آج کی تاریخ

شیخ ایاز کی شاعری کا مطالعہ - جامی چانڈیو/محمد عامر حسینی

ایاز پر میلہ؟ رام اوڈھ

شیخ ایاز سندھی اپنی اہلیہ ، بیٹے،بہو اور پوتی کے ہمراہ -فوٹو ڈان نیوز

ایاز نے بغاوت کے گیت گائے تھے۔ آمریت کے ہر دور میں اس نے مشکلات کا سامنا کیا۔ اس کی کتابیں ضبط کی گئیں، اس نے جیل کی یاترا کی، اور اسے شہر بدر کیا گیا۔ اس لیے ایاز کے 1975ء سے پہلے والے مزاحمتی فکر پر میلوں کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ نوجوان ان سے تحریک حاصل کریں۔ لیکن جب کسی میلے کا مقصد مراعات حاصل کرنا، بیوروکریسی کے ادبی گروہ کو جگہ دینا، مفادات کا نیٹ ورک بنانا، سرمایہ داروں اور بیوروکریٹس سے چندہ لینا، سستی شہرت حاصل کرنا، اور اپنے حلقے کے لوگوں کے سیشنز رکھنا ہو، تو ان رجحانات سے کیا تاثر ملتا ہے؟ کیا یہ باغی، انقلابی اور مزاحمتی ایاز کی حقیقی دریافت ہے؟

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ “خانہ بدوش کیفے” ایک سفارت خانہ ہے، جہاں مفادات کا نیکسس پروان چڑھتا ہے۔ جو لوگ یس مین اور پیروکار ہیں اور مفاہمت کا فن جانتے ہیں، ان کے لیے ہر سال میلے میں جگہ دی جاتی ہے۔ لیکن جو ادبی ٹولہ بازی اور اجارہ داریوں سے دور ہیں، انہیں ہر سال نظرانداز کیا جاتا ہے۔ سندھ میں صرف چند لوگ ہی ایاز کے فکر کو ستون اور سہارا دیے کھڑے ہیں۔ باقی ساری سندھ فکری طور پر اپاہج ہے؟

ہر سال وہی لوگ بات کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سندھ میں متبادل لوگوں کی کمی ہے یا وہ میلے کی اجارہ داری اور نیکسس کے باہر ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے میلوں میں ایک سوال کا دوسرا جواب دینے والے الفاظ کے کھیل کرتے ہیں یا کچھ سوال کرنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ میلے کا مقصد حکمرانوں کی چاپلوسی کرنا، مفادات کا حصول، سستی شہرت حاصل کرنا اور انجوائے کرنا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ دور کی چند اہم علامات ہیں۔ ایسے میلوں کا مقصد مال اور خوشامد کی دھمال ہے، انقلابی سوچ کی پرورش نہیں!

ایاز پر بات وہی کر سکتا ہے جو ایاز کے فکر کے ساتھ نہ ہو بلکہ میلے کی بریگیڈ کے ساتھ خیالات اور سوچ میں ہم آہنگ ہو۔ اس میلے میں مختلف سیشنز کے اسپیکرز کے انتخاب کے معیار کیا ہیں؟ کیا یہ لوگ ٹولہ بازی کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں؟ کیا یہ حکمران طبقے کے لوگ ہیں؟ کیا یہ بیوروکریٹس ہیں؟ کیا یہ ایاز میلے کے منتظمین کے ہر مفاد، ترجیحات اور پسند پر تنقید کرنے والے نہیں ہیں؟

ایاز میلو کی آرگنائزنگ کمیٹی کا وفد پروفیسر عرفانہ ملاح کی قیادت میں مئیر حیدرآباد کارپوریشن سے ملاقات کر رہا ہے -فوٹو فیس بک

دیکھا جائے تو سندھ میں کارپوریٹ ادبی فیسٹیولز پر کوئی بات کرنے کی جرات نہیں کرتا، کیونکہ اصل میں تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ جرات صرف وہی کر سکتا ہے جو حق پر ہو

“ہم نیند کے خواب ہیں، محبوب!

سوئے سانس جاگے،

دور دور چلیں،

ستارے عبور کریں ہمارا شعور،

سیکڑوں چاند ساتھی،

کتاوں کے سیکڑوں قافلے راستے میں،

سفر میں سیکڑوں کائناتیں…”

ایاز پر وہی بات کرے جس نے ایاز پر کام کیا ہو، ایاز پر وہ بات کرے جس نے ایاز کے نثر اور نظم کی تمام کتابیں پڑھی ہوں اور اس پر مسلسل لکھا ہو۔ لیکن سندھ میں خاص کر ایاز میلے میں معیار کچھ اور ہیں۔ سچ پوچھیے تو بہت سے ایسے “ایاز شناس” ادیبوں کے سیشنز رکھے گئے ہیں، جنہوں نے ایاز پر ایک بھی تحقیقی مقالہ نہیں لکھا۔ خود میلے کے منتظمین کا بھی یہی حال ہے۔ تحقیق کے ساتھ لکھے گئے پیپر تو چھوڑیں، وہ ایاز کی شاعری بھی درست نہیں پڑھ سکتے۔

انہی نشستوں میں بولنے والے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں، جو حکمران طبقے کے پسندیدہ افراد ہیں، وہ اشارے پر اڑ کر آتے ہیں اور دربار کے آداب پر سر جھکا کر سرخرو ہوتے ہیں۔ ان کے کردار کے بدلے سماج میں پیروکاری، مفاد پرستی اور مفاہمت کا آئیڈیل ازم جڑا ہوا ہے

آگ بن میں لگے، رادھکا ہو کر روئے

بانسری شیام کی بے سری ہو کر بجے

جنہوں نے ایاز کو کبھی پڑھا نہ ہو، اور اس کی انقلابی شاعری پر عمل نہ کیا ہو، وہ ایاز کے فکر پر کیا تقریر دے سکتے ہیں؟ اگر عمل نہیں ہے تو پھر فکری نشست کا مقصد کیا ہے؟

ایک بڑے کرپٹ بیوروکریٹ کو ایاز پر بات کرنے کے لیے بلایا گیا۔ ترقی پسند نظریاتی زوال کی ایسی مثال کہاں ملے گی؟ حیرت کی بات ہے کہ ایک انتہائی کرپٹ بیوروکریٹ ایاز کے اوپیرا کے کرداروں یعنی بھگت سنگھ اور دودو سومرو پر کیا بات کر سکتا ہے؟ اس سے بڑی ہماری نظریاتی شکست کیا ہو سکتی ہے؟

ایاز نے اوپیرا اس لیے لکھی تھی کہ ایک سرکاری کیفے اور سرکاری پروگرام میں ایک رشوت خور افسر اس کے باغی کرداروں پر تقریر دے؟ کیا وہ دانشور رنی کوٹ کے ڈاکوؤں کی وضاحت کر سکتا ہے؟ آج اگر رشید بھٹی ہوتے تو ضرور سوال اٹھاتے۔ ایاز نے اپنے سنگیت ناٹک بھگت سنگھ میں پھانسی کے آغاز کو بالکل درست بیان کیا تھا

یہ دیس پورا ہی بیمار ہے

اس کا دل روگی اور دماغ مفلوج ہے

پیٹی بورژوا طبقے کا مقصدِ حیات دولت، بڑے عہدے، سستی شہرت، اور انجوائمنٹ ہے۔ ایاز میلے میں درباری رجحانات پیدا کیے جا رہے ہیں، اور پھر ایک نشست میں سوال کیا جاتا ہے کہ دانشور کیسا ہونا چاہیے؟ یہی بات عمرکوٹ ثقافتی میلے میں ہوئی، جس میں ایک سیشن کا عنوان تھا: “سماج میں منفی رجحانات کے اسباب۔” ان مجاوروں کو کون بتائے کہ بڑے اسباب تو آپ خود ہیں، اور منفی رجحانات وہ ہیں جو آپ پیدا کر رہے ہیں

اس میلے میں تقریباً تمام موضوعات ایسے تھے، جن پر ایک ترقی پسند اور عملی شخص کا بیانیہ بالکل مختلف ہوتا۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس میلے میں محض محنت کش دراوڑ عورتوں کو مدعو کیوں کیا گیا، جبکہ سیشنز میں زیادہ تر اسپیکرز دائیں بازو کے تھے۔ اس میلے سے ایسا تاثر ملتا تھا کہ سول سوسائٹی کے افراد ذاتی ملکیت کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ہر فرد کا کردار تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔

حیدر چوک میں ریڑھی پر کتابیں بیچنے والا محنت کش ایاز میلے میں اپنا اسٹال نہیں لگا سکتا، صرف اس لیے کہ وہ اس کا کرایہ برداشت نہیں کر سکتا۔ بچوں کے رزق کے لیے کھڑے کھڑے کتابیں بیچنے والے ایک مزدور کے ساتھ یہ کیسا بورژوا رویہ اپنایا گیا ہے۔ ایاز نے کہا تھا

یہ گیت بھوکے بچوں کے لیے

مستقبل کے ستاروں کے لیے

مفلسوں کے لیے، مزدوروں کے لیے

پہلے ایاز میلہ کرپٹ بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں کے چندے پر منعقد ہوتا تھا، لیکن اب اس کے ساتھ سرکاری سرپرستی بھی شامل ہو گئی ہے۔ کلچر ڈپارٹمنٹ بھی اس کی اسپانسرشپ کر رہا ہے۔ کلچر ڈپارٹمنٹ کو ربن کاٹنے، ایکسپوزر اور پروجیکشن کے بجائے ادارے قائم کرنے یا کم از کم موجودہ اداروں کو بہتر بنانا چاہیے۔ سندھ لینگویج اتھارٹی، سندھیالوجی، اور سندھ ادبی بورڈ جیسے ادارے ادب، زبان اور ثقافت کے لیے بنائے گئے ہیں، لیکن ان میں نااہل اور سفارشی لوگ مقرر کیے گئے ہیں، اور یہ ادارے ان افراد کی تنخواہوں اور ٹی اے ڈی اے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، جبکہ کوئی خاص کام نہیں ہو رہا۔

حیدر چوک میں ریڑھی پر کتابیں بیچنے والا محنت کش ایاز میلے میں اپنا اسٹال نہیں لگا سکتا

سندھ میں انقلابی اور مزاحمتی رجحانات کو کمزور کرنے کے لیے ایسے میلوں کا کردار اہم ہے۔ یہاں سچ پر سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ مجھے رقص، موسیقی اور شاعری سے مسئلہ نہیں، لیکن ایاز کی بغاوتی اور انقلابی شاعری کو پس منظر میں ڈال کر مدح سرائی کے ذریعے ذاتی مفادات حاصل کرنے، سستی شہرت کے لیے ادبی ٹولہ بازی کرنے، اور میرٹ کے بجائے اقربا پروری جیسے رجحانات سے اختلاف ہے۔

ہماری پچھلی نسل رد انقلابی ثابت ہوئی ہے۔ ان کے رویے نوجوانوں کو مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں، جس کے باعث وہ فرار یا مفاہمت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ ان سے جرأت چھین لی گئی ہے، اور ان کے جوان جذبات پر درباری کردار غالب آ رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کے ترتیب دیے گئے یہ رجحانات نوجوانوں کے ذہنوں میں گہرائی تک پیوست ہو گئے ہیں۔ نوجوان اب خودداری، ارادے کی پختگی، اور بغاوت کے ہتھیار چھوڑ کر اوطاقوں میں حاضریاں دے رہے ہیں۔ کیا یہ نئی نسل کی شکست یا کمزوری نہیں؟

حکمران طبقہ، لبرل سول سوسائٹی، اور بائیں بازو ایک صفحے پر ہیں اور مفادات کے لیے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ اس کی جیتی جاگتی مثال ایاز میلہ ہے۔ سندھ میں مراعات یافتہ بورژوا اور پیٹی بورژوا طبقے کے لیے ایاز ایک بڑا شغل ہے، اور شہرت و مفادات کے حصول کا ایک اہم مورچہ۔ یہ رد انقلابی رجحانات، جو ادبی میلوں کے نام پر پروان چڑھ رہے ہیں، ماڈلنگ، فیشن، سستی شہرت، اور لبرل ٹرینڈز کو فروغ دے سکتے ہیں، لیکن ترقی پسند ادبی اور سیاسی انقلاب کی کوئی بات نہیں۔

:جب تک نوجوانوں کی نظریاتی بنیادیں پختہ نہیں ہوں گی، تب تک ایسے میلے محض تفریح کا ذریعہ بنے رہیں گے۔ میلوں میں جانے والوں کو اچھی تفریح ضرور ملتی ہے، لیکن ایاز کی وہ پکار کہیں کھو گئی ہے

“تو مجھے پھانسی پر لٹکائے گا،

میں تجھ سے پہلے مرنے والا نہیں۔

میری گونج تیرے بعد بھی،

تیری زندگی کا حصہ بنے گی۔”

سرکاری ادیب ہر اسٹیج پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ یہ رجحانات، جو سول سوسائٹی ترتیب دے رہی ہے، ایک بہتر سماج کی تعمیر میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ یہ رجحانات کسی نہ کسی طرح حکمران طبقے کو ہی سپورٹ کرتے ہیں۔

سندھ میں ہاری اور مزدور، اپنے بچوں سمیت، خودکشیاں کر رہے ہیں۔ حکمران طبقہ صرف ایک مخصوص طبقے کو نواز رہا ہے، لیکن یہی لوگ ہیں جو ایاز کے فن اور فکر سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور آصف زرداری سے بھی۔ یہ میلوں میں ایاز کی انقلابی شاعری پر بات کرتے ہیں اور پھر آصف زرداری کی خوشامد میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ کیا مفادات کی کیمسٹری کے تحت شیخ ایاز اور آصف زرداری میں کوئی فرق باقی رہتا ہے؟ دونوں کو منایا جا سکتا ہے؟ آصف زرداری کی خوشامد میں ایاز کہاں شامل تھا؟ ایاز نے تو کہا تھا:

“پورا ملک احتجاج کرے کھڑا،

لاکھوں عید کے چاند طلوع ہوں،

نہ مزدور پیٹ باندھ کر کام کریں،

نہ ہاری کبھی خون سے زمین سیراب کریں۔”

ایک شخص میلے میں گیا، لیکن کسی طرح اس کا پرس چوری ہو گیا۔ اس نے کہا کہ یہ میلہ اسی مقصد کے لیے لگایا گیا تھا۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ یہ ایاز کے نام پر، ایاز کے انقلابی فکر کا چور بازار ہے۔ ایاز نے کہا تھا:

“میرے پاس کچھ اور نہیں،

میں تمہیں وہ پکار دوں گا،

جس سے دنیا کے ستون ہل جائیں۔”

ادب کا کام تضادات کی وضاحت کرنا اور حق کو ناحق پر فوقیت دینا ہے۔ صحت مند تنقید ادب کے لیے ضروری ہے۔ میرے اس مضمون کے بیانیے اور موقف سے کوئی بھی اختلاف کر سکتا ہے۔

سندھ کے نوجوانوں کو تنقیدی شعور رکھنا چاہیے، سونے پر چمکنے والے جھوٹے ہیرے پہچاننے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ وہ نوجوان جو رد انقلابی رجحانات کے سامنے گمراہ ہونے کے بجائے حق اور سچ کا ساتھ دیتے ہیں، وہی اس دور میں ایک

anomaly

 ہیں، جن کے بارے میں ایاز نے کہا تھا

تم جو میرے بعد آؤ

کینجھر سے کارونجھر تک میرے گیت سنو

مجھے یاد کرو

سندھ سرخ ہو جائے گی

اور اگر تم اس پر میرے تخلیقی نقوش دیکھو

تو سمجھ لینا

تخلیق بڑی چیز نہیں

لیکن سچ بڑی چیز ہے

اور جو سچ پھیلاتا ہے

وہی سب سے بڑا ہے

شیئر کریں

:مزید خبریں