آر پی او ملتان کےحکم پرایس ایس پی آرآئی بی کی انکوائری میں تیسری باربھی ایس ایچ او تلمبہ مرزا رحمت سمیت تینوں ملازمین پیش نہ ہوئے
متاثرہ فریق ،تمام گواہ پیش،رپورٹ آئی جی کودینی ہے:رائونعیم شاہد،فائنل نہ کریں،مرزارحمت آج پیش ہوجائیگا:ڈی پی او اسماعیل کھاڑک
ملتان ( سٹاف رپورٹر) آئی جی پنجاب کے واضح احکامات پر آر پی او ملتان کی طرف سے شروع کی جانے والی انکوائری میں تیسری مرتبہ بھی طلب کرنے کے باوجو ایس ایچ او تلمبہ مرزا رحمت سمیت تینوں ملازمین میں سے کوئی بھی پیش نہ ہوا جبکہ متاثرہ فریق تمام گواہوں سمیت انکوائری آفیسر ایس پی رائو نعیم شاہد کے روبرو پیش ہوئے حتیٰ کہ ایس ایس پی رینج انویسٹی گیشن برانچ رائو نعیم شاہد نے ایس ایچ او سمیت تمام ملازمین کو طلبی کے نوٹس بھی واٹس ایپ کئے اور ان کی کاپیاں بھی ڈی پی او خانیوال اسماعیل کھاڑک کو بھجوادی تھیں مگر دن بھر انتظار کے باوجود جب 4 بجے تک کوئی بھی پیش نہ ہوا تو رائو نعیم شاہد نے اسماعیل کھاڑک کو مدعلیان کی تسلی کیلئے ان کے سامنے فون کرکے کہا کہ وہ آئی جی کے حکم پر انکوائری کررہے ہیں اور کوئی بھی پیش نہیں ہورہا جبکہ مدعی پارٹی کی طرف سے نہ صرف روزانہ لوگ صفائی دینے آتے ہیں بلکہ بہت سے ثبوت بھی لاتے ہیں تو پھر کیوں نہ میں یک طرفہ رپورٹ فائنل کردو کیونکہ مجھے صرف 3 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ رپورٹ آئی جی آفس تک جانی ہے جس پر ڈی پی او خانیوال نے کہا کہ مرزا رحمت تو بہت ہی اچھا بچہ ہے وہ کل(آج) صبح ہر حالت میں حاضر ہوجائے گا آپ صرف ایک دن کیلئے رپورٹ کو فائنل نہ کریں۔ دریں اثنا عینی شاہدین نے بتایاکہ وہ واپڈا کی طرف سے ایک مقدمے کے سلسلے میں گرفتار ہوکرتھانہ تلمبہ کی حوالات میں بند تھے کہ ایک نوجوان لڑکے کو حوالات میں بند کیا گیا جو زارو قطار رورہا تھا اور اس کی عمر 17 سے 18سال کے قریب تھی ۔ اس نے اپنا نام مبشر تھراج ولد سجاد احمد تھراج بتایا جب ہم نے پوچھا کہ وہ کس جرم میں پکڑا گیا ہے تو اس نے بتایا کہ مجھے تو علم ہی نہیں اسے تو آدھی رات کو جب وہ گھر پر سویا ہوا تھا گھر کی دیوار پر سیڑھی لگا کر میرے والدین اور خاندان والوں حتیٰ کہ عورتوں سے بھی بدسلوکی کی اور مجھے پکڑ کر لے آئے ۔ عینی شاہدین محمد نعیم ڈوگر اور محمد افضل نے اپنے تحریری بیان میں ایس ایس پی آر آئی بی کو بتایا کہ رات کے وقت پونے تین بجے کا وقت تھا جب مبشر تھراج کو حوالات میں بند کیا گیا وہ دیر تک زارو قطار روتا رہا اور اسے علم ہی نہ تھا کہ وہ کس جرم میں پکڑا گیا ہے ۔ یہ 8اگست کا وقوعہ ہے ۔10اگست کو ڈی پی او خانیوال نے تلمبہ میں کھلی کچہری رکھی ہوئی تھی۔ ڈی پی او خانیوال اسماعیل کھاڑک جب تلمبہ آئے تو ان کے ساتھ میانوالی کا پولیس ملازم عرفان اللہ بھی اسی گاڑی میں تھا۔ ایس ایچ او نے تمام شکایت کنندگان سے درخواستیں لے کر انہیں ایک کمرے میں بٹھا دیا اور پولیس ٹائوٹ کھلی کچہری میں پیش کردیئے ۔ کھلی کچہری کے خاتمے کے بعد جب ڈی پی او اور ڈی ایس پی سمیت ایس ایچ او کے کمرے میں آئے تو مقامی میڈیا اور شہری بھی آگئے جنہوں نے شکایت کی مبشر تھراج نامی نوجوان دو دن سے حوالات میں ہے اس پر کوئی مقدمہ نہیں آپ اس کی بات سن لیں وہ ناجائز حراست میں ہے جس پر ڈی پی او خانیوال نے ایس ایچ او سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو ایس ایچ او نے بتایا کہ میں نے اسے لوگوں کی شکایت پر پکڑا ہے جس پر ڈی پی او نے سوال کیا کہ برآمدگی کیا ہوئی تو ایس ایچ او مرزا رحمت نے کئی افراد کی موجودگی میں تسلیم کیا کہ برآمدگی نہیں ہوئی تو ڈی پی او خانیوال اسماعیل کھاڑک نے سختی سے کہا کہ میری اجازت کے بغیر پرچہ نہ دینا اور ڈی ایس پی کو حکم دیا کہ دو دن میں مفصل انکوائری کریں اور رپورٹ مجھے بھجوائیں۔ ابھی ڈی پی او واپس خانیوال نہیں پہنچے تھے کہ ایس ایچ او تلمبہ مرزا رحمت نے 18سالہ نوجوان طالب علم مبشر تھراج پر 4 کلو اور 100گرام چرس کی برآمدگی کا وقوعہ بناکر مقدمہ درج کردیا کیونکہ ذرائع کے مطابق اس نے تھراجوں کے مخالفین سے مبینہ طور پر 5 لاکھ روپیہ لے رکھا تھا ۔ اگلے ہی روز مبشر تھراج کہ جس نے 11سال کی عمر میں گھر میں بھوک ہڑتال کرکے اپنے والد کو شراب نوشی سے کئی افراد کی موجودگی میں 2016 میں توبہ کرائی اور یہ حلف لیا کہ وہ مقامی زمینداروں کیلئے شراب خرید کر نہیں لائے گا البتہ مبشر کے رونے دھونے پر اس کے والد سجاد تھراج نے یہ وعدہ کیا کہ وہ شراب فروشی نہیں کرے گا البتہ خود کبھی کبھار پی لیا کرے گا کیونکہ اس کی عادت پکی ہوچکی ہے مگر وہ سب کے سامنے عہد کرتا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ بھی چھوڑ دے گا ۔ مبشر تھراج نے خلیجی ریاستوں میں ملازمت ڈھونڈ ی اور اس کی اگست کے وسط میں روانگی بھی تھی مگر مخالفین جن کے ساتھ کئی سال سے دشمنی چل رہی تھی کی ایس ایچ او مرزا رحمت سے مبینہ طور پر مبشر تھراج کو گرفتار کرانے کی 5لاکھ روپے میں ڈیل ہوگئی اور اسی رات پولیس نے اس کے گھر میں داخل ہوکر اسے اٹھا لیا اور اس وقت وہ جیل میں ہے۔