ایرانی صدر کا سانحہ ارتحال
ایرانی قوم اور حکومت کے لیے یہ لمحہ بے حد صدمے کا ہے کہ ان کے صدر اور دیگر افراد ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ یہ حادثہ نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بڑی خبر بن کر آیا ہے۔ ہر شخص اس حادثے پر افسردہ ہے اور اس غم میں ایرانی قوم کے ساتھ شریک ہے۔
یہ حادثہ ایران کے ایک پہاڑی علاقے میں پیش آیا جہاں پر ہیلی کاپٹر کے ملبے کو دیکھا گیا ہے۔ ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن نے دکھایا کہ ملبہ ایک دھندلے پہاڑی علاقے میں بکھرا ہوا ہے، جبکہ دیگر تصاویر میں ریڈ کریسنٹ کے کارکنان ایک لاش کو اسٹریچر پر لے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس حادثے میں ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایک سینئر ایرانی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا۔
ایران کا آئین اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ صدر کی موت کی صورت میں 50 دنوں کے اندر نئے صدارتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ یہ ایک بڑا آئینی عمل ہے جسے جلد از جلد مکمل کرنا ہوگا تاکہ ملک میں استحکام برقرار رہے۔
ایرانی قوم نے ہمیشہ مشکل حالات میں صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ حادثہ بھی ایک ایسا وقت ہے جب پوری قوم کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ ایرانی قوم اس مشکل وقت میں بھی متحد رہے گی اور اپنے ملک کے لیے بہتر مستقبل کی راہ ہموار کرے گی۔
ایرانی صدر کی موت سے ملک میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ ان کی قیادت ملک کے لیے بہت اہم تھی اور انہوں نے کئی اہم فیصلے کیے جو ایران کی ترقی کے لیے ناگزیر تھے۔ ان کی موت کے بعد اب ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نئے صدر کا انتخاب ضروری ہے۔
ایرانی حکومت اور عوام کے لیے یہ وقت صبر اور تحمل کا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
ایرانی قوم اور حکومت کے لیے ہماری دلی تعزیت۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ ایران کے مستقبل کے لیے ہماری نیک تمنائیں اور دعا ہے کہ وہ اس حادثے سے جلد از جلد سنبھل جائے اور اپنے مقاصد کی طرف گامزن رہے۔
ایران ایک مضبوط قوم ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس مشکل وقت سے جلد نکل آئے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین۔
ایرانی صدر کی قیادت میں ملک نے بین الاقوامی سطح پر کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کی سفارتکاری اور قائدانہ صلاحیتوں نے ایران کو عالمی سطح پر ایک مضبوط مقام دلانے میں مدد دی۔ ان کی موت سے نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا میں ایک اہم شخصیت کا خلا پیدا ہوا ہے۔
ایران کے عوام کو چاہیے کہ وہ اس مشکل وقت میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی حکومت کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ ایرانی قوم اس حادثے کے بعد بھی مضبوطی سے کھڑی رہے گی اور اپنے ملک کو آگے لے جانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
ایرانی حکومت کے لیے یہ وقت انتہائی نازک ہے۔ انہیں نئے صدارتی انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ ایران کی حکومت اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
ایرانی قوم کے ساتھ ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس مشکل وقت سے نکلنے کی توفیق دے اور ان کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین۔
ایرانی صدر اور دیگر افراد کی ہلاکت پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ مختلف ممالک کے رہنماؤں نے ایرانی قوم اور حکومت کے ساتھ اظہار تعزیت کیا ہے۔ یہ عالمی برادری کی جانب سے ایرانی قوم کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا مظاہرہ ہے۔
ایرانی عوام کو چاہیے کہ وہ اس مشکل وقت میں اپنی حکومت کا ساتھ دیں اور ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں۔ یہ حادثہ ایک بڑا صدمہ ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ ایرانی قوم اس سے جلد نکل آئے گی اور اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔
اللہ تعالیٰ ایرانی قوم کو اس مشکل وقت سے نکلنے کی توفیق دے اور ان کے ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن رکھے۔ آمین۔
عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری
گزشتہ دنوں ایک اہم عدالتی کارروائی میں، جسٹس کیانی نے ریاستی اداروں اور ان کے کردار پر اہم سوالات اٹھائے۔ انہوں نے ایک شہری، احمد فرہاد، کے اغوا کے معاملے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اداروں کو ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی۔
شہری کی بیٹی نے عدالت میں بتایا کہ انہیں 17 مئی کو شاہ کے نمبر سے واٹس ایپ کال موصول ہوئی، جس میں درخواست واپس لینے کا کہا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہماری اور ان لوگوں کے درمیان تین مسودے شیئر کیے گئے تھے ۔انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ خود عدالت گیا تھا۔”
جسٹس کیانی نے اس معاملے پر سختی سے پوچھا کہ آیا مغوی کوئی دہشت گرد تھا یا تاوان کے لئے اغوا کیا گیا تھا۔ انہوں نے ایس ایس پی زفر کو ہدایت دی کہ شاہ کو عدالت میں پیش کریں۔ جسٹس کیانی نے کہا، “ہر کسی کو اداروں کے عمل کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ میں آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلی جنس) سے اس آدمی (شاہ) کو چاہتا ہوں۔ آپ ڈی جی آئی ایس آئی [ندیم انجم] کو بتائیں کہ کسی بھی قیمت پر اس آدمی کو پیش کریں۔ اپنے اوپر سے یہ لیبل ہٹا دیں کہ آپ لوگوں کو اغوا کرتے ہیں۔”
ایڈیشنل اٹارنی جنرل بیرسٹر منور اقبال دگل نے کہا کہ پورے ادارے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اور انہوں نے دفاعی سیکرٹری کو مکمل بریفنگ دی تھی۔ تاہم، جسٹس کیانی نے وفاقی حکومت کو تنبیہ کی کہ وہ اداروں کے بارے میں عوام کے تاثر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف مغوی ہی جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کچھ برداشت کیا۔
جسٹس کیانی نے کہا، “مسائل کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ اداروں کا وجود خطرے میں پڑ جائے۔” وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے شاعر کو بازیاب کرانے کے لئے دو دن کی مہلت طلب کی۔ جسٹس کیانی نے اہلکار کو ہدایت دی کہ اعلیٰ حکام سے رابطہ کریں اور دوپہر 3 بجے تک عدالت میں جواب جمع کرائیں، بصورت دیگر، وہ احکامات جاری کریں گے۔
جسٹس کیانی نے کہا، “ریاست کا چہرہ نامعلوم افراد نہیں بلکہ پولیس ہے۔” اس بیان سے انہوں نے واضح کیا کہ ریاستی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور ان کی شناخت اور عمل عوام کے سامنے شفاف ہونے چاہئیں۔
اس کیس نے ریاستی اداروں کے کردار اور ان کی جوابدہی پر ایک نیا باب کھولا ہے۔ عوام کا اداروں پر اعتماد بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے واقعات کی شفاف تحقیقات ہوں اور ذمہ داران کو سخت سزائیں دی جائیں۔
اس کیس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ریاستی اداروں کو اپنی کارروائیوں میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانا ہوگا۔ عدلیہ کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ایسے معاملات کی سخت نگرانی کرنی چاہئے تاکہ عوام کے حقوق محفوظ رہیں۔
یہ واقعہ ایک اہم یاد دہانی ہے کہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے حقوق کی حفاظت کریں اور اپنے عمل سے اعتماد بحال کریں۔ عدلیہ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور دی گئی ہدایات ریاستی اداروں کے لئے ایک موقع ہیں کہ وہ اپنی غلطیوں کو درست کریں اور عوامی خدمت کے لئے بہتر اقدامات کریں۔ ہمیں امید ہے کہ اس واقعے کے بعد ادارے اپنے عمل میں شفافیت لائیں گے اور عوامی اعتماد بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔
ریاستی ادارے کسی بھی ملک کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد عوام کی خدمت اور حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کو بھول جائیں یا ان میں شفافیت نہ ہو، تو عوام کا ان پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریاستی ادارے اپنی کارروائیوں میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنائیں۔
عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ عوام کے حقوق کی حفاظت اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔ عدلیہ کی جانب سے ریاستی اداروں پر نگرانی اور ان کی جوابدہی کی ہدایات عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے اہم ہیں۔
عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے ریاستی اداروں کو اپنی کارروائیوں میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانا ہوگا۔ عوام کو یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے ریاستی ادارے مکمل طور پر پرعزم ہیں۔
ریاستی اداروں کو اپنی کارروائیوں میں بہتری لانے کے لئے مسلسل نگرانی اور جائزے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے، ریاستی ادارے عوام کے حقوق کی حفاظت اور شفافیت کو یقینی بنا سکتے ہیں ۔
یہ واقعہ ایک اہم یاد دہانی ہے کہ ریاستی ادارے عوام کے حقوق کی حفاظت اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ عدلیہ کی جانب سے دی گئی ہدایات اور نگرانی عوامی اعتماد کی بحالی کے لئے اہم ہیں۔ ریاستی اداروں کو اپنی کارروائیوں میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنا کر عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔