آج کی تاریخ

گستاخ (قسط اول)

“اوپر سے حکم”

تحریر؛ میاں غفار احمد (کار جہاں)

مجھے 35 سالہ صحافتی زندگی میں یہ “اوپر سے حکم” کے ہزاروں بار سنے جانے والے مختصر ترین جملے کا مطلب آج تک سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ اوپر سے حکم آخر ہوتا کس کا ہے؟یہ کون ہے “اوپر والا؟ کون اتنا طاقت ور ہے کہ اس کے سامنے ہمارے سرکاری ملازمین و افسران کا ایمان سرے سے ایمان ہی نہیں رہتا اور ضمیر و شعور کا بھی نام و نشان ہی مٹ جاتا ہے۔ مجھے اوپر سے حکم کے جملے پر ہمیشہ کنفیوژن ہی رہی کہ میں تو اوپر والے کا واحد مطلب صرف اور صرف رب ذوالجلال ہی سمجھتا اور یقین رکھتا ہوں۔ میرے نزدیک تو اوپر سے حکم کا یہی ایک مطلب بنتا ہے کہ مجھے کوئی اور مطلب نہ تو سمجھ آتا ہے نہ ہضم ہوتا ہے۔ نہیں ہوتا بھئی مجھ سے یہ شرک اکبر۔ میں نے تو چند سال ہی سرکاری نوکری کرکے چھوڑ دی تھی اور ان چند سالوں میں یہی دیکھا کہ ہمیں کام نہ کرنے کی تو تنخواہ ملتی ہے جبکہ کام کرنے کا “پھل” ہر کوئی اپنی اپنی مرضی اور اپنے اپنے اختیار کے مطابق چنتا ہے۔ میں نے تو یہ بھی دیکھا کہ پرائیویٹ نوکری کے مقابلے میں سرکاری ملازمت ہزاروں گنا محفوظ ہونے کے باوجود یہ سرکار کے نوکر ’’ اوپر سے حکم‘‘ کو کیوں من و عن تسلیم کرتے ہین۔ یہ اوپر والا ان لوگوں کے نزدیک ہے کون؟ کہ جس کے حکم کے سامنے ان کا دین، ایمان، ضمیر، اخلاقیات، اصول پسندی، وضعداری، تربیت سمیت ہر طرح کی اقدار کا جنازہ ہی نکل جاتا ہے۔

1994 میں لاہور میں ایک اخبار کا چیف رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ ایک روز مجھے میرے چیف ایڈیٹر نے اپنے آفس میں بلایا جہاں دو دفتر کے لوگ اور تین باہر کے لوگ عقبی جانب کونے میں پڑے ٹی وی پر ایک ویڈیو کلپ دیکھ رہے تھے۔ اس زمانے میں ویڈیو کیسٹ سیاہ رنگ کی دو تین سو صفحات کی کتاب جتنی موٹی اور کم و بیش کتاب ہی کے سائز جیسی ہوتی تھی۔ مجھے وہ ویڈیو وی سی آر سے نکال کر دے دی گئی جو کہ ایک گلوکارہ کی غلیظ ویڈیو تھی، مجھے حکم ہوا کہ کل سے اس کی خبر چلاو اور بے نقاب کرو اس ۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ علماء کرام سے بھی رائے لو، فلمی حلقوں کا بھی ردعمل اس پر آنا چاہئے۔ بس اس ۔۔۔۔۔۔۔ کو چھوڑنا نہیں۔ وہاں موجود سب لوگوں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ میں تب جوان اور صرف 4 سالہ صحافتی کیرئیر رکھتا تھا میں نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ویڈیو کیسٹ ان کے میز پر واپس رکھ دی اور کہا آپ کسی اور رپورٹر کی ڈیوٹی لگا دیں، میں اس پر کام نہیں کروں گا کیونکہ ابھی تو شاید یہ ویڈیو چند ہی لوگوں نے دیکھی ہو گی مگر جب میں اس کی روزانہ خبر بنانا اور شائع کرانا شروع کروں گا تو لاکھوں لوگ اسے دیکھیں گے اور یہ اپنی قیمت سے گئی گنا زیادہ کرائے پر جایئ گی اس طرح اخبار میں خبر شائع ہونے کے بعد گناہ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ میرے کھاتے میں بھی اسی طرح لکھا جائے گا جیسے قابیل کے کھاتے میں آج تک مسلسل لکھا ہوا آ رہا ہے اور قیامت تک جب بھی کوئی قتل ہو گا، اس کا ایک حصہ قابیل کے کھاتے میں ہی لکھا جاتا رہے گا۔

پرائیویٹ اداروں میں جو لوگ نوکری کرتے ہیں وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ باس کے سامنے انکار کا کیا مطلب ہوتا ہے، مگر میں صاف انکار کر چکا تھا۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی مگر چند ہی لمحوں میں چیف ایڈیٹر کے چہرے سے انکار کی ناگواری میں نے مایوسی میں تبدیل ہوتی دیکھی اور میرے انہوں نے طنزیہ کہا، مولوی غفار ٹھیک ہی کہتا ہے، پھر ویڈیو کیسٹ اٹھائی اور دراز میں رکھ کر لاک کر دی۔ میرا اللہ گواہ ہے کہ اس ویڈیو کی ایسی تالہ بندی ہوئی کہ وہ کیسٹ پھر کبھی باہر نہ آئی۔ ویڈیو جس گلوکارہ کی تھی وہ آج بھی حیات ہے مگر اللہ نے مجھے توفیق دی اور میں ایک مسلسل برائی کا تا قیامت حصہ بننے سے بچ گیا حالانکہ جوانی میں انسان ایسی چیزوں کے انجام کی پرواہ نہیں کرتا۔ پرائیویٹ ملازمتیں کرتے کرتے آج اللہ نے مجھ پر اتنا کرم کیا کہ میں اپنا ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

سوال یہ ہے کہ نجی شعبہ کی نسبت سرکاری ملازمین تو بہت زیادہ تحفظ یافتہ ہوتے ہیں پھر ان کیلئے “اوپر سے حکم” جس کا بھی ہو اور جس جگہ سے بھی آئے؟ کیا اس نوکر شاہی کے لئے “اوپر والا” کوئی اور بھی ہے؟ کون ایسا طاقت ور “اوپر والا” ہے جو ان کو اپنا دین دنیا، اخلاقیات، تربیت اور تہذیب تک بھول جانے کا حکم دیتا ہے۔ کیا اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے والا اتنا طاقت ور ہے کہ اس کے حکم کے آگے رب کائنات کے حکم (نعوذ باللہ) کو بھی بھلا دیا جائے ۔ کیا ان عارضی اوپر والوں کا حکم بجا لانے والوں اور ان پر عمل درآمد کرنے والوں نے حقیقی اور ابدی اوپر والے کے سامنے پیش نہیں ہونا؟ کیا میدان حشر صرف ہمارے لئے ہی قائم ہونا ہے ان “دنیاوی اوپر والوں” کو وہاں بھی کھلی چھٹی ہے؟ کیا ان دنیاوی اوپر والوں نے آب حیات پی رکھا ہے؟ نہیں حضور ہرگز نہیں، اصل میں یہ ہم ماتحتوں ہی کی خباثتیں اور ہمارے ہی اندر چھپے بیٹھے چھوٹے چھوٹے فرعون ہیں جو اوپر سے حکم کی آڑ میں اپنے اپنے کاروباری کھاتے کھولے رکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ انہیں بھی حقیقی اوپر والے کے روبرو پیش ہونا ہے۔

سوال یہ ہے کہ میلسی کے ایک محنت کش گھرانے میں آنکھیں کھول کر 25 سال تک عاجزی اور شرافت کی زندگی گزارنے کے بعد پولیس میں بھرتی ہوتے ہی مرزا رحمت کا “اوپر والا” بدل کیسے گیا؟ یہ کون سا اوپر والا تھا کہ جس کے حکم پر مبشر تھراج نامی 18 سالہ نوجوان پر 4 کلو چرس ڈال کر 9 سی کا مقدمہ درج کرکے اس کی زندگی برباد کر دی۔ یہ مرزا رحمت کا “اوپر والا” انہیں صرف ظلم کا ہی کیوں حکم دیتا تھا۔ نہیں حضور نہیں۔ ہم اپنے اندر کی خباثت کو اوپر والے کا حکم نہیں کہہ سکتے۔

کیا ڈاکٹر اختر کالرو کو اوپر سے حکم تھا کہ اپنی “رعایا” پر ظلم ڈھائے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے لینے آنے والی غریب عورت پر تھپیڑوں کی بارش کر دے۔ اپنے ہی کولیگز کے خلاف خواتین کو “میدان” میں اتارے۔ تعلیمی ادارے کو ٹارچر سیل بنائے۔ دن کا آغاز گالیوں اور اختتام عملے کی توہین کے ساتھ کرے۔ کیا یہ بھی اوپر والے کا حکم تھا کہ ایک بدمست ڈپٹی کمشنر محض ایک درخواست سے ناراض ہو کر کسی بے گناہ شہری کو 3 ماہ کیلئے حراست میں رکھنے کا غیر قانونی اور ظالمانہ حکم جاری کر دے۔24 گھنٹوں میں 6 مرتبہ پولیس کے ڈالے اس کے گھر بھجوائے، معصوم بچیوں کو ہراسان کرائے۔ مجھے یہ سب سن کی دکھ ہوا مگر پھر یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ انہیں اس ظلم کا حکم بھی کسی اوپر والے نے دیا ہو گا یا پھر شائید اللہ نے انہیں بیٹی کی رحمت کے قابل نہ سمجھ کر اس رحمت ہی سے محروم رکھا ہو گا۔

نہیں حضور نہیں۔ یہ ہم اپنی خواہشات اور خباثتوں کو اوپر والے کا حکم کہہ کر راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے۔ مجھے تو یقین ہے کہ کسی بھی دن بلاوے پر مجھے حقیقی اوپر والے کے پاس جانا ہے مگر شاید جن کے درجنوں عارضی اور بونے ٹھگنے اوپر والے ہیں ان کو حقیقی اوپر والے پر کمزور اور ڈھیلا سا یقین ہو ( جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں