ہم زندہ قوم ہیں

“اوپر سے حکم”

گستاخ (قسط اول)

(آخری قسط) (تحریر: میاں غفار احمد (کار جہاں

پاکستان میں ہر کسی کا اپنا اپنا “اوپر والا” ہے۔ ایوب خان کے دور میں ایک پیر صاحب بہت مشہور تھے۔ ان کا پوٹھوہار سے تعلق تھا۔ وہ سفر کے دوران کسی بھی جگہ اچانک ڈرائیور کو فوری گاڑی روکنے کا حکم دیتے اور پھر گاڑی سے اتر کر ہاتھ باندھ کر باادب کھڑے ہو جاتے تاہم ان کے مدمقابل کوئی نہیں ہوتا تھا، اور وہ بس جی، جی، جی حضور، جی حضور، کہتے رہتے پھر دو چار منٹ بعد دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو جاتے۔ انہیں فیلڈ مارشل ایوب خان کا پیر ہونے کا بھی اعزاز حاصل تھا۔ سمجھدار آدمی تھے کبھی بھی یہ نہیں بتاتے تھے کہ انہیں اچانک کون ملنے کیلئے آتے ہیں اور وہ کن سے سڑک پر باادب کھڑے ہو کر احکامات لے رہے ہوتے ہیں مگر لوگ قیاس آرائیوں کے قلابے بہت حد تک ملاتے رہتے اور ان کا “کام” اچھا خاصا چلتا رہتا تھا۔ ہمارے ایک دور کے رشتے دار کو راوی روڈ پر واقع ایک مزار سے “ہدایات” ملتی تھیں مگر بعد میں جب میٹرو بس کا روٹ بنا تو مزار سمیت صاحب مزار راتوں رات مریدین کی امیدوں کو چھوڑ کر دریائے راوی کے کنارے بھجوا دیئے گئے جہاں نام و نشان ہی نہ رہا مگر سنا ہے کہ وہاں سے خاص مریدین کو اب بھی ہدایات ملتی رہتی ہیں۔

میرے ایک مہربان جو آج کل ریٹائرڈ لائف گزار رہے ہیں جنوبی پنجاب کے ایک ضلع میں پولیس سربراہ تھے بہت ہی صاف ستھرے اور محتاط آفیسر ہونے کے ناطے وہ تو سگریٹ کے بھی قریب نہیں جاتے تھے مگر ان کا ماتحت ایک کاری گر تھانے دار “اوپر سے حکم‘‘ کے نام پر پرسکون نیند کا مشروب منگوایا کرتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج تک کسی سرکاری اہلکار نے اپنے نام پر پیسے لئے ہیں، نہیں جناب نہیں، تقریباً تمام ہی سرکاری اہلکار اوپر دینے کے نام پر دن رات ریکوریاں کرتے ہیں اور پیسے لیتے وقت دو چار گالیاں اوپر والوں کو دے کر اور بھرپور طریقے سے کلام بخش کر عوام کے دلوں میں نفرت تو آفسران کے خلاف بھرتے رہے ہیں جبکہ مال خود رکھتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ رحیم یار خان میں ’’ امور کچہ‘‘ کے ایک خود ساختہ ماہر ایس ایچ او کی شہر اور کچے میں کتنی پراپرٹی ہے البتہ گالیاں دینے میں وہ بھی بہت مہارت رکھتے ہیں اور مظلوم عوام کیلئے گالیوں کے پھول اکثر ان کے منہ سے چھڑتے رہتے ہیں۔ ان کا بھی تکیہ کلام ہے ایک تو ہمیں افسران کی چٹیاں ہی سانس نہیں لینے دیتیں۔ کسی بھی شہر کے کسی بھی چوک میں کھڑا ایک ٹریفک کانسٹیبل بھی ہر وقت “اوپر سے حکم” ہی کا راگ الاپتا رہتا ہے مگر جب کوئی جیب گرم کر دے تو اوپر سے حکم چند ہی لمحوں میں ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ شیخ سعدی شیرازی ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے بلا اجازت ایک سیب توڑے گا تو اس کے سپاہی سارے کا سارا باغ ہی اکھاڑ کر لے جائیں گے۔ اگر اوپر سے کوئی ایک آدھ غیر قانونی اور ناجائز حکم آ بھی جاتا ہے تو ماتحت اس ایک حکم کو 100سے ضرب دے کر اس میں 99 احکامات اپنی مرضی کے ڈال دیتے ہیں

بہت سال پہلے ضلع خانیوال میں ایک بم دھماکے کی تفتیش میں تقریباً 2 ہزار سے زائد لوگ کئی سال تک شامل تفتیش کئے جاتے رہے اور ہر کسی نے منہ مانگی خدمت کے عوض دہشت گردی کے مبینہ مقدمے سے جان چھڑائی۔ اب اوپر سے حکم تو اصل ملزم کو پکڑنا تھا اور وہ تو کوئی ایک ہی تھا مگر اُس ایک کو دو ہزار سے ضرب دے دیا گیا اور اس طرح کئی سال تک اوپر کے ایک حکم سے ہر آنے والا تھانیدار مستفید ہوتا رہا۔

سابق وزیر اعلی غلام حیدر وائیں بہاولپور کے دورے پر لاہور سے صحافیوں کی ٹیم کے ہمراہ پہنچے، سرکٹ ہاوس میں ان کیلئے پرتکلف عشائیے کا انتظام کیا گیا تھا جس میں بھنے ہوئے دیسی مرغوں کی ڈشیں بھری ہوئی تھیں۔ حسب عادت غلام حیدر وائیں نے کرپشن کے خاتمے پر لیکچر دیا تو اس وقت کے بہاولپور سے جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر مرحوم بول پڑے۔ کہنے لگے کہ وائیں صاحب یہ ابھی جو ہم سب نے دیسی مرغے کھائے ہیں یہ ڈی سی کے حکم پر پٹواریوں نے چولستانی و ضلع بھر کے زمینداروں سے زبردستی لئے ہیں ۔ آپ سرکٹ ہاوس کے عقب میں جا کر تصدیق کر لیں کہ بہت سے پٹواری اب بھی وہیں موجود ہیں۔ اب کیا ہو سکتا تھا “اوپر کے ایک حکم” سے درجنوں دیسی مرغے ذبح ہو کر درجنوں معدوں میں جا چکے تھے لہٰذا وائیں مرحوم کی تقریر دھری کی دھری رہ گئی۔

کہتے ہیں کہ کسی گاوں کے نمبردار کے گھر چور گھس آئے اندھیرے میں ٹھوکر لگنے پر شور ہوا تو گھر والوں کی آنکھ کھل گئی۔ پرانے زمانے کے گھر کا بڑے روشندانوں اور اونچے اوطاقوں والا کمرہ تھا۔ چور باہر نکل نہ سکے اور کمرے میں ہی ادھر ادھر چھپ گئے گاوں کی عورتیں چوہدرانی سے دن بھر افسوس کرنے آتی اور پوچھتی رہیں کہ چور کمرے میں کیسے داخل ہو گئے اور چوہدرانی ہر کسی کو جواب میں یہی کہتی ۔ بس پتہ نہیں اوپر والا ہی جانے، اب جو چور اوپر چھت سے جڑے ایک بڑے روشندان میں چھپا بیٹھا تھا اس نے اس بات کو اپنے اوپر الزام سمجھا اور تنگ آ کر بول پڑا، یہ اوپر والا ہی کیوں جانے جو بیڈ کے نیچے چھپا ہے، جو الماری کے پیچھے چھپا ہے وہ کیوں نہ جانے۔ روشن دان والے نے اپنے اوپر لگنے والا مسلسل الزام سارے ساتھیوں میں تقسیم کر دیا اور سب کو پکڑوا دیا۔

سچ یہ ہے کہ ہر کسی کے اپنے اپنے “اوپر والے” ہیں، میں درجنوں مثالیں دے سکتا ہوں کہ بہت سے ماتحت افسران نے دو ٹوک الفاظ میں اوپر سے حکم پر، سوری میں ایسا نہیں کر سکتا کہہ کر صاف جواب بھی دیا ہے اور عزت سے نوکریاں بھی کر رہے ہیں۔ چند ماہ قبل ملتان میں تعینات ایک ایس ایچ او نے ایک ایس پی پر بھری محفل میں الزام عائد کر دیا کہ مجھ سے ناجائز کام کرائے جاتے ہیں۔ میں ناجائز مقدمات اورظلم نہیں کر سکتا۔ مجھے برائے مہربانی پولیس لائن ٹرانسفر کر دیا جائے۔ لاکھوں کی تعداد میں آج بھی ایسے باضمیر ماتحت ہیں جن کے نزدیک اوپر والا صرف اور صرف ایک ہی ہے۔ وہ صرف اسی ایک کو مانتے ہیں اور اسی ایک کی مانتے ہیں کہ جو وحدہ لا شریک ہے۔ یقینی طور پر اعلیٰ ترین اجر ایسے ہی ایمان والوں کا منتطر ہے۔