آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو — غیرت کے نام پر قتل معاشرے کا سب سے شرمناک گناہ

یہ جملہ — “اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو” — قرۃ العین کے افسانے کا عنوان ہے، مگر اس میں چھپی ہوئی اذیت، دکھ اور لاچاری کا مفہوم جنوبی ایشیا کی ہر اُس عورت کے مقدر سے جڑا ہوا ہے جسے اپنی شناخت، اپنی آزادی، یا محض اپنے وجود کی قیمت اپنی جان سے چکانی پڑتی ہے۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل دراصل کسی ایک فرد یا خاندان کی بدقسمتی نہیں، بلکہ ایک ایسی اجتماعی اخلاقی شکست ہے جس کا بوجھ ہم سب کے کندھوں پر ہے۔یہ قتل قتل نہیں، ایک اعلان ہے — کہ عورت اب بھی اس سماج میں اپنی مرضی سے جینے کا حق نہیں رکھتی۔ سندھ میں جاری کاروکاری کی روایت ہو یا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خون، یہ سب دراصل اس زہریلی مردانگی (toxic masculinity) کے مظاہر ہیں جو عورت کو جائیداد، عزت، یا خاندان کے وقار کی علامت سمجھتی ہے، انسان نہیں۔حقوقِ انسانی کمیشن (HRCP) کے مطابق صرف سندھ میں اس سال اب تک 105 خواتین کاروکاری کے نام پر قتل کی جا چکی ہیں۔ ان میں زیادہ تر کے قاتل کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی باپ، بھائی یا شوہر تھے — 38 شوہروں نے اپنی بیویوں کو مار ڈالا، 24 بھائیوں نے بہنوں کا خون کیا، 6 باپوں نے بیٹیوں کی زندگیاں چھین لیں۔یہ اعداد و شمار محض رپورٹ ہونے والے واقعات ہیں؛ حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ حقوقِ نسواں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں، مگر بیشتر واقعات پولیس ریکارڈ تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ خاموش قبریں ہمارے دیہات، قصبوں اور شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں — وہ قبریں جن پر کوئی انصاف نہیں اُترتا۔غیرت کے نام پر قتل کو “غیرت” کہنا ہی دراصل اس جرم کو طاقت دیتا ہے۔ جب تک ہم اسے ’’غیرت‘‘ کی بجائے قتل نہیں کہیں گے، تب تک معاشرہ اس کو معاف کرتا رہے گا۔ یہ دراصل غیرت نہیں، ظلم کی ثقافت ہے — جہاں عورت کی مرضی جرم، اس کا انتخاب گناہ، اور اس کا عشق بغاوت بن جاتا ہے۔پاکستان میں 2016 میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون میں ترمیم کی گئی تھی۔ اس ترمیم کے تحت پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 311 کے تحت ایسے قتل کو “فساد فی الارض” قرار دیا گیا تاکہ مقتول کے ورثا قاتل کو معاف نہ کر سکیں۔ مگر یہ قانون بھی کاغذی ہتھیار ثابت ہوا۔ آج بھی بیشتر مقدمات میں قاتل کو سزا نہیں ہوتی، یا وہ ’’صلح‘‘ کے نام پر چھوٹ جاتا ہے۔2019 میں سپریم کورٹ نے جرگہ نظام پر پابندی عائد کی تھی، مگر جرگے اب بھی سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے دیہات میں انصاف کے نام پر ظلم بانٹتے ہیں۔ ان غیر قانونی جرگوں میں عورتوں کو خون بہا کے طور پر دوسرے قبیلے کے حوالے کر دیا جاتا ہے، یا بدلے میں عورتیں بیچ دی جاتی ہیں۔ایک ممتاز سماجی کارکن نے بجا طور پر کہا تھا: “کاروکاری اب ایک انڈسٹری بن چکی ہے۔” اس انڈسٹری میں انسانوں کا سودا ہوتا ہے، خون کی قیمت لگائی جاتی ہے، اور عورت کو ’’معاہدے‘‘ کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ریاستی مشینری کا رویہ اس جرم کے سلسلے میں غفلت سے بڑھ کر شریکِ جرم ہے۔ پولیس اکثر ان مقدمات کو ’’خاندانی جھگڑا‘‘ یا ’’ذاتی مسئلہ‘‘ کہہ کر دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ ایف آئی آر درست نہیں لکھی جاتی، ثبوت ضائع کر دیے جاتے ہیں، اور گواہوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ عدالتیں اکثر ’’ثبوت کی کمی‘‘ کے باعث قاتلوں کو رہا کر دیتی ہیں۔اس سارے عمل میں مقتولہ کی کہانی کہیں کھو جاتی ہے — اور معاشرہ اگلے دن کسی نئے کیس کی خبر کے ساتھ زندگی معمول پر لے آتا ہے۔قانون اپنی جگہ، مگر ذہنی و ثقافتی انقلاب کے بغیر کوئی قانون کامیاب نہیں ہو سکتا۔ غیرت کے نام پر قتل کی جڑ پدرانہ سماج کی سوچ میں ہے۔ اس سوچ کے مطابق عورت مرد کی ملکیت ہے — وہ اس کی عزت، ناموس، اور انا کی علامت ہے، نہ کہ اپنی شناخت رکھنے والی آزاد انسان۔یہ سوچ تعلیم کے ذریعے ہی ختم ہو سکتی ہے۔ جب تک ہم اپنے بچوں کو — خصوصاً لڑکوں کو — بچپن سے یہ نہیں سکھائیں گے کہ عزت کسی کے جسم میں نہیں بلکہ انسان کے کردار میں ہوتی ہے، تب تک خون بہتا رہے گا۔دیہی علاقوں میں آج بھی عورت کی شادی، طلاق، محبت، اور یہاں تک کہ کپڑوں کے فیصلے تک مرد کے اختیار میں ہیں۔ ایسے ماحول میں عورت کو خودمختاری دینا بغاوت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ میڈیا اور نصاب میں خواتین کے حقِ انتخاب، خود مختاری اور زندگی کے وقار پر مثبت مکالمے کو فروغ دینا ہوگا۔ریاست کا فرض صرف قانون بنانا نہیں، بلکہ اس کا نفاذ یقینی بنانا ہے۔ ہر صوبے میں ویمن پروٹیکشن یونٹس قائم کیے گئے ہیں، مگر ان کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔ اکثر خواتین تھانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دھمکیوں یا دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ریاست کو فوری طور پر:

  • تحفظِ گواہان پروگرام (Witness Protection) کو فعال بنانا ہوگا تاکہ عورتیں اور گواہ مقدمات میں کھل کر بیان دے سکیں۔
  • شیلٹر ہومز میں سہولتوں کا معیار بہتر بنانا ہوگا تاکہ متاثرہ خواتین وہاں محفوظ رہ سکیں۔
  • مفت قانونی امداد (Free Legal Aid) کے نظام کو فعال بنانا ہوگا تاکہ غریب خواتین کو انصاف تک رسائی حاصل ہو۔
  • پولیس فورس کو صنف حساس تربیت (Gender Sensitisation) دی جائے تاکہ وہ متاثرہ خواتین سے ہمدردی کے ساتھ معاملہ کریں۔
    سماجی رویوں میں تبدیلی — سب سے بڑی جدوجہد
    اگر غیرت کے نام پر قتل ختم کرنا ہے تو ہمیں سماجی رائے بدلنی ہوگی۔ آج بھی ایسے قاتلوں کو بعض علاقوں میں ’’غیرت مند‘‘ اور ’’بہادر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ذہنی بیماری ہے جو قانون سے نہیں، بلکہ اخلاقی تربیت سے ختم ہوگی۔ مذہب کو اکثر ان جرائم کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام نے کبھی بھی غیرت کے نام پر قتل کو درست نہیں ٹھہرایا۔ قرآنِ مجید میں قتلِ نفس کو ’’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل‘‘ کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
    علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں کو اس معاملے میں واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ منبر اور مدرسہ اگر ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں تو ان کی خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے۔
    سوال یہ ہے کہ آخر عورت کا وجود اتنا غیر محفوظ کیوں ہے؟ کیوں ایک لڑکی اپنی پسند کی شادی کرے تو مار دی جاتی ہے؟ کیوں ایک بہن اگر تعلیم حاصل کرنا چاہے تو بھائی کی غیرت جاگ جاتی ہے؟ اور کیوں ایک ماں کو ’’عزت‘‘ کے نام پر بیٹی کے خون پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے؟
    یہ سب اس لیے کہ ہم نے عورت کو انسان نہیں سمجھا۔ ہم نے اسے رشتوں، رسومات اور روایات میں قید کر رکھا ہے۔ ہم نے کبھی اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ خود کیا چاہتی ہے۔
    غیرت کے نام پر قتل دراصل عورت کی آزادی کے خلاف انتقام ہے۔ یہ قتل دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ ’’عورت اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتی‘‘۔ مگر سچ یہ ہے کہ عورت کی آزادی کو دبانے والے خود اپنی غیرت کے قاتل ہیں۔
    اگر ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل کی کوئی لڑکی یہ گیت گانے پر مجبور نہ ہو کہ “اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو”، تو ہمیں آج فیصلہ کرنا ہوگا — کہ ہم اپنی بیٹیوں کو خوف کے سائے میں نہیں بلکہ آزادی کی روشنی میں جینا سکھائیں گے۔
    ہمیں ان قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا جنہیں محض دکھاوے کے لیے بنایا گیا۔ ہمیں اپنے اسکولوں، میڈیا، اور گھروں میں عورت کے وقار، برابری، اور انسانی حق پر بات کرنی ہوگی۔
    ایک عورت کی زندگی کا قتل صرف اس کے خاندان کا سانحہ نہیں — یہ پوری قوم کی اخلاقی موت ہے۔ جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کریں گے، غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ نہیں رکے گا۔
    غیرت کو قتل سے جوڑنے کی یہ روایت توڑنا ہوگی۔ عزت عورت کے قتل میں نہیں، اس کے جینے میں ہے۔
    اگر ریاست، معاشرہ، مذہبی رہنما، اور ہم سب مل کر عورت کے حقِ زندگی کے محافظ بن جائیں، تو شاید قرۃ العین حیدر کا کوئی کردار لڑکی اپنے خالق سے یہ نہ کہے کہ اگلے جنم میں اسے بیٹی بناکر پیدا نہ کرنا —

شیئر کریں

:مزید خبریں