ملتان (سٹاف رپورٹر) لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ نے خواتین یونیورسٹی ملتان کی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو توہینِ عدالت کے ایک اہم کیس میں طلب کر لیا۔ سماعت کے آغاز پر مدعیان کے وکیل شیخ جمشید حیات نے اپنے دلائل پیش کرنا شروع کیے تو اس دوران مدعا علیہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے انہیں درمیان میں ٹوکتے ہوئے جج صاحب سے براہِ راست بات کرنے کی کوشش کی، جسے عدالت میں موجود قانونی ماہرین نے عدالتی آداب اور کارروائی میں مداخلت قرار دیا۔ اس غیر معمولی مداخلت پر مدعیان کے وکیل شیخ جمشید حیات برہم ہو گئے اور انہوں نے ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے وکیل کی جانب واپس جائیں۔ بعد ازاں عدالت نے خواتین یونیورسٹی ملتان کے وکیل سے استفسار کیا کہ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود گزشتہ پانچ برس میں آٹھ ملازمین کو ایڈوانس انکریمنٹس کیوں ادا نہیں کیے گئے۔ اس پر یونیورسٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ خود عدالت میں موجود ہیں اور اس معاملے پر وہی بہتر جواب دے سکتی ہیں۔ جواباً ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے عدالت کے سامنے ایک حکم نامہ پیش کیا جس میں مبینہ طور پر 100 خواتین ملازمین کے ایڈوانس انکریمنٹس کاٹنے کا فیصلہ دکھایا گیا۔ اس اقدام پر معزز جج صاحب سخت برہم ہو گئے اور ریمارکس دیئے کہ عدالت نے احکامات کی تعمیل کے بارے میں پوچھا تھا، نہ کہ مزید کٹوتیوں کے بارے میں۔ عدالت نے واضح کیا کہ جن 100 ملازمین نے ایڈوانس انکریمنٹس پہلے ہی انجوائے کر لیے تھے، ان سے کٹوتی کرنا سراسر زیادتی اور ناانصافی کے مترادف ہے۔ سماعت کے دوران ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ اقدام حکومتی حکم کے تحت کیا گیا، تاہم مدعیان کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس حوالے سے حکومت کا کوئی تحریری حکم موجود نہیں بلکہ یہ محض ایک آڈٹ پیرا تھا۔ مدعیان کے وکیل شیخ جمشید حیات نے مزید دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ ایکٹنگ چارج پر فائز ہیں اور قانون کے مطابق وہ کسی بھی قسم کے بڑے مالیاتی فیصلے کرنے کی مجاز نہیں۔ وکیل کے مطابق جہاں ملازمین کو مالی فائدہ دینے کی بات آتی ہے تو خود کو ایکٹنگ وائس چانسلر قرار دیا جاتا ہے جبکہ کٹوتیوں کے وقت اختیارات سے تجاوز کیا جاتا ہے۔ مدعیان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ سے پوچھا جائے کہ انہوں نے ایمرجنسی پاورز کن اختیارات کے تحت، کیوں اور کیسے استعمال کیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے اپنے وکیل کے ذریعے طویل تاریخ (لمبی پیشی) کی درخواست کی۔ درخواست کے پس منظر میں عدالت کو بتایا گیا کہ خواتین یونیورسٹی ملتان میں باقاعدہ وائس چانسلر کی تعیناتی کا عمل آخری مراحل میں ہے اور ڈاکٹر کلثوم پراچہ مبینہ طور پر ریگولر وائس چانسلر کے انٹرویو کے لیے شارٹ لسٹ بھی نہیں ہو سکیں۔ مدعیان کے مطابق ان پر تاریخِ پیدائش میں مبینہ جعلسازی کے ذریعے ملازمت کی مدت بڑھانے، جعلی تجربہ سرٹیفکیٹ جمع کروانے اور دیگر سنگین الزامات عائد ہیںتاہم ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب اور چانسلر آفس اس معاملے پر تاحال خاموش ہیں۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کی مزید سماعت کے لیے تاریخ مقرر کرتے ہوئے واضح کیا کہ عدالتی احکامات کی عدم تعمیل اور مالی معاملات میں قانون سے انحراف کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔







