آج کی تاریخ

تازہ ترین

انسانی حقوق کی پامالی — ریاستی بے حسی کا چہرہ

بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، لیکن بدقسمتی سے یہی صوبہ انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کی حالیہ حقائق پر مبنی رپورٹ نہ صرف ہوشربا ہے بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک تلخ آئینہ بھی ہے۔ رپورٹ میں جن مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے، وہ عرصۂ دراز سے بلوچستان کے عوام کی طرف سے اٹھائے جا رہے ہیں، لیکن انہیں سننے، سمجھنے اور حل کرنے کے بجائے نظرانداز کیا گیا — یا بدتر، ریاستی طاقت سے دبایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور متاثرہ خاندانوں کو ہراساں کرنا ایک دانستہ پالیسی کے تحت ہو رہا ہے۔ نہ صرف یہ عمل غیر آئینی اور غیر انسانی ہے، بلکہ یہ آئین پاکستان کے بنیادی حقوق کے باب کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ ان مظالم کے خلاف سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود، ریاستی ادارے مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں یا محض رسمی بیانات تک محدود ہیں۔ یہ روش اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ریاست نہ صرف اپنے شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو رہی ہے بلکہ خود ہی ان کے خلاف طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔
صورتحال اس وقت مزید تشویشناک ہو گئی جب بلوچستان میں انسداد دہشت گردی (ترمیمی) ایکٹ 2025 نافذ کیا گیا، جس کے تحت کسی بھی فرد کو بغیر فردِ جرم کے 90 دن تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ قانون ایک طرف بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، تو دوسری طرف عوام میں پائے جانے والے پہلے سے موجود خوف اور بداعتمادی کو مزید گہرا کر رہا ہے۔
اس سب کے دوران، جو طلبا، صحافی، اور سماجی کارکن اپنے آئینی حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرتے ہیں، انہیں ریاستی ادارے “قومی سلامتی کے لیے خطرہ” قرار دے کر دبا دیتے ہیں۔ جبکہ اصل خطرہ — یعنی مسلح گروہ اور شدت پسند تنظیمیں — کھلے عام کارروائیاں کر رہی ہیں اور ان پر گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ طرزِ عمل نہ صرف غیر مؤثر ہے بلکہ متنازع بھی۔ اگر ریاست اپنے ہی شہریوں کو دشمن سمجھنے لگے تو پھر قومی یکجہتی اور سیاسی استحکام صرف نعرے بن کر رہ جاتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کی آواز کو دبانے کے بجائے اسے سننے، سمجھنے اور احترام دینے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کی مشکلات صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں تک محدود نہیں، بلکہ سیاسی عمل کی کمزوری، بداعتمادی اور شفافیت کے فقدان نے اس بحران کو اور زیادہ پیچیدہ کر دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ انتخابات، جو جمہوریت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں، بلوچستان میں محض ایک رسمی عمل بن کر رہ گئے ہیں۔ قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں کو شعوری طور پر انتخابی عمل سے باہر رکھا جاتا ہے — یا تو انہیں قانونی پیچیدگیوں میں الجھا دیا جاتا ہے، یا براہ راست دھاندلی کے ذریعے شکست سے دوچار کیا جاتا ہے۔
یہ صورتحال جمہوری عمل کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ اگر عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حقیقی اختیار نہ دیا جائے تو ریاست اور عوام کے درمیان رشتہ کمزور پڑتا ہے۔ یہی کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے — عوام اپنی نمائندگی سے محروم ہیں، اور جو بھی مزاحمت کی کوشش کرتا ہے، اسے یا تو گرفتار کر لیا جاتا ہے، یا خاموش کر دیا جاتا ہے۔
طلبا تنظیمیں، جو کسی بھی معاشرے کا علمی اور نظریاتی مستقبل ہوتی ہیں، انہیں ریاستی جبر کا خاص نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادارے بھی اب محفوظ مقامات نہیں رہے۔ طالبعلموں کو صرف سوال اٹھانے پر غائب کر دینا یا جیل میں ڈال دینا، ریاستی خوف کا اظہار ہے نہ کہ قوت کا۔ اس ظلم کے نتیجے میں نوجوان نسل مایوسی، اجنبیت اور آخر کار شدت پسندی کی طرف مائل ہوتی ہے — جو ملک کے لیے ایک اور سنگین خطرہ ہے۔
موجودہ حالات میں بلوچستان کا سیاسی منظرنامہ ایک ایسا خلا بن چکا ہے جہاں منتخب قیادت نہیں، بلکہ غیر منتخب اور غیر ذمہ دار قوتیں فیصلے کر رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں عوام کی امنگیں، ان کی آواز، اور ان کے مسائل فیصلہ سازوں کی ترجیح ہی نہیں رہتے۔
یہ صورتحال ریاستی ناکامی کی واضح مثال ہے۔ جمہوریت کی روح — یعنی عوام کی شراکت اور نمائندگی — کو بلوچستان میں منظم طور پر کچلا جا رہا ہے، اور جب تک اس عمل کو نہ روکا گیا، عوام اور ریاست کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوتی جائے گی۔
بلوچستان، جسے قدرت نے بے پناہ معدنی دولت سے نوازا ہے، آج بھی پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ کیوں ہے؟ اس کا جواب HRCP کی رپورٹ بخوبی فراہم کرتی ہے: بلوچستان کی دولت تو نکالی جا رہی ہے، لیکن وہ دولت بلوچستان کے عوام تک نہیں پہنچتی۔ سونا ہو یا تانبہ، تیل ہو یا گیس، وسائل نکالنے والی کمپنیاں اور ادارے اربوں روپے کما رہے ہیں، لیکن جن علاقوں سے یہ دولت نکلتی ہے، وہاں کے باسیوں کے پاس نہ صاف پانی ہے، نہ صحت کی سہولیات، نہ معیاری تعلیم، اور نہ روزگار۔
یہ ایک بدترین اقتصادی استحصال کی صورت ہے۔ مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں سے محروم کر دیا جاتا ہے، ان کے وسائل پر قبضہ کر لیا جاتا ہے، اور بدلے میں انہیں صرف مایوسی، محرومی اور عسکری چوکیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر لوگ سوال اٹھاتے ہیں، تو انہیں “ملک دشمن” قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ طرز عمل نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ خطرناک بھی، کیونکہ جب معاشی انصاف نہیں ملتا تو لوگ ریاست پر اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔رپورٹ اس بات کی بھی نشان دہی کرتی ہے کہ بلوچستان کی منتخب اسمبلیاں، جنہیں عوام کی نمائندہ ہونا چاہیے، ان کا اختیار اصل میں کچھ متنازع سرمایہ کاری بورڈز اور نادیدہ قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر عوامی نمائندے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں، تو پھر جمہوریت کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟
یہ سب کچھ ایک ایسے ماحول کو جنم دیتا ہے جو بغاوت، ناراضگی، اور ردِ عمل کے لیے سازگار ہے۔ اگر ریاست واقعی بلوچستان میں امن چاہتی ہے، تو اسے سب سے پہلے اقتصادی انصاف کو یقینی بنانا ہوگا۔ وسائل کی لوٹ مار بند ہونی چاہیے، مقامی افراد کو روزگار، تعلیم، اور صحت کی سہولیات دی جانی چاہئیں، اور سب سے بڑھ کر، ان کے مسائل کے حل میں انہیں برابر کا شریک بنایا جانا چاہیے۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال، جس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، جمہوریت کا گلا گھونٹنا، اور معاشی استحصال شامل ہیں، ایک ایسا بحران بن چکی ہے جس کا حل صرف بندوق، فوجی آپریشن یا قوانین کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس کے لیے ریاست کو ایک واضح، شفاف، اور سنجیدہ اصلاحاتی منصوبہ اپنانا ہوگا۔جبری گمشدگیوں کا خاتمہ، سیاسی آزادیوں کی بحالی، غیر منتخب قوتوں کی گرفت کا کم ہونا، اور معاشی خودمختاری — یہ سب ایسے اقدامات ہیں جو بلوچستان میں دیرپا امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ریاست ان کی ہے، اور وہ اس کا حصہ ہیں — نہ کہ محض مشتبہ شہری یا دشمن۔
بلوچستان پاکستان کا دل ہے — اور اگر دل زخمی ہو، تو پورا جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے دل کو سنبھالیں، اسے سنیں، اسے جیتیں — اور صرف طاقت سے نہیں، انصاف سے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں