آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

انٹرنیٹ کی سست رفتاری، ناقص انفراسٹرکچر اور ریاستی بے حسی

پاکستان میں ایک بار پھر انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی اور مسلسل تعطل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کس قدر کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔ انٹرنیٹ صرف ایک سہولت نہیں بلکہ آج کے دور میں معیشت، تعلیم، طب، سیاست اور حتیٰ کہ روزمرہ زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ ایسے میں انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور بار بار کے بریک ڈاؤن نہ صرف صارفین کو اذیت میں مبتلا کرتے ہیں بلکہ ملکی معیشت، نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل اور ڈیجیٹل معیشت کے خواب کو بھی سخت نقصان پہنچاتے ہیں۔
نیشنل اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی میں وفاقی سیکریٹری زریر ہاشم نے تسلیم کیا کہ یمن کے قریب چار سے پانچ زیرِ آب کیبلز کو نقصان پہنچا ہے جس کے باعث پاکستان میں انٹرنیٹ سروس بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مرمت میں چار سے پانچ ہفتے لگ سکتے ہیں اور اس کے لیے خصوصی بحری جہاز درکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب زیرِ آب کیبلز کو نقصان ہوا ہو۔ ہر چند ماہ بعد یہی مسئلہ سامنے آتا ہے، لیکن ریاست اور متعلقہ ادارے کبھی بھی کوئی پائیدار حکمتِ عملی اختیار نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پورے ملک کو بار بار اس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کے صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ فری لانسرز سے لے کر آئی ٹی ایکسپورٹ انڈسٹری تک، سب کا دارومدار انٹرنیٹ کی تیز اور مستقل سروس پر ہے۔ جب یہ سروس تعطل کا شکار ہوتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان ان نوجوانوں کو ہوتا ہے جو اپنی روزی روٹی آن لائن پلیٹ فارمز پر انحصار کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان فری لانسنگ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، لیکن جب ہمارے انٹرنیٹ کا معیار اور استحکام بار بار سوالیہ نشان بنے تو غیر ملکی کلائنٹس اور سرمایہ کار ہم پر کیسے بھروسہ کریں گے؟
مزید یہ کہ ریاست بار بار عوام کو یہ کہہ کر بہلاتی ہے کہ نئے کیبلز جلد آ رہے ہیں۔ سیکریٹری آئی ٹی نے بھی کہا کہ اگلے 12 سے 18 ماہ میں تین مزید کیبلز پاکستان سے منسلک ہوں گی، لیکن سوال یہ ہے کہ جب تک وہ کیبلز نہیں آتیں تب تک عوام اور انٹرنیٹ پر چلنے والی معیشت کس حال میں رہیں گے؟ اور کیا یہ نئے منصوبے بھی اسی انداز میں التوا اور غیر شفافیت کا شکار ہوں گے جیسے ماضی کے انفراسٹرکچر منصوبے ہوئے؟
یہ مسئلہ صرف ٹیکنیکل نہیں بلکہ گورننس کا بھی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے ایسے وقت میں انٹرنیٹ کے متبادل ذرائع، سیٹلائٹ انٹرنیٹ، فائبر آپٹک بیک اپ اور ریجنل کنیکٹیویٹی کے منصوبے بنا لیے ہیں تاکہ ایک نیٹ ورک متاثر ہو تو دوسرا سنبھال لے۔ لیکن پاکستان میں ہر بار جب ایک یا دو کیبل متاثر ہوتی ہیں تو پورا ملک مفلوج ہو جاتا ہے۔ یہ ہماری ریاستی بے حسی اور منصوبہ بندی کی کمزوری کی واضح دلیل ہے۔
اس کے علاوہ، پی ٹی سی ایل اور دیگر سروس فراہم کنندگان کا رویہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہر بار یہ ادارے صارفین کو تاخیر سے اطلاع دیتے ہیں، سروس متاثر ہونے کے باوجود پورے چارجز وصول کرتے ہیں اور کوئی متبادل یا معاوضے کی پالیسی موجود نہیں۔ صارفین کے حقوق کی حفاظت کرنے والا کوئی مؤثر ریگولیٹری میکنزم نظر نہیں آتا۔ پی ٹی اے کی خاموشی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
یہ صورتحال صرف صارفین کو ہی نہیں بلکہ پورے ڈیجیٹل پاکستان کے وژن کو بھی دھچکا پہنچاتی ہے۔ حکومت ایک طرف آئی ٹی ایکسپورٹس بڑھانے اور نوجوانوں کو ڈیجیٹل معیشت میں شامل کرنے کے دعوے کرتی ہے، لیکن دوسری طرف بنیادی انفراسٹرکچر کی کمزوری اور بار بار کے انٹرنیٹ تعطل اس وژن کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ اگر ریاست سنجیدہ ہے تو اسے فوری طور پر ایک پائیدار حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔ اس میں نئے کیبلز کے ساتھ ساتھ متبادل ذرائع کی دستیابی، نیٹ ورک مینجمنٹ کی شفافیت، اور صارفین کو بروقت اور درست معلومات فراہم کرنے کے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔
یہ بھی وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کو محض تجارتی سہولت کے بجائے ایک بنیادی حق تصور کیا جائے۔ جب تک اسے قومی سلامتی اور ترقی کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے گا، اس وقت تک ہماری پالیسیاں ردِ عمل پر مبنی رہیں گی اور عوام بار بار اسی اذیت کا شکار ہوتے رہیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس بار اس بحران کو ایک موقع سمجھ کر اپنے ڈیجیٹل ڈھانچے کو جدید بنانے کی طرف بڑھ سکے گا، یا پھر ہمیشہ کی طرح چند ہفتوں بعد مسئلہ وقتی طور پر حل ہو گا اور اگلے دھماکے یا بارش کا انتظار کیا جائے گا؟ یہ فیصلہ ریاستی سنجیدگی اور ترجیحات پر منحصر ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں