ایرانی صدر کا دورہ پاکستان، نئی حکومت کے لیے ایک مثبت آغاز
ہر نئی حکومت کے آغاز میں ایک خاص توقع کی جاتی ہے، کہ وہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر مضبوط تعلقات استوار کرے گی۔ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان اسی تناظر میں خوش آئند ہے۔ یہ دورہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کا پہلا بڑا بین الاقوامی موقع ہے۔
صدر رئیسی کی آمد، ان کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد کی موجودگی، یہ سب پاکستان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے دیرینہ دوست کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت دے سکے۔ ان ملاقاتوں کا انعقاد لاہور اور کراچی جیسے اہم شہروں میں ہونا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی اقتصادی و ثقافتی سرگرمیوں میں ایران کو ایک مرکزی حیثیت دے رہا ہے۔
پاک-ایران تجارتی و تزویراتی تعلقات، اس دورے کے مرکزی محور ہیں۔ دونوں ممالک نے تجارت، توانائی، زراعت اور عوامی سطح پر تعلقات کو بڑھانے کی غرض سے مذاکرات کیے۔ خصوصی توجہ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر مرکوز ہوئی، جس کی تکمیل سے دونوں ممالک کے لیے اقتصادی فوائد کی توقع ہے۔
اس کے علاوہ، پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے ساتھ بھی توازن برقرار رکھے۔ مڈل ایسٹ کے موجودہ تنازعات اور پراکسی جنگوں کی موجودگی میں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متوازن رہنے کی ضرورت ہے، تاکہ علاقائی امن و استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔
سی پیک میں ایران اور عرب ریاستوں کی شمولیت بھی ایک اہم موضوع ہے۔ اس شمولیت سے تجارتی راہداریوں کو نئی طاقت ملے گی اور علاقائی تعاون کے نئے ابواب کھلیں گے۔
یہ دورہ، جو پنجگور میں جیش العدل کے حملوں کے چند ماہ بعد ہوا، دونوں ممالک کے لیے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا ایک موقع بھی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس تعاون سے پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوطی ملے گی، جو کہ علاقائی امن کے لیے ناگزیر ہے۔
اس دورے کی عالمی سطح پر بھی گہری اہمیت ہے۔ یہ دورہ نہ صرف خطے میں استحکام کو بڑھائے گا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو بھی بہتر بنائے گا۔
ایرانی صدر کا یہ دورہ پاکستان کے لیے نہ صرف ایک نیا آغاز ہے بلکہ ایک موقع بھی ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی حیثیت کو مضبوط بنا سکے۔ اس دورے کے نتائج سے مستقبل میں پاک-ایران تعلقات میں مزید بہتری آنے کی امید ہے، جو کہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے خیر کا باعث بنے گی۔
ایم این ایس زرعی یونیورسٹی ملتان میں مٹی کا عجائب گھر
تعلیم اور زراعت کا ایک جدید منصوبہ
ایم این ایس زرعی یونیورسٹی ملتان نے پاکستان کا پہلا سوائل میوزیم (مٹی کا عجائب گھر) قائم کرکے ایک نئے معیار کو قائم کیا ہے۔ یہ عجائب گھر، جس کا افتتاح ممتاز علمی شخصیات نے کیا، نہ صرف ایک تعلیمی مرکز کے طور پر کام کرے گا بلکہ یہ زراعت کے شعبے میں مٹی کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گا۔
مٹی کا عجائب گھر، جسے ڈیپارٹمنٹ آف سوائل اینڈ انوائرمینٹل سائنسز نے تشکیل دیا ہے، ایک منفرد قدم ہے جو زراعت اور فصلوں کی پیداواری صلاحیت میں مٹی کی اہمیت کو فروغ دے گا۔ یہ میوزیم پاکستان بھر سے مختلف اقسام کی مٹی کے نمونے پیش کرتا ہے، جس میں پہاڑی علاقوں سے لی گئی ریت اور فیلڈ سپار جیسی مٹیاں بھی شامل ہیں۔ یہ تنوع نہ صرف مٹی کی خصوصیات بلکہ اس کی جغرافیائی تنوع کو بھی بیان کرتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ اور دیگر معزز مہمانوں نے اس عجائب گھر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ میوزیم نہ صرف طلباء بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی مٹی کی تعلیم و آگاہی کے فروغ میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس سے وسیع تر کمیونٹی، خاص طور پر کسانوں کو مٹی کے تحفظ کی اہمیت سمجھ آئے گی اور وہ موثر زرعی پریکٹسز اپنا سکیں گے۔
مزید برآں، ڈاکٹر تنویر الحق، چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف سوائل اینڈ انوائرمینٹل سائنسز نے بتایا کہ اس میوزیم کی تشکیل میں ڈیپارٹمنٹ کے طلباء اور اساتذہ کی جانب سے بھرپور کوششیں کی گئیں۔ انہوں نے پورے پاکستان سے مٹی کے نمونے جمع کیے، جس سے نہ صرف مٹی کے مختلف خصائص کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ مختلف علاقوں کی مٹی کی تعلیم بھی عام ہوگی۔
یہ عجائب گھر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مقامی کمیونٹیز کے لیے بھی ایک قیمتی وسیلہ ہے، جو مٹی کی اہمیت اور اس کے محافظت کے طریقوں کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ میوزیم مٹی کی تعلیم اور تحفظ کی جدید تکنیکوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ زراعت کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے کی کوششوں میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اس طرح کے منصوبے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی زرعی تعلیم اور تحقیق میں اس کے کردار کو مزید مستحکم کریں گے۔ ایم این ایس زرعی یونیورسٹی ملتان کا یہ اقدام دیگر اداروں کے لیے بھی مثال کا کام کرے گا اور مٹی کے تحفظ اور بہتر استعمال کے لیے نئے راہنما خطوط فراہم کرے گا۔
سی پیک منصوبوں پر سکیورٹی اخراجات: تحفظ اور توقعات کی کشمکش
سی پیک کے ذریعے جو امیدیں وابستہ کی گئی ہیں، وہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے اقتصادی منظرنامے کو نیا رُخ دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تاہم، ان منصوبوں کی کامیابی اور استحکام اُن پر ہونے والے دہشت گرد حملوں اور سیکورٹی خطرات کے بادل سے گہری طور پر مشروط ہے۔ اس پس منظر میں، حکومت پاکستان کا ان منصوبوں پر اربوں روپے کی سکیورٹی کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات ایک جائز اور ضروری اقدام نظر آتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھاری بھرکم رقم کی سرمایہ کاری اپنے مطلوبہ نتائج دے پا رہی ہے؟ حالیہ واقعات، جیسے کہ خیبر پختون خواہ میں چینی کارکنوں پر دہشت گرد حملہ اور کراچی میں جاپانی آٹو ورکرز پر حملہ، اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سیکورٹی اخراجات کے باوجود خطرات اب بھی موجود ہیں۔
وفاقی وزرات منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کا سی پیک منصوبوں پر سیکورٹی اخراجات کی تفصیلات طلب کرنا اس بات کا عکاس ہے کہ حکومت بھی اس پہلو پر متوجہ ہو چکی ہے کہ آخر اتنی بڑی مالیت کے منصوبوں پر سیکورٹی کے نام پر خرچ کی گئی رقم کا حساب کتاب کیا جائے۔ ایک فیصد بجٹ، جو کہ کل مالیت کا حصہ ہے، یقینی طور پر کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے اور اس کا درست استعمال ہر حال میں یقینی بنایا جانا چاہیے۔
یہ ضروری ہے کہ سیکورٹی کی مد میں خرچ کی گئی رقم کا تفصیلی جائزسی پیک کے منصوبوں کی حفاظت پر خرج ہونے والے بیش بہا سیکورٹی اخراجات اور اس کے باوجود سی پیک پر دہشت گرد حملوں میں اضافے پر ایک مربو ط مبسوط اداریہ درج ذیل حقائق کی روشنی میں لکھ ڈالیں۔
سی پیک کے منصوبوں کے حفاظتی اقدامات پر پاکستانی اربوں روپے کے اخراجات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان منصوبوں کے لیے کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں اور مقامی کارکنوں کی جان غیر محفوظ اور ان منصوبوں کی ورکنگ سائٹ پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سیکورٹی اور انٹیلی جنس ناکامی صاف نظر آتی ہے۔ حکومت نے ایسے میں درست اقدام اٹھایا کہ ان سیکورٹی اخراجات کی جملہ تفصیلات طلب کی ہیں تاکہ پتا چل سکے کہ سیکورٹی انتظامات کے نام پر کس مد میں کیا خرچ ہوا اور سیکورٹی و انٹیلی جنس کی ناکامی کہاں پر ہے؟
سی پیک معاہدے میں اس وقت پاکستان میں 21 ارب 66 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے کل 28 منصوبے زیر تکمیل ہیں اور ان سب منصوبوں کے سیکورٹی انتظامات پر ان میں سے ہر ایک منصوبے کی کل مالیت کا ایک فیصد بجٹ حکومت پاکستان کی طرف سے مہیا کیا جا چکا ہے۔ یہ 28 منصوبہ جات مختلف وزراتوں کے تحت آتے ہیں- وفاقی وزرات منصوبہ بندی ، ترقی و خصوصی اقدامات نے سی پیک کے تحت 28 منصوبہ جات پر سیکورٹی اخراجات کی تفصیلات طلب کی ہیں – ان منصوبہ جات مجوزہ لاگت 21 ارب 66 کروڑ 60 لاکھ ڈالر بتائی گئی ہے۔ یہ تفصیلات متعلقہ وزراتوں سے ایسے وقت میں طلب کی گئی ہیں جب غیر ملکی کارکنوں پر حملے بڑھ چکے ہیں – حال ہی میں کراچی میں بھی جاپانی آٹو ورکرز کے کانوائے پر حملہ ہوا- خیبر پختون خوا میں پن بجلی کے ایک منصوبے پر کام کرنے والے 5 چینی کارکن دہشت گرد حملے میں مارے گئے۔ ان دہشت گرد منصوبوں میں سیکورٹی انتظامات میں ایس او پیز کی پیروی نہ کرنے اور انٹیلی جنس ناکامی جیسے الزامات سامنے آئے ہیں-
سی پیک 2016ء کی پالیسی کے مطابق اقتصادی تعاون کمیٹی نے سی پیک کے ایسے منصوبے جو فناشل کلوزنگ کے مرحلے کو مکمل کرچکے ہوں ان منصوبوں کی تعمیر کا عمل شروع ہونے پر نیپرا کو کم آو کم ڈیڑھ لاکھ ڈالر مالیت کے منصوبے پر اس مالیت کا ایک فیصد جاری کرنے کی اجازت دی اور سی پیک کے 28 منصوبوں کی کل مالیت کا ایک فیصد 21 کروڑ 66 لاکھ 60 ہزار ڈالر بنتے ہیں-
وزرات منصوبہ بندی ، ترقی و خصوصی اقدامات کے مطابق حکومت نے ہر پروجیکٹ کی کل لاگت کے حساب سے ایک فیصد بجٹ سیکورٹی انتظامات کے لیے فراہم کیا تو تمام متعلقہ وزراتوں سے ان کی وزراتوں کے تحت چلنے والے سی پیک منصوبوں کی سیکورٹی کے لیے خرچ کیے گئے بجٹ ، باقی ماندہ رقم آکر ہے تو اور اس کے آڈٹ کا میکنزم پر مشتمل تفصیلی رپورٹ طلب کی کئی گئی ہے۔