ملتان (سٹاف رپورٹر) ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے بدکردار اور ہم جنس پرست وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان بارے مزید انکشافات ہوئے ہیں کہ وہ جنسی ہراسمنٹ پر اس سے قبل پاک ایمز نامی تعلیمی ادارے اور لمز یونیورسٹی سے بھی نوکری سے نکالا جا چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بدکاری کی شکایات کے حوالے سے یہ اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کا پورا ایک نیٹ ورک ہے جو اسے ہر موقع اور ہر مرحلہ پر سپورٹ کرتا ہے حتی کہ موجودہ انتہائی غلیظ ویڈیو اور اڈیوز کے سامنے آنے کے بعد بھی وہ گروپ ڈاکٹر رمضان کی سپورٹ کر رہا ہے۔ ایمرسن یونیورسٹی کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یونیورسٹی کی طالبات اور خصوصی طور پر خواتین سٹاف میں شدید قسم کی بے چینی اور خوف پایا جاتا ہے کہ وہ اس قسم کے غیرت سے عاری شخص کا کیسے سامنا کریں گی اور اگر اس قسم کا جنسی بھیڑیا دوبارہ یونیورسٹی میں آتا ہے اور اسے پھر سے غلاظت کا موقع مل جاتا ہے تو وہ جس قسم کا استحصال کرے گا ،اس کا تصور بھی محال ہے۔ ایمرسن یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ اپیل کی کہ کسی بھی اعلی تعلیمی ادارے کے ایسے بد کردار سربراہ کو یونیورسٹی کے گیٹ پر پھانسی گھاٹ بنا کر سرعام سزائے موت دی جانی چاہیے کہ تعلیمی ادارے کا سربراہ تو باپ جیسی حیثیت رکھتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ استاد بھی نہیں ہے یہ تو پڑھاتا بھی نہیں رہا یہ تو لائبریرین ہے اور حیران کن امر یہ ہے کہ لائبریرین جو کہ ساری عمر کتابوں کے درمیان رہتے ہیں مگر اس نے زندگی میں کس قسم کی کتابیں پڑھی جو اتنا وحشی درندہ بن کر سامنے آیا ہے۔ لاہور کی دو نجی یونیورسٹیوں میں اس کے ساتھ کام کرنے والے پروفیسر حضرات نے روزنامہ قوم کو بتایا کہ یہ عملی زندگی میں جب کسی کے ساتھ فری ہو جاتا ہے تو بہت غلیظ گفتگو کرتا ہے اور یہ دکھاوے کا اس قدر ماہر ہے کہ چار پانچ لوگ اکٹھے ہوں تو سب کو وضو کروا کر زبردستی خود ہی امامت شروع کروا دیتا ہے چہ جائیکہ وہاں کوئی امام یا عالم دین ہی موجود کیوں نہ ہو۔ روزنامہ قوم سے گفتگو کرتے ہوئے اس کے ساتھی یونیورسٹی کے بعض پروفیسروں نے بھی کہا کہ ہمارے لیے تو یہ مشکل ہے کہ ہم طلبہ و طالبات کو کیسے پڑھائیں گے اور کیسے ان کی نظروں کا سامنا کریں گے کہ ہمارے ادارے کا سربراہ کس قسم کے غلیظ کردار کا حامل بن کر سامنے آیا ہے۔
