ملتان (وقائع نگار) ایمرسن یونیورسٹی ملتان میں تعینات غیر قانونی رجسٹرار ڈاکٹر فاروق کی چالاکیوں سے تنخواہوں کا بحران، سنڈیکیٹ ممبران کو دھوکہ دینے کی کوششیں عروج پر ہیں تفصیل کے مطابق ایمرسن یونیورسٹی ملتان میں کرپشن، غیر قانونی تعیناتیوں اور اقربا پروری کے الزامات نے نہ صرف یونیورسٹی کی تعلیمی فضا کو مسموم کر دیا ہے بلکہ اساتذہ اور ملازمین کی اکتوبر کی تنخواہوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ غیر قانونی طور پر تعینات رجسٹرار ڈاکٹر محمد فاروق، جو سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رمضان کے قریبی ساتھی کے طور پر جانے جاتے ہیں، پر سنڈیکیٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی، رشوت خوری اور انکوائریوں سے بچنے کی سازشوں کے سنگین الزامات عائد ہیں۔ تعلیمی حلقوں میں مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ فوری طور پر رجسٹرار کو معطل کیا جائے اور سنڈیکیٹ نمبر 7 کے منٹس کو حتمی شکل دی جائے تاکہ یونیورسٹی کا مستقبل بچایا جا سکے۔یہ معاملہ اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب ایمرسن یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی 7ویں میٹنگ، جو 15 اگست 2025 کو لاہور میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن (PHEC) کے دفتر میں وزیر تعلیم اور چیئرمین سنڈیکیٹ رانا سکندر کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی جس میں سلیکشن بورڈز نمبر 3، 4 اور 5 کی تمام تعیناتیوں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس میٹنگ میں ہائی لیول انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی منظوری بھی دی گئی، جہاں سلیکشن بورڈز میں اقربہ پروری، جانبداری اور پنجاب حکومت کی منظور شدہ ریکروٹمنٹ پالیسی 2021 کی خلاف ورزیوں کے ثبوت پیش کیے گئے۔ متعدد امیدواروں نے انصاف کے لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا، سنڈیکیٹ میٹنگ میں سلیکشن کمیٹی کی تعیناتیوں (اسکیل 1 سے 16 تک) پر بھی انکوائری کا حکم دیا گیا، جس کی سربراہی خود رجسٹرار ڈاکٹر فاروق کر رہے تھے۔ یہ تعیناتیاں یونیورسٹی ایکٹ، سٹیچو اور سنڈیکیٹ کے فیصلوں کے خلاف تھیں۔ مزید برآں، سنڈیکیٹ ممبر اور ایم پی اے اسامہ فضل نے رجسٹرار کے واٹس ایپ میسجز پیش کیے، جن میں امیدواروں سے تعیناتی کے عوض رشوت اور پیسے طلب کیے گئے تھے۔ اس پر سنڈیکیٹ نے متفقہ طور پر رجسٹرار کے خلاف انکوائری کا حکم جاری کیا۔تاہم، الزام ہے کہ ان تمام انکوائریوں سے بچنے کے لیے رجسٹرار فاروق نے سنڈیکیٹ کی میٹنگ کے منٹس لکھنے سے انکار کر دیا۔ اس میٹنگ میں 2025-26 کا بجٹ بھی منظور ہوا تھا، لیکن رجسٹرار نے “چال باز ذہن” کا استعمال کرتے ہوئے صرف بجٹ پاس ہونے پر توجہ مرکوز کی اور انکوائریوں سے متعلق فیصلوں میں جان بوجھ کر تکنیکی مسائل پیدا کیے گئے تاکہ انکوائریوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ نتیجتاً، یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کو اکتوبر کی تنخواہیں بروقت نہ مل سکیں گی، جس سے کیمپس میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ ڈاکٹر فاروق، جو بشیر گجر (سابق کنٹرولر امتحانات سرگودھا یونیورسٹی) کے گٹھ جوڑ سے سنڈیکیٹ ممبران کو دھوکہ دے کر رجسٹرار بنے، پر مزید الزامات ہیں کہ وہ رشوت کی رقم ہڑپ کر رہے ہیں اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان کی سیاسی وفاداری نبھا رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق ان کے کرپشن نیٹ ورک میں 14 لاکھ روپے کی خوردبرد کرنے اور ناقص تعمیرات شامل ہیں، جس سے 4 ملازمین زخمی بھی ہوئے۔موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال سمیت وزیر تعلیم اور چیئرمین سنڈیکیٹ پر بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ رشوت اور غیر قانونی تعیناتیوں کو تحفظ دینے کے لیے سنڈیکیٹ ممبران کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ سنڈیکیٹ ممبران سلیمان نعیم ایم پی اے، اسامہ فضل ایم پی اے، شازیہ حیات اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو گمراہ کرنے کی کوشیش کی جا رہی ہے جہاں سنڈیکیٹ نمبر 7 کے منٹس منسوخ کرنے اور انکوائریوں کو حذف کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔تعلیمی حلقوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ و ملازمین نے مطالبہ کیا ہے کہ رجسٹرار پر لگنے والے الزامات کی روشنی میں ان کا اخلاقی طور پر استعفیٰ لازمی ہے۔”رجسٹرار کے پاس تو رشوت کے لاکھوں کروڑوں روپے جمع ہیں، لیکن سفید پوش اساتذہ اور ملازمین مالی بحران کا شکار ہو جائیں گے، انہوں نے کہا کہ فوری طور پر ڈاکٹر فاروق کو کام سے روکا جائے، سنڈیکیٹ کے منٹس حتمی بنائے جائیں اور انکوائریوں کو مکمل کیا جائے۔ یونیورسٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ تنخواہوں کا معاملہ جلد حل ہو سکتا ہے اگر منٹس کی منظوری ہو جائے۔ یہ بحران نہ صرف ایمرسن یونیورسٹی بلکہ جنوبی پنجاب کی تعلیمی اداروں کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے، جہاں پہلے ہی بھرتیوں میں غیر شفافیت کے الزامات زیر بحث ہیں۔








