پاکستان اور ترکی کے تعلقات کی جڑیں تاریخ میں اتنی گہری ہیں کہ وقت اور حالات کی آندھیاں بھی انہیں متزلزل نہیں کر سکیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات محض سفارتی نوعیت کے نہیں، بلکہ برادرانہ محبت، مشترکہ ثقافتی اقدار اور ایک دوسرے کے لیے غیر متزلزل حمایت پر مبنی ہیں۔ ہر عالمی بحران میں، ہر سیاسی اور اقتصادی موڑ پر، پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں، جس نے ان کے رشتے کو مزید مضبوط اور مستحکم کیا ہے۔یہ تعلقات صرف رسمی ملاقاتوں اور معاہدوں تک محدود نہیں، بلکہ عوامی سطح پر بھی پاکستانی اور ترک قومیں ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ چاہے 1920 کی خلافت تحریک ہو، یا حالیہ برسوں میں مسئلہ کشمیر پر ترکی کی غیر متزلزل حمایت، دونوں ممالک نے ہر آزمائش میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کا عملی ثبوت دیا ہے۔سیاسی و سفارتی سطح پر پاکستان اور ترکی کی قربت کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، اور دیگر عالمی فورمز پر ترکی نے ہمیشہ پاکستان کے مؤقف کی بھرپور حمایت کی ہے، خاص طور پر مسئلہ کشمیر پر ترک صدر رجب طیب اردوان کے جرات مندانہ بیانات پاکستانی عوام کے دلوں میں ترکی کے لیے مزید عزت و احترام پیدا کرتے ہیں۔ دوسری طرف، پاکستان نے بھی ہر بین الاقوامی فورم پر ترکی کے مؤقف کی تائید کی ہے، چاہے وہ قبرص کا مسئلہ ہو یا مشرق وسطیٰ کے تنازعات۔دفاعی میدان میں بھی دونوں ممالک کی شراکت داری نمایاں ہے۔ ترکی پاکستان کو جدید جنگی ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے، جس میں جدید جنگی بحری جہاز، ڈرونز، اور دیگر دفاعی آلات شامل ہیں۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو ان کے اسٹریٹجک تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے۔تجارتی اور اقتصادی سطح پر بھی پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے اہم شراکت دار ہیں، تاہم اس شعبے میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 1.3 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے، جسے بڑھا کر 5 بلین ڈالر تک لے جانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارتی معاہدے اور مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبے دونوں ممالک کی معیشت کو مزید تقویت دے سکتے ہیں۔ثقافتی اور عوامی سطح پر بھی پاکستان اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ ترکی میں پاکستانی ڈرامے مقبول ہیں، جبکہ پاکستان میں ترک ڈراموں نے ناظرین کے دل جیت لیے ہیں۔ اسی طرح، تعلیمی میدان میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھ رہا ہے، ترک یونیورسٹیاں پاکستانی طلبہ کو اسکالرشپس فراہم کر رہی ہیں اور مشترکہ تحقیقی منصوبے بھی جاری ہیں۔ترکی اور پاکستان کا یہ گہرا رشتہ کسی وقتی مصلحت یا سیاسی مفادات کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک مضبوط بنیاد پر قائم برادرانہ تعلق ہے جو وقت کے ساتھ مزید مستحکم ہو رہا ہے۔ یہ نہ صرف دونوں ممالک کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے استحکام اور ترقی کا باعث بن سکتا ہے، اگر اس تعلق کو مزید مؤثر اقتصادی اور دفاعی معاہدوں کے ذریعے آگے بڑھایا جائے۔یہی وہ برادرانہ رشتہ ہے جو آزمائش کی ہر گھڑی میں مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے، اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی یہ تعلق اسی جوش و خروش کے ساتھ قائم رہے گا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کا حالیہ دورۂ پاکستان اس برادرانہ رشتے میں ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ ان کا یہ دورہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو مزید مضبوط کر رہا ہے بلکہ اقتصادی، تجارتی اور دفاعی تعاون کے دروازے بھی مزید کھول رہا ہے۔صدر اردوان کے اسلام آباد پہنچنے پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا، جہاں وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے ان کا خیرمقدم کیا۔ بعد ازاں، وزیراعظم ہاؤس میں ترک صدر کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے، جو اس دورے کی اہمیت کو اجاگر کر رہے تھے۔اس دورے کا سب سے اہم پہلو ساتویں پاکستان-ترکی اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک تعاون کونسل کا انعقاد تھا، جس کی مشترکہ صدارت وزیراعظم شہباز شریف اور صدر اردوان نے کی۔ اس اجلاس کے دوران کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، جن میں تجارتی تعلقات میں بہتری، دفاعی شراکت داری، اور سرمایہ کاری کے مواقع شامل تھے۔ اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اور کئی معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے، جو دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ صدر اردوان نے پاکستان-ترکی بزنس اینڈ انویسٹمنٹ فورم سے بھی خطاب کیا، جہاں انہوں نے پاکستان میں ترک سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے کاروباری رہنماؤں نے بھی شرکت کی اور باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے مختلف امکانات پر گفتگو کی۔ ذرائع کے مطابق، اس دورے کے دوران تجارت میں وسعت، ڈیجیٹل تجارت، غیر کسٹمی رکاوٹوں کے خاتمے، اور مزید ٹیرف رعایتوں پر مذاکرات کا آغاز کیا گیا، جس سے پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارتی تعلقات مزید مستحکم ہو سکیں گے۔اس وقت دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارتی حجم تقریباً 1.3 بلین ڈالر کے قریب ہے، لیکن ترک حکومت کا ہدف ہے کہ اس تجارت کو 5 بلین ڈالر تک پہنچایا جائے۔ اس مقصد کے لیے “ٹریڈ ان گڈز ایگریمنٹ” پر مذاکرات کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے تحت تجارتی رکاوٹوں کو کم کر کے دونوں ممالک کے تاجروں کے لیے مزید آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔دفاعی شعبے میں بھی اس دورے کے دوران اہم پیش رفت ہوئی۔ ترکی پہلے ہی پاکستان کو جدید دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے، جس میں جنگی بحری جہاز، جدید ڈرونز اور اسلحہ شامل ہیں۔ حالیہ دورے کے دوران مزید دفاعی معاہدے متوقع ہیں، جن کے ذریعے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون مزید گہرا ہو جائے گا۔یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں پاکستان اور ترکی کا مزید قریب آنا خطے میں استحکام کے لیے ضروری ہے۔ ترکی اور پاکستان دونوں ہی جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہم مقامات پر واقع ہیں، اور ان کا اتحاد جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ایک مضبوط توازن قائم کر سکتا ہے۔صدر اردوان کے اس دورے سے پاکستان اور ترکی کے درمیان تعلقات کو نہ صرف ایک نئی جہت ملی ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی امید کی ایک کرن ہے کہ ان کا برادرانہ رشتہ آنے والے وقت میں مزید مستحکم ہوگا۔ یہ محض ایک رسمی سفارتی دورہ نہیں، بلکہ ایک ایسا اقدام ہے جو دونوں ممالک کے مستقبل پر دیرپا مثبت اثر ڈالے گا۔یہ تعلقات وقت کے ساتھ مزید گہرے ہوں گے، اور اگر ان معاہدوں پر عمل درآمد کیا گیا تو پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے لیے حقیقی شراکت دار ثابت ہو سکتے ہیں، جو خطے کی ترقی اور استحکام کے لیے نہایت ضروری ہے۔
پاکستانیت کا عزم
پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کے درمیان رشتہ ہمیشہ سے مضبوط رہا ہے۔ یہ رشتہ محض ایک دفاعی ادارے اور شہریوں کا نہیں بلکہ ایک ایسا ناقابلِ تسخیر تعلق ہے جو قربانی، ایثار، وفاداری اور پاکستانیت کے جذبے سے سرشار ہے۔ پاک فوج نے ہمیشہ ملک کی سلامتی اور خودمختاری کے دفاع میں نہ صرف ہر ممکن قدم اٹھایا بلکہ جب بھی ضرورت پڑی، عوام کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام، خصوصاً نوجوان، اپنی فوج کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اور انہیں اپنی شناخت کا ایک لازمی جزو سمجھتے ہیں۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حالیہ دنوں میں اسی جذبے کو مزید مستحکم کرتے ہوئے نوجوانوں کو پاکستانیت کے اصولوں کو اپنانے کی تلقین کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کے عوام اور فوج کے درمیان تعلق کو کمزور کرنے کے لیے دشمن عناصر مسلسل سرگرم ہیں، لیکن ان کی تمام کوششیں ہمیشہ کی طرح ناکام ہوں گی۔ پاکستان کے نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں، اور انہیں اپنی صلاحیتوں کو قومی ترقی اور خوشحالی میں استعمال کرنا ہوگا۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دشمن قوتیں پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے داخلی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ فوج اور عوام میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے مختلف حربے آزمائے گئے، کبھی نظریاتی اختلافات کو ہوا دی گئی، کبھی دہشت گردوں کو پروان چڑھایا گیا، اور کبھی فرقہ واریت کا زہر گھولنے کی کوشش کی گئی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی قوم نے ہمیشہ ایسے عزائم کو خاک میں ملایا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں بھی عوام دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں، اور ان کی بہادری اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے شمار قربانیاں دی ہیں، اور پاک فوج نے ہمیشہ ہر محاذ پر صفِ اول میں رہتے ہوئے دشمن کو شکست دی ہے۔ جنرل عاصم منیر کا بیان کہ “یہ فتنہ خوارج کس شریعت اور دین کی بات کرتے ہیں؟” ان قوتوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے جو مذہب کی آڑ میں اپنی انتہا پسند سوچ کو پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بیان اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اور وہ اسلام کے نام پر جو انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ دراصل اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اسلام کے اصولوں پر قائم ہوا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں شدت پسندی کو فروغ دیا جائے۔ بلکہ اصل اسلام وہی ہے جس کی بنیاد رواداری، بھائی چارے، اور انسانیت پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج اور پاکستانی عوام نے ہمیشہ ان عناصر کے خلاف جدوجہد کی ہے جو دین کے نام پر ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے بالکل درست کہا کہ ہم کبھی بھی فتنہ خوارج کو اپنی فرسودہ سوچ اس ملک پر مسلط نہیں کرنے دیں گے۔پاکستانی نوجوانوں کو اس وقت سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ تعلیم اور جدید مہارتوں کا حصول ہے۔ آرمی چیف نے اپنے حالیہ خطاب میں اسی نکتے پر زور دیا کہ طلبہ اپنی تعلیم پر مکمل توجہ دیں اور جدید علوم و فنون میں مہارت حاصل کریں۔ آج دنیا میں وہی اقوام ترقی کر رہی ہیں جو علم کی طاقت کو استعمال کر رہی ہیں، اور پاکستان کو بھی اگر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کے نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی، سائنسی تحقیق، اور تخلیقی صلاحیتوں کے میدان میں آگے بڑھنا ہوگا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جدید دنیا میں معاشی ترقی کے لیے ٹیکنالوجی اور سائنسی تحقیق ناگزیر ہو چکی ہے، اور اگر پاکستانی نوجوان اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے تو یہ ملک کی ترقی کے لیے ایک بڑا نقصان ہوگا۔ اسی لیے آرمی چیف نے زور دیا کہ نوجوان ایسی مہارتیں حاصل کریں جو انہیں ملک کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنائیں۔اس وقت دنیا میں ممالک اپنی اقتصادی طاقت کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں، اور اگر پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنانا ہے تو ہمیں اپنی معیشت کو بھی مستحکم کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے نوجوانوں کو کاروباری شعبے، ڈیجیٹل معیشت، اور جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم رکھنا ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثال لی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ تعلیمی ترقی ہی اصل معاشی استحکام کی بنیاد رکھتی ہے۔جنرل عاصم منیر نے اپنی تقریر میں سرحد پار دہشت گردی اور پاکستان پر بیرونی اثرات کے خطرات کا بھی ذکر کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو ہمیشہ سے بیرونی سازشوں کا سامنا رہا ہے، اور دشمن ممالک نے مختلف مواقع پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر پاک فوج نے ہر بار ان سازشوں کو ناکام بنایا ہے اور ملک کی علاقائی سالمیت کا تحفظ کیا ہے۔پاکستان کے عوام کو چاہیے کہ وہ ان چیلنجز کو سمجھیں اور قومی یکجہتی کو فروغ دیں۔ اگر عوام اور فوج مل کر ان مسائل کا سامنا کریں تو کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس موقع پر ہمیں اپنے شہداء کو بھی یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے اس ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ ان قربانیوں کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ملک کو مضبوط اور خوشحال بنانے کے لیے دن رات محنت کریں۔پاکستان کی بقا اور ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب یہاں امن و استحکام قائم ہوگا۔ ملک میں استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اپنا کردار ادا کرے۔ خواہ وہ طالب علم ہو، استاد ہو، سرکاری ملازم ہو، یا کوئی کاروباری شخصیت، ہر شخص کو اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔ملک دشمن عناصر ہمیشہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے درپے رہے ہیں، لیکن پاکستانی قوم نے ہمیشہ عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں اور اس کی خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں۔پاک فوج کا کردار ہمیشہ سے پاکستان کی بقا کا ضامن رہا ہے، اور یہ رشتہ اسی وقت مزید مستحکم ہوگا جب عوام اپنی فوج پر مکمل اعتماد کا اظہار کریں گے اور دشمن قوتوں کی سازشوں کو سمجھیں گے۔ جنرل عاصم منیر کا پیغام ایک امید اور حوصلے کی علامت ہے کہ اگر پاکستانی نوجوان اپنی تعلیم، مہارت، اور حب الوطنی کو اپنا لیں تو پاکستان ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان کی ترقی کے لیے کام کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر مستقبل تعمیر کریں۔ یہ ملک ہمارا ہے، اور اس کی سلامتی، استحکام، اور ترقی کی ذمہ داری بھی ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر
پاکستان کی معیشت ایک بار پھر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسئلے سے دوچار ہے، اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جولائی تا اکتوبر 2024 کے دوران مقامی منڈی سے تقریباً 3.8 ارب ڈالر خریدے۔ یہ اقدام ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے کیا گیا، لیکن اس کے معیشت پر وسیع تر اثرات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ایسی مالیاتی مداخلتیں اکثر ملکی کرنسی کی بیرونی قدر کو مستحکم کرنے یا اسے کمزور/مضبوط بنانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں درآمدی مہنگائی کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے، روپے کی قدر کو محفوظ رکھنا خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی معیشت زیادہ تر درآمدی ایندھن اور خوردنی تیل پر انحصار کرتی ہے، اور ان کی قیمتوں میں معمولی اضافہ بھی مہنگائی میں بڑے اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔پاکستان میں مہنگائی کی شرح جنوری 2024 میں 28.3 فیصد تھی، جو جون 2024 تک کم ہو کر 12.6 فیصد تک آ گئی اور جنوری 2025 میں مزید کم ہو کر 2.4 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس بڑی کمی کی ایک بڑی وجہ روپے کی نسبتاً مستحکم بیرونی قدر ہے، جس نے مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد دی۔تاہم، اس استحکام کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، خاص طور پر روس-یوکرین جنگ اور مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کی وجہ سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔ پاکستان کی معیشت درآمدی ایندھن پر انحصار کرتی ہے، لہٰذا اگر بین الاقوامی منڈی میں قیمتیں بڑھتی رہیں تو یہ استحکام برقرار رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔کسی بھی ملک کے لیے کم از کم تین ماہ کی درآمدات کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر ہونا ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اکتوبر 2024 میں یہ ذخائر 11.156 ارب ڈالر تھے، جو بمشکل ڈھائی ماہ کی درآمدات کے لیے کافی تھے۔ اس صورتحال نے اسٹیٹ بینک کو مقامی منڈی سے ڈالر خریدنے پر مجبور کر دیا، تاکہ ذخائر میں کچھ استحکام لایا جا سکے۔اگرچہ اسٹیٹ بینک نے اکتوبر کے بعد بھی ڈالر خریدنے کا عمل جاری رکھا، لیکن جنوری 2025 میں ذخائر بمشکل بڑھ کر 11.372 ارب ڈالر ہوئے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشی صورتحال میں کسی بڑی بہتری کے آثار نہیں ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ حکومت ملکی اور بیرونی قرضوں پر انحصار جاری رکھے ہوئے ہے، کیونکہ تجارتی خسارہ اور مالیاتی خسارہ مسلسل برقرار ہے۔اسٹیٹ بینک کے گورنر کے مطابق، پاکستان کو مالی سال 2025 کے دوران 26 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں، جبکہ تین دوست ممالک نے ایک سال کے لیے 16 ارب ڈالر کے قرضے مؤخر کر دیے ہیں۔ بقیہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے پاکستان کو مزید مالی وسائل درکار ہیں، جن میں غیر ملکی تجارتی بینکوں سے 4.5 ارب ڈالر کی متوقع مالی معاونت شامل ہے۔اس کے علاوہ، حکومت نے دو مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے 1 ارب ڈالر حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، مگر اس کے باوجود قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید سرمایہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے ڈالر خریدنے پڑ رہے ہیں۔عام طور پر، کسی بھی ملک کی کرنسی کو کمزور کرنا برآمدات کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم حکمت عملی سمجھی جاتی ہے، کیونکہ اس سے مقامی مصنوعات کی قیمت بین الاقوامی منڈی میں کم ہو جاتی ہے، اور خریداروں کے لیے زیادہ پرکشش بن جاتی ہیں۔لیکن پاکستان کے معاملے میں، روپے کی قدر کو زیادہ کمزور کرنا ممکن نہیں، کیونکہ یہ ملک پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں کی لاگت میں اضافہ کر دے گا۔ موجودہ مالی سال کے لیے بیرونی قرضوں کی ادائیگی 1.038 کھرب روپے تک پہنچ چکی ہے، جو پہلے ہی معیشت پر بڑا دباؤ ڈال رہی ہے۔ مزید برآں، غیر ملکی کمپنیوں کے منافع کی واپسی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر چینی آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے لیے۔گزشتہ سال تک، پاکستان میں روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی، جس کی وجہ سے زرِ مبادلہ کے منڈی میں غیر قانونی طریقے (ہنڈی/حوالہ) سے لین دین بڑھا، اور ترسیلاتِ زر میں 4 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ کی اس حکمت عملی پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے شدید اعتراض کیا تھا اور پاکستان کا مالیاتی پروگرام معطل کر دیا تھا۔موجودہ صورتحال میں، آئی ایم ایف دوبارہ پاکستان کے ساتھ موجودہ مالی معاونت پروگرام کے تحت کام کر رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بھی تسلیم کیا ہے کہ “محدود زرمبادلہ کے ذخائر بیرونی استحکام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں”، اور اسی وجہ سے “زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے”۔اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری لانے کے لیے ڈالر خریدنا بظاہر ایک منطقی اقدام نظر آتا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت قرضوں کو صرف سود اور اصل رقم کی ادائیگی تک محدود رکھنے کے بجائے اسے اپنے جاری اخراجات کے لیے بھی استعمال کر رہی ہے۔یہ ایک خطرناک رجحان ہے، کیونکہ جاری اخراجات کے لیے بیرونی قرضوں کا استعمال ملکی معیشت کو کمزور کر دیتا ہے۔ طویل مدتی حل کے بجائے قلیل مدتی اقدامات پر انحصار کرنے سے معیشت مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔پاکستان کی معیشت اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے، جہاں زرمبادلہ کے ذخائر، بیرونی قرضے، اور مالیاتی خسارہ بڑے چیلنجز ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی ڈالر خریداری کی پالیسی عارضی استحکام فراہم کر سکتی ہے، لیکن جب تک برآمدات میں اضافہ، سرمایہ کاری میں بہتری، اور مالیاتی نظم و ضبط نہیں اپنایا جاتا، یہ مسئلہ بار بار سر اٹھاتا رہے گا۔حکومت کو بیرونی قرضوں پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کے بجائے پائیدار اقتصادی اصلاحات پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جا سکے۔ اسی طرح، روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر سہارا دینے کے بجائے طویل مدتی حکمت عملی کے ذریعے اس کی حقیقی قدر کو بہتر بنانے پر کام کرنا چاہیے۔آنے والے مہینوں میں، اگر بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا یا بیرونی قرضوں کی واپسی کے دباؤ میں شدت آئی، تو معیشت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک دانشمندانہ فیصلے کریں اور معیشت کو عارضی اقدامات کے بجائے پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔