیت کے بغیر سیکیورٹی اقدامات محض علامتی جنگیں بن جاتی ہیں۔ آج اگر مذہبی شدت پسندی کے نام پر کوئی خطرہ سر اٹھا رہا ہے، تو وہ اسی مسلسل انکار، اسی اجتماعی خاموشی، اور اسی وقتی ردعمل کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے جو برسوں سے بلوچستان کی فضاء میں موجود ہے۔مذہبی اجتماعات کے لیے سیکیورٹی کی بات اگرچہ اہم ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم ان اجتماعات کو صرف خطرے کی نظر سے نہ دیکھیں، بلکہ ان کی اجتماعی معنویت کو تسلیم کریں — یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جہاں لوگ صرف عبادت نہیں کرتے، وہ اپنی اجتماعی پہچان، خوف، امید، اور بقا کی زبان بھی تخلیق کرتے ہیں۔ اگر ہم ان مقامات کو محض “خطرناک” سمجھ کر انہیں ایک غیر انسانی نگرانی میں دے دیں، تو ہم اصل میں ان اجتماعی لمحات کی روح کو ہی ختم کر دیتے ہیں۔یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ شدت پسندی کا کوئی ایک چہرہ نہیں ہوتا — وہ ہر اس مقام سے جنم لیتی ہے جہاں انسان اپنی آواز کھو بیٹھتا ہے، اور اُس کی شناخت کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کو محض ایک سیکیورٹی مسئلہ سمجھنا ایک ایسی سادہ کاری ہے جو اصل پیچیدگیوں کو چھپا دیتی ہے۔ جب تک سیاسی نمائندگی کو تقویت نہیں دی جائے گی، جب تک عام لوگوں کو اپنے مستقبل پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جب تک خوف کو زبان پر غالب رکھا جائے گا — تب تک نہ صرف شدت پسندی پنپتی رہے گی، بلکہ وہ اپنے ہر نئے روپ میں زیادہ پرتشدد، زیادہ غیر متوقع، اور زیادہ تباہ کن ہوتی جائے گی۔یہ وہ وقت ہے جب ہمیں واقعات کو اُن کی مکمل پیچیدگی میں سننے کا ہنر سیکھنا ہوگا — بغیر کسی تعجیل، بغیر کسی سادہ حل کی خواہش کے۔ بلوچستان کوئی “مسئلہ” نہیں، بلکہ ایک ایسی عبارت ہے جسے مسلسل دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن ہر بار اس میں وہ خامشی باقی رہ گئی ہے جو آج بم کی گونج میں سنائی دی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں