پاکستان کی سیاست ایک بار پھر اس موڑ پر کھڑی ہے جہاں ظاہری فتح، اندرونی کمزوریوں اور جمہوری ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ کا عکاس بن کر سامنے آ رہی ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں حکمراں جماعت کی واضح کامیابی، اور ہری پور میں علامتی اہمیت کی حامل فتح، بظاہر ایک مضبوط سیاسی واپسی کا اشارہ دیتی ہے، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور پریشان کن ہے۔ یہ کامیابی نہ تو بڑے پیمانے پر عوامی تائید کا ثبوت ہے اور نہ ہی ترقیاتی بیانیے کی فتح۔ اس کے برعکس، یہ ایک ایسے سیاسی ماحول کی پیداوار ہے جہاں اصل مقابلہ موجود ہی نہیں، اور جہاں انتخابی عمل خود سوالات گھیرے کھڑا ہے۔
یہ بات سب پر واضح تھی کہ پنجاب میں جہاں حکمراں جماعت گزشتہ چار دہائیوں سے سیاسی برتری قائم رکھے ہوئے ہے، وہاں بڑے مخالف کے عدم موجود ہونے سے نتیجہ ایک طرح سے پہلے ہی لکھا جا چکا تھا۔ غیر متحرک انتخابی ماحول، سیاسی بے دلی اور اپوزیشن کے عدم شرکت نے اس مقابلے کو رسمی کاروائی بنا دیا۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس یقینی کامیابی کے باوجود بھی انتخابی مشینری کو مبینہ طور پر استعمال کیا گیا تاکہ نتائج کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکے اور ’’مقبولیت کی بحالی‘‘ کا ایک مضبوط سیاسی تاثر قائم کیا جا سکے۔ اصل جیت شاید حقیقی تھی، لیکن اسے جس طرح پیک کیا گیا، اس نے اس کی معنویت کو کمزور کر دیا۔
یہ وہ سیاسی حکمتِ عملی ہے جو وقتی فائدے تو دے سکتی ہے، مگر طویل مدت میں جمہوریت کا دم گھونٹ دیتی ہے۔ جہاں کسی جماعت کو اس سطح تک پہنچا دیا جائے کہ اسے اپنے آباؤ اجداد کی سیاسی سرزمین میں بھی اعتماد کے لیے ریاستی معاونت درکار ہو، وہاں جمہوریت کمزور پڑنے لگتی ہے، سیاسی عمل کھوکھلا ہو جاتا ہے اور عوامی اختیار محض کاغذی دکھاوے تک محدود رہ جاتا ہے۔
دوسری جانب، مخالف جماعت نے خود بھی جمہوری عمل کے ساتھ زیادتی کی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اس جماعت کے کارکنوں اور رہنماؤں نے ریاستی جبر، مقدمات، گرفتاریوں اور 2024 کے انتخابات میں مبینہ محرومی کا سامنا کیا، لیکن انتخابی عمل سے یکسر لاتعلقی کے فیصلے نے سیاسی نقصان مزید بڑھا دیا۔ یہ نشستیں جنہیں کبھی بھرپور انتخابی مقابلے سے حاصل کیا جا سکتا تھا، اب بغیر کسی مزاحمت کے سیاسی حریف کی جھولی میں جا گریں۔
یہ رویہ ملکی سیاست کو دو طرح سے متاثر کر گیا: اول، عوام کے سامنے ایک ایسی تصویر آئی جس میں سیاسی میدان یکطرفہ دکھائی دیتا ہے؛ دوم، اس جماعت نے اپنے لیے ایک ایسے سیاسی خلا کو مزید گہرا ہونے دیا جسے پُر کرنے میں اب شاید زیادہ وقت لگے۔ انتخابی بائیکاٹ اگرچہ وقتی احتجاج کا ایک ذریعہ تھا، لیکن اس نے حکمران جماعت کو پارلیمان میں نہ صرف عددی برتری دی بلکہ آئینی و قانونی تبدیلیوں کے لیے کسی اور پر انحصار کی ضرورت بھی ختم کر دی۔
یہی وجہ ہے کہ ضمنی انتخابات کا دوسرا پہلو بھی سنگین ہے: شراکت دار جماعت کا سیاسی وجود مزید چھوٹا ہوگیا۔ جنوبی پنجاب میں حمایت کی واپسی کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں، اور صرف ایک نشست ملی وہ بھی اس لیے کہ اسے سیاسی مصلحت کے تحت دیا گیا۔ دوسری نشستوں پر جگہ دینے سے انکار اس بات کی علامت ہے کہ حکمران جماعت نہ صرف اپنی اصل مخالف جماعت کو محدود کرنا چاہتی ہے بلکہ اپنی اتحادی جماعت کو بھی صوبے میں کنارے رکھنا چاہتی ہے۔
یہ روش جہاں سیاسی مرکزیت کو مضبوط کرتی ہے، وہاں جمہوریت کی طبعی ضرورت—یعنی کئی جماعتوں پر مشتمل طاقت کا توازن—کو توڑ دیتی ہے۔ یہ وہی غلطی ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بارہا دہرائی گئی: طاقت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے، اور صوبائی و مقامی سیاسی آوازیں بتدریج کمزور ہو جاتی ہیں۔
درحقیقت اس پورے عمل میں سب سے بڑا نقصان جمہوریت کو پہنچا ہے۔ جب انتخابات میں حقیقی مقابلہ نہ رہے، جب مخالف جماعتیں میدان چھوڑ دیں، جب عوام کو معلوم ہو کہ نتیجہ پہلے ہی طے ہے، جب ریاستی مشینری کی مداخلت کی بازگشت سنائی دے، اور جب سیاسی عمل چند چہروں کے گرد گھومنے لگے—تو پھر جمہوریت اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔
جمہوری معاشرے کی بنیاد ایک ایسے سیاسی عمل پر ہوتی ہے جس میں شفافیت، منصفانہ مقابلہ اور عوامی اعتماد شامل ہوں۔ مگر موجودہ منظرنامہ اس کے الٹ سمت میں بڑھ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے سائے سے آگے نہیں بڑھ رہیں، ریاستی طاقت غیر ضروری طور پر عمل میں مداخلت کر رہی ہے، عوامی رائے کی قوت کم ہوتی جا رہی ہے، اور انتخابی عمل مزید بے جان ہوتا جا رہا ہے۔
اگر یہ رجحان برقرار رہا تو ملکی سیاست مزید سکڑ جائے گی، اختلافِ رائے مزید دب جائے گا، اور جمہوری ادارے مزید کمزور ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حزبِ اختلاف انتخابی میدان میں واپس آئے، سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات پر اتفاق کریں، اور ریاستی ادارے غیر جانب دار کردار ادا کریں۔ بصورتِ دیگر، انتخابات محض ایک رسمی مشق رہ جائیں گے—اور رسمی جمہوریت کبھی اصل جمہوریت نہیں ہو سکتی۔ضمنی انتخابات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مسئلہ محض سیاسی جماعتوں کی شکست و فتح کا نہیں، بلکہ پورے جمہوری نظام کی کمزوری کا ہے۔ اس نظام کو بحال کیے بغیر نہ سیاست مستحکم ہو سکتی ہے، نہ ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں، نہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
یہ وقت خود احتسابی کا ہے—سب کے لیے۔ حکومت کے لیے، اپوزیشن کے لیے، اور ریاستی اداروں کے لیے بھی۔ کیونکہ اگر جمہوریت ہار جائے تو آخر میں کوئی جیتنے والا نہیں رہتا۔







