ملتان(سہیل چوہدری سے) ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان کی طرف سے قواعد و ضوابط کی مسلسل خلاف ورزی، میرٹ کی دھجیاں اڑانے اور بھرتیوں میں اقرباپروری کے مرتکب ہونے کے حوالے سے روزنامہ قوم کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں۔ غیر قانونی تقرریوں اور کرپشن کے الزامات پر یونیورسٹی سینڈیکیٹ نے 27 تدریسی اور غیر تدریسی پوسٹوں پر بھرتی کا عمل فوری طور پر معطل کر دیا ، یونیورسٹی سینڈیکیٹ کے حکم پر ہونے والی انکوائری میں انکوائری آفیسر نے تمام تر الزامات میں پسندیدگی، رشوت خوری اور میرٹ کی خلاف ورزی سمیت متعدد الزامات کی تصدیق کی جس پر سینڈیکیٹ نے مذکورہ بالا ایکشن لیا۔ میرٹ سے ہٹ کر بھرتیوں کا یہ سکینڈل دسمبر 2024 میں سامنے آیا، جب سلیکشن بورڈ کی دو میٹنگز میں کورم کی کمی اور کم میرٹ والے امیدواروں کے نام حتمی فہرست میں شامل کیے جانے کی شکایات سامنے آئیں۔یونیورسٹی ذرائع کے مطابق اگست 2024 میں مختلف پوسٹوں پر بھرتی کے لیے اشتہار دیا گیا تھا ۔نومبر 2024 میں سلیکشن بورڈ کی میٹنگز میں حتمی فہرست تیار کی گئی۔ تاہم دو مستقل ارکان ( یونیورسٹی سکھر اور صوابی یونیورسٹی کے وائس چانسلرز) صرف جزوی طور پر آن لائن موجود تھےجس سے میٹنگ کی قانونی حیثیت مشکوک ہو گئی۔ مزید یہ کہ میرٹ لسٹ میں کم درجے والے 27 امیدواروں کو فائنل کیا گیا جو مبینہ طور پر وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان گجر اور رجسٹرار ڈاکٹر فاروق کے قریبی رشتہ دار تھے۔ ان امیدواروں کے منتخب ہونے کی وجہ مبینہ طور پر رشوت اور پسندیدگی کو قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک پروفیسر سرگودھا یونیورسٹی سے بورڈ ممبر کو مبینہ طور پر پسندیدہ امیدواروں کے حق میں اثر انداز ہونے کے لیے شامل کیا گیا تھا۔سنڈیکیٹ کمیٹی کے تین نامعلوم ارکان نے تصدیق کی کہ یہ تقرریاں میرٹ کی خلاف ورزی اور نیپوٹزم کی بدترین مثال ہیں۔ اس سکینڈل کے نتیجے میں بھرتی کا عمل روک دیا گیا اور مکمل تحقیقات کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ متاثرہ امیدواروں اور سٹیک ہولڈرز نے انصاف اور احتساب کا مطالبہ کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ یہ صرف بھرتی کا مسئلہ نہیںبلکہ یونیورسٹی میں دیگر کرپشن کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پرکمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں کلاسز کا آغاز نیشنل کمپیوٹنگ ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل (NCEAC) کی منظوری کے بغیر کیا گیا جو غیر قانونی ہے۔ ان معاملات کے علاوہ یونیورسٹی میں درخت کاٹنے کا سکینڈل، گیٹ کی تزئین و آرائش میں فنڈز کے غلط استعمال اور کھیلوں کے کنسلٹنٹ کی جعلی تقرری جیسے معاملات بھی زیر بحث ہیں۔
