ملتان (تجزیہ: عامر حسینی) ویسٹ مینجمنٹ کمپنی ملتان کی مالیاتی شفافیت حال ہی میں منظر عام پر آئے ایک اور مالیاتی سکینڈل کی وجہ سے سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ روزنامہ قوم ملتان کی تحقیقاتی ٹیم نے حال ہی میں عید قربان کے موقع پر 9 کروڑ روپے مالیت کے ٹھیکےکو مختلف حصوں میں بانٹ کر جہاں ٹیکس کی مد میں سرکاری خزانے کو نقصان پہنچائے جانے کا انکشاف کیا وہیں یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ صفائی کے لیے کمپنی کی مشینری استعمال کی گئی اور ٹھیکیدار کوتقریبا ًچار کروڑ روپے کی بوگس ادائیگی کر دی۔ اینٹی کرپشن ملتان آفس نے اس حوالے سے کرپشن کی نشاندہی پر کوئی کاروائی نہیں کی جبکہ میڈیا میں ملتان شہر کے مختلف علاقوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کی تصاویر بھی شائع کی ہیں جو ویسٹ مینجمنٹ کمپنی ملتان کی جانب سے شہر میں صفائی کے نظام کے بہتر ہونے کے دعوؤں کا پول کھولتی ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی ملتان اپنے قیام کے آغاز سے ہی مالیاتی بے ضابطگیوں، مشینری کی خریداری کے ٹھیکوں میں قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیوں، ڈیلی ویج ملازمین کی بھرتیوں میں من مانی کی شکایات اور ملتان میں صفائی کے نظام کو ٹھیک نہ کرنے جیسے الزامات کا سامنا کر رہی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اینٹی کرپشن ملتان ہو، کمشنر آفس ہو یا ڈپٹی کمشنر آفس ہو وہ آج تک ویسٹ مینجمنٹ کمپنی ملتان میں مالیاتی اور انتظامی بے ضابطگیوں اور صفائی کی بدتر صورت حال بارے دی گئی درخواستوں پر کوئی نوٹس لینے اور اس بارے کوئی نظر آنے والا اقدام اٹھانے سے قاصر رہے ہیں۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی ملتان کی آفیشل ویب سائٹ پر شہریوں کو کمپنی کے مالیاتی حساب کتاب بارے سرے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کرتی اور نہ ہی کمپنی سالانہ اور ماہانہ بنیادوں پر میڈیا کے زریعے اپنی کارکردگی بارے کوئی معلومات دیتی ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا شعبہ آپریشن ہو، پرچیزنگ ڈیپارٹمنٹ ہو یا اس کا فنانس ڈیپارٹمنٹ ہو وہ نہ تو شہریوں کو معلومات فراہم کرتا ہے اور نہ ہی صحافیوں کو معلومات تک رسائی دیتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کی آڈٹ رپورٹس میں مالیاتی و انتظامی بے ضابطگیوں پر جو آڈٹ پیرے مرتب ہوتے ہیں انہیں بھی دور نہیں کیا جا رہا۔ چیف منسٹر مریم نواز شریف نے پنجاب بھر میں ڈویژنل سطح پر قائم ویسٹ منیجمنٹ کمپنیوں کا دائرہ کار تحصیل لیول تک بڑھا دیا ہے اور ان کمپنیوں کے پاس مزید اختیارات آ گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں بڑے شہروں کا صفائی کا نظام ٹھیک نہیں کرسکیں اور ان پر مالیاتی کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اور انتظامی بے ضابطگیوں کی بھی بے شمار شکایات ہیں تو وہ کیسے تحصیل سطح پر صفائی کے نظام کو کیسے بہتر بنا پائیں گی؟ وہ کیسے مالیاتی شفافیت برقرار رکھیں گی؟ اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے انہیں کون روکے گا۔
