انسانی حقوق، آئینی زوال اور غیر جوابدہ اقتدار کا بڑھتا ہوا سایہ

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پہلے ہی شدید بحران کا شکار تھی، مگر ستائیسویں آئینی ترمیم نے اس بحران کو ایک اور خطرناک موڑ پر پہنچا دیا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سالانہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والی بیانئے میں جو خدشات ظاہر کیے گئے ہیں، وہ نہ صرف بروقت ہیں بلکہ اُن سچائیوں کا اظہار بھی ہیں جنہیں ریاست اور حکومتی حلقے مسلسل نظرانداز کرتے آئے ہیں۔ یہ ترمیم محض ایک آئینی تبدیلی نہیں بلکہ ریاستی طاقت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کرنے کی کھلی کوشش ہے، جس سے شہری آزادیوں، جمہوری ڈھانچے اور بنیادی حقوق کے مستقبل پر گہرے سائے پڑ چکے ہیں۔ستائیسویں آئینی ترمیم ۱۳ نومبر کو محض چند دنوں کی بحث، احتجاج، ہنگامے اور عجلت میں منظور کی گئی—اسی روز صدرِ مملکت نے منظوری بھی دے دی۔ اس ترمیم کے ذریعے نہ صرف عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، بلکہ فوجی کمان کے نظام میں بھی ایسے اختیارات شامل کیے گئے جو پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں۔ سب سے خطرناک پہلو وہ ’’تاحیات استثنا‘‘ ہے جو صدرِ مملکت اور تین اعلیٰ فوجی عہدیداروں—فیلڈ مارشل، ایڈمرل آف دی فلیٹ اور مارشل آف دی ایئر فورس—کو دے دیا گیا ہے۔ یعنی نہ گرفتاری، نہ مقدمہ، نہ کوئی احتساب۔ یہ آئینی شق پاکستان کی ریاستی تاریخ میں طاقت کی ایسی مرکزیت قائم کرتی ہے جو نہ صرف جمہوریت بلکہ پارلیمانی بالادستی پر بھی کاری ضرب ہے۔انسانی حقوق کمیشن نے درست نشاندہی کی کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہے، ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کے توازن کو بگاڑتی ہے، اور عوام کے اعتماد کو مزید مجروح کرتی ہے۔ ایسے وقت میں جب ریاستی اداروں پر اعتماد پہلے ہی کمزور ہے، اس طرح کی قانون سازی عوامی بے چینی میں اضافہ کرے گی۔ طاقت کے چند مراکز کو غیر جوابدہ بنا دینا دراصل آئین کی روح سے غداری ہے۔ یہ اقدام ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے پورے تصور کو بے معنی بنا دیتا ہے، اور جمہوری اداروں کو تابع بنا کر حقیقی سیاسی عمل کو کمزور کرتا ہے۔انسانی حقوق کمیشن نے مقامی حکومتوں کی بااختیاری پر بھی زور دیا، کیونکہ جمہوریت کا اصل جوہر نچلی ترین سطح تک عوامی شرکت سے وابستہ ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے صوبائی حکومتوں نے کبھی ضلعی یا بلدیاتی اداروں کو حقیقی اختیارات دینے کا سنجیدہ اقدام نہیں کیا۔ جہاں کہیں بلدیاتی انتخابات ہوئے بھی، وہاں وسائل اور اختیارات دوبارہ صوبائی بیوروکریسی کو منتقل کر دیے گئے۔ اس طرح کی مرکزیت نہ صرف آئینی روح کے خلاف ہے بلکہ ملک میں عوامی خدمت اور شفافیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں عسکریت پسندی کے خلاف اقدامات بھی انسانی حقوق کی قیمت پر نہیں کیے جا سکتے۔ گزشتہ چند برسوں میں ان دونوں صوبوں میں ماورائے عدالت ہلاکتیں، جبری گمشدگیاں اور حراستی مراکز کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے واضح کیا کہ ایسی کارروائیاں بنیادی آزادیوں اور اختلافِ رائے کے حق کو سلب کرتی ہیں۔ بلوچستان میں بار بار انٹرنیٹ بند کرنا نہ صرف تعلیمی سرگرمیوں اور روزگار کو متاثر کرتا ہے بلکہ شہریوں کے سیاسی حقوق کو بھی محدود کرتا ہے۔ ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امن و امان قائم کرنے کا طریقہ حقوق سلب کرنا نہیں، بلکہ شفافیت، اعتماد اور انصاف پر مبنی حکمتِ عملی ہے۔انسانی حقوق کمیشن نے جبری گمشدگیوں کے خاتمے، شفاف تحقیقات اور حراستی مراکز کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبات نئے نہیں—پاکستان میں ہزاروں خاندانوں نے دہائیوں تک اپنے پیاروں کی تلاش کے لیے عدالتوں، کمیشنوں اور پریس کلبوں کے باہر احتجاج کیا ہے۔ لیکن ریاستی ادارے بامعنی اقدام سے گریز کرتے رہے ہیں۔ ’’چوتھے شیڈول‘‘ کا غلط استعمال بھی ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کے ذریعے اختلافِ رائے رکھنے والوں کو دہشت گردی کے مشتبہ افراد کے طور پر فہرستوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے اقدامات سیاسی اختلاف کو جرم میں بدل دیتے ہیں اور شہری آزادیوں پر کاری ضرب ہیں۔انسانی حقوق کمیشن نے افغان مہاجرین کی جبری واپسی پر بھی شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ ہزاروں افغان شہری، جنہیں حقیقی خطرات، ظلم اور موت کا سامنا ہے، پاکستان میں حراست، گرفتاری اور بے دخلی کا شکار ہو رہے ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ حکومت کو ان جبری واپسیاں فوری طور پر روکنی چاہئیں، کیونکہ یہ نہ صرف انسانی معیار کے خلاف ہیں بلکہ عالمی قوانین کے بھی منافی ہیں۔ پاکستان نے ابھی تک اقوامِ متحدہ کا مہاجر کنونشن بھی منظور نہیں کیا، جس کے باعث پاکستان کا قانونی ڈھانچہ اس طرح کی صورتحال میں غیر واضح رہتا ہے۔حراستی تشدد، پولیس تشدد، اور ماورائے عدالت قتل، جن میں بعض اوقات انسدادِ دہشت گردی ادارے بھی ملوث ہوتے ہیں، عوام کے بنیادی حقِ حیات کے خلاف سنگین جرائم ہیں۔ ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ایک جمہوری ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ انہی ادارہ جاتی زیادتیوں نے عوام میں خوف، بے اعتمادی اور ریاست سے دوری پیدا کی ہے۔مذہبی اقلیتوں کے خلاف پرتشدد حملے، عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور قبروں کی توڑ پھوڑ ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ایسے واقعات ریاستی کمزوری نہیں بلکہ ریاستی ناکامی کی علامت ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، نفرت انگیزی روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی کرے، اور جبری تبدیلیِ مذہب روکنے کے لیے جامع قانون نافذ کرے۔ یہ مطالبات نہ صرف آئینی ذمہ داری ہیں بلکہ انسانی شرافت کا بنیادی تقاضا بھی ہیں۔کمیشن نے بچپن کی شادیوں کی روک تھام کے لیے بھی یکساں قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ کم عمری کی شادی لڑکیوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کو تباہ کرتی ہے، اور اسے موروثی سماجی رسم کے نام پر جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اسی طرح جنسی ہراسانی کے خلاف قوانین کے مؤثر نفاذ، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں محفوظ ماحول کی فراہمی بھی ریاستی ذمہ داری ہے۔انسانی حقوق کمیشن نے موسمیاتی آفات سے بے گھر ہونے والوں پر بھی روشنی ڈالی—خاص طور پر گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب میں حالیہ سیلابوں سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد۔ ان لوگوں کے لیے محفوظ رہائش، علاج، خوراک اور روزگار کی فراہمی ریاست پر لازم ہے۔ اسی طرح پاکستان اور بھارت کے گرفتار ماہی گیروں کے انسانی سلوک اور جلد از جلد وطن واپسی کا معاملہ بھی برسوں سے التواء کا شکار ہے۔مجموعی طور پر انسانی حقوق کمیشن کا بیان صرف ایک رپورٹ نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے—ایک ایسا انتباہ جسے سنجیدگی سے لینا حکومت، ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں سب کی ذمہ داری ہے۔ آئینی ترمیم سے لے کر جبری گمشدگیوں، مہاجرین کی واپسی، اقلیتوں کے تحفظ، خواتین و بچوں کے حقوق اور موسمیاتی اثرات تک ہر مسئلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کے بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔انسانی حقوق کمیشن پاکستان کا 27ویں آئینی ترمیم کی کچھ شقوں پر تحفظات کا اظہار ایسا نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کیا جائے۔ اس سے پہلے پاکستان کی وکلاء کمیونٹی کی بھاری تعداد ، قریب قریب تمام اپوزیشن سیاسی جماعتیں اس ترمیم کی کی کئی ایک شقوں پر اپنے تحفظ کا اظہار کھلے عام کرچکی ہیں ۔ ہم پارلیمنٹ کی قانون سازی اور آئین میں ترمیم کے حق کو سب سے فائق سمجھتے ہیں جس کا ہم نے اس موضوع پر لکھے اداریوں میں بارہا کیا ہے لیکن 27ویں ترمیم پاس کرنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس میں شفافیت کی کمی تھی ۔ ایک تو موجودہ برسراقتدار حکومتی اتحاد نے دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے جس سے اس عمل میں شفافیت نہیں رہی ۔ یہ وقت آئینی قدروں کی بحالی، انسانی حقوق کے احترام، اور ریاستی اختیارات کی شفافیت کا ہے۔ اگر آج بھی ریاست نے اپنی سمت درست نہ کی تو وہ بحران جو آج حصوں میں نظر آ رہا ہے، کل ایک ہمہ گیر قومی بحران میں بدل جائے گا—جس کے سامنے محض آئینی شقیں یا حکومتی بیانات کسی کام نہیں آئیں گے۔ پاکستان کے مستقبل کا دارومدار اسی بات پر ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری اور جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے کیا عملی اقدامات کرتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں