آج کی تاریخ

جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے

تازہ ترین

امن یا تصادم؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی نہ صرف دونوں ممالک کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ صرف ایک ہفتے کے دوران کم از کم تین بڑے سرحد پار تصادم یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ صورت حال اگر فوری طور پر سنبھالی نہ گئی تو یہ معمولی جھڑپیں ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔ چمن، کرم، اور دیگر سرحدی علاقوں میں جھڑپیں، توپوں کی گھن گرج، اور فضائی حملے ایک ایسے مستقبل کی تصویر کشی کر رہے ہیں جس سے ہر ذی شعور شخص خوف زدہ ہونا چاہے گا۔
اگرچہ پاکستان اور افغان طالبان کے مابین ایک وقتی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا، اور وزیراعظم پاکستان نے اشارہ دیا کہ اگر کابل مخصوص شرائط پوری کرے تو بات چیت کے لیے دروازے کھلے ہیں، تاہم اس سے پہلے جو خونریز تصادم ہوئے، وہ کسی بھی طرح معمولی نہیں تھے۔ افغان طالبان کی طرف سے چمن بارڈر پر حملے کے بعد پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے قندھار میں اُن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جنہیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد استعمال کرتے تھے۔ اس کارروائی کے بعد کابل میں بھی دھماکوں کی اطلاعات آئیں، جو اس بات کا اشارہ تھے کہ پاکستان کی جوابی کارروائی محض بیانات تک محدود نہیں رہی۔
ہفتے کے آغاز میں بھی کرم میں اسی نوعیت کی جھڑپ ہوئی تھی۔ طالبان کی جانب سے پاکستانی چوکیوں پر حملے کے بعد ایک بار پھر کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ اس سے قبل بھی کابل میں دھماکوں کی اطلاعات تھیں جن میں بتایا گیا کہ شاید ٹی ٹی پی کے سربراہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ پاکستان نے سرکاری طور پر اس کارروائی کی تصدیق نہیں کی، تاہم قرائن بتاتے ہیں کہ پاکستان اب خاموش تماشائی نہیں بنا رہنا چاہتا۔
یہ تمام واقعات اس وقت ہو رہے ہیں جب افغان طالبان کے وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر موجود تھے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس سفارتی دورے کے دوران ہی پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ بھارت جو کہ بظاہر افغان طالبان کو تسلیم نہیں کرتا، نے اس وفد کا شاندار استقبال کیا۔ یہ وہی بھارت ہے جو چند سال پہلے تک طالبان کو دہشت گرد قرار دیتا تھا اور ان کے خلاف افغان حکومت کو مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا تھا۔ جب طالبان نے دو ہزار اکیس میں کابل پر قبضہ کیا تو نریندر مودی نے اقوام متحدہ میں یہ بیان دیا تھا کہ افغانستان کو دہشت گردی پھیلانے کا مرکز نہیں بننے دیا جائے گا۔ مگر آج جب افغانستان پاکستان مخالف دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے تو بھارت کی زبان پر خاموشی طاری ہے۔
اس تناظر میں پاکستان کو عقل و دانش کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ مشرقی سرحد پہلے ہی گرم ہے، اور بھارت کی جانب سے کسی بھی قسم کی نئی مہم جوئی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر پاکستان مغربی سرحد پر بھی ایک نئی جنگ میں الجھتا ہے، تو سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہو گا، جسے پاکستان کو دو طرفہ دباؤ میں لانے کا سنہری موقع میسر آئے گا۔
اس لیے موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے سب سے دانشمندانہ راستہ یہی ہے کہ وہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ ہم آہنگی کے ذریعے ردعمل مرتب کرے۔ چین جیسے قریبی اتحادی کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب اور قطر، جو اس سے قبل افغانستان میں ثالثی کا کردار ادا کر چکے ہیں، کے ساتھ روابط کو فعال رکھنا ہوگا۔ یہ وہ فورمز ہیں جو پاکستان کے تحفظات کو اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
حال ہی میں ماسکو فارمیٹ مشاورت کے اجلاس میں، جس میں پاکستان اور افغان طالبان کے نمائندگان شریک تھے، واضح طور پر کہا گیا کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ہمسایہ ملک یا اس سے آگے کے علاقوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ اعلامیہ صرف کاغذی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس پر عملدرآمد کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔
یہ حقیقت اب پوری دنیا پر آشکار ہو چکی ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں بالخصوص کالعدم ٹی ٹی پی سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی کو نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں بلکہ انہیں عملی اور تربیتی معاونت بھی دے رہے ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ القاعدہ جیسی تنظیموں کے لیے بھی افغان سرزمین پر تربیتی مراکز موجود ہیں۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان فوری طور پر ایک علاقائی اجلاس کا انعقاد کرے جس میں افغانستان کی حکومت کو تمام شواہد پیش کیے جائیں اور ان سے جواب طلب کیا جائے۔ اگر اس اجلاس میں چین، ایران، روس، ترکی، اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو شامل کیا جائے تو اسے ایک سنجیدہ سفارتی اقدام کے طور پر تسلیم کیا جائے گا اور افغان طالبان پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھے گا۔
مگر اس سب کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی داخلی پالیسیوں پر بھی نظرثانی کرنا ہو گی۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ماضی میں بعض فیصلے جذبات کی بنیاد پر کیے گئے، جن کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذبات کے بجائے حقیقت پسندی، سفارت کاری، اور علاقائی مفادات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
پاکستان کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ افغانستان کے ساتھ دیرپا امن صرف فوجی کارروائیوں سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ہمہ جہت پالیسی، سفارت کاری، اقتصادی تعاون، اور سرحدی انتظام کے جدید اور موثر نظام کی ضرورت ہے۔ سرحد پار سے دہشت گردوں کی دراندازی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات ضرور ہونے چاہئیں، لیکن ساتھ ساتھ ایسے اقدامات بھی کیے جائیں جو دونوں ممالک کے عوام کو قریب لا سکیں۔
یہ درست ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہے۔ اگر ان گروہوں پر قابو نہ پایا گیا تو وسطی ایشیا سے لے کر جنوبی ایشیا تک سب اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ معاملہ صرف دو ممالک کے درمیان تنازعہ نہیں بلکہ ایک علاقائی سلامتی کا مسئلہ ہے جسے مشترکہ حکمت عملی اور تعاون سے حل کرنا ہو گا۔
افغان طالبان کو بھی یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اگر وہ عالمی برادری میں اپنی جگہ چاہتے ہیں، تو انہیں خود کو ایک ذمہ دار حکومت کے طور پر ثابت کرنا ہو گا۔ اپنے ملک کو دہشت گردوں کی جنت بننے سے روکنا ان کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے۔ ورنہ عالمی تنہائی، معاشی بدحالی، اور داخلی انتشار ان کا مقدر بن جائے گا۔
آخر میں، پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کرتے ہوئے جنگ کی آگ میں کودنے سے بچے۔ وہ امن کی راہ پر چلے، مگر کمزوری نہ دکھائے۔ وہ سفارت کاری کرے، مگر قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہ کرے۔ اور وہ علاقائی اتحاد بنائے، مگر اپنی خودمختاری پر آنچ نہ آنے دے۔
امن ایک مشکل راستہ ہے، مگر جنگ اس سے کہیں زیادہ مہنگی اور ہلاکت خیز۔ پاکستان کو دانشمندی کے ساتھ وہ راستہ چننا ہو گا جو نہ صرف قومی مفاد کا محافظ ہو بلکہ خطے میں دیرپا امن کی ضمانت بھی بنے۔ جنگوں کے شور میں عقل کی آواز دب جاتی ہے، مگر یہی وقت ہے کہ ہم اپنی عقل کو آواز دیں۔

جمہوریت یا مرکزیت؟

پنجاب حکومت کی جانب سے مقامی حکومتوں سے متعلق متنازع “پنجاب بلدیاتی حکومت بل2025، کو صوبائی اسمبلی سے جلد بازی میں منظور کرانا نہ صرف جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یعنی مقامی خود اختیاری کے آئینی تصور کی بھی کھلی نفی ہے۔ جس انداز سے اس قانون سازی کو عمل میں لایا گیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مقصد مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی گرفت کو برقرار رکھنا ہے۔
اس نئے قانون کی منظوری ایسے وقت میں دی گئی ہے جب حال ہی میں انتخابی کمیشن نے اعلان کیا کہ دسمبر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات 2022 کے قانون کے تحت کرائے جائیں گے۔ پنجاب حکومت نے اس عمل میں تاخیر کی کوشش کی، جسے انتخابی کمیشن نے مسترد کر دیا۔ اس پس منظر میں، نئی قانون سازی کا مطلب واضح طور پر انتخابات کے شیڈول کو متاثر کرنا اور ایک ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دینا ہے جو سیاسی مداخلت کو سہل بنائے اور منتخب نمائندوں کی جگہ غیر منتخب افسر شاہی کو مزید تقویت دے۔
بل کے اہم نکات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے بڑا مسئلہ آئین کے آرٹیکل 140-الف کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت ہر صوبے کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات منتقل کرے۔ مگر اس قانون کے تحت جو مجوزہ ڈھانچہ ترتیب دیا گیا ہے، وہ مقامی نمائندوں کو علامتی حیثیت تک محدود کر دیتا ہے۔ تمام کلیدی اختیارات بدستور صوبائی حکومت اور اس کے افسران کے ہاتھ میں ہوں گے، جو مقامی سطح پر جمہوریت کے تصور کو مذاق بنا دیتے ہیں۔
ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ نئے قانون کے تحت مقامی حکومتوں کے ابتدائی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں گے، جس کا صاف مطلب ہے کہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو مقامی سطح پر طاقت حاصل کرنے سے روکنے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔ جماعتی سیاست سے ہٹ کر انتخابات کرانا جمہوریت کی روح کے خلاف ہے کیونکہ اس سے نہ صرف عوام کے سیاسی شعور پر ضرب پڑتی ہے بلکہ منتخب نمائندے بھی واضح نظریاتی وابستگی کے بغیر غیر ذمہ دار بن جاتے ہیں۔
اس قانون میں ضلع کی سطح پر مقامی حکومت کے مکمل خاتمے کی تجویز بھی ایک خطرناک رجحان ہے، کیونکہ ضلع کا نظام صوبائی حکومت اور نچلی سطح کے اداروں کے درمیان ایک مؤثر رابطے کا کام دیتا تھا۔ اس کی غیر موجودگی میں بلدیاتی ڈھانچہ نہ صرف غیر متوازن ہو جائے گا بلکہ عملی طور پر افسر شاہی کی گرفت مزید مضبوط ہو جائگی۔
نئے انتخابی طریقہ کار کے مطابق شہری صرف ایک ووٹ ڈال سکیں گے، جبکہ ماضی میں مختلف نشستوں کے لیے متعدد ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی۔ اس تبدیلی سے عوام کی نمائندگی کے دائرے کو محدود کر دیا گیا ہے، جس کا براہ راست اثر مقامی قیادت کی شمولیت پر پڑے گا۔
یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ پنجاب میں 2019 سے مقامی حکومتیں غیر فعال ہیں، اور جو تھوڑا بہت نظام تھا بھی، وہ عدالتوں کے فیصلے کے نتیجے میں وقتی طور پر بحال ہوا تھا۔ اب جو نیا قانون متعارف کرایا گیا ہے، وہ درحقیقت بلدیاتی نظام کی بحالی کے نام پر جمہوری خلاء کو طول دینے کا حربہ محسوس ہوتا ہے۔ منتخب نمائندوں کے بجائے سرکاری افسران کو اختیارات دینا صرف جمہوریت کی نفی ہی نہیں بلکہ مقامی سطح پر عوامی مسائل کے حل میں رکاوٹ بھی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں بنیادی سہولیات تک رسائی محدود ہو، تعلیم، صحت، پانی، صفائی اور دیگر شہری مسائل کے حل کے لیے ایک فعال، بااختیار، اور خود مختار بلدیاتی نظام کا ہونا لازمی ہے۔ بدقسمتی سے صوبائی حکومتیں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو خطرہ سمجھتی ہیں اور ہر ممکن طریقے سے مقامی حکومتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ موجودہ قانون بھی اسی سوچ کا شاخسانہ ہے۔
پنجاب حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ وہ انتظامی بہتری اور شفافیت کے لیے اقدامات کر رہی ہے، مگر جب ان اقدامات کے پیچھے سیاسی مقاصد ہوں اور ان کے نتائج جمہوری اداروں کی کمزوری کی صورت میں نکلیں تو انہیں کسی بھی طور عوامی مفاد کے تحت شمار نہیں کیا جا سکتا۔
قانون سازی کے عمل کے دوران، نہ صرف حزب اختلاف بلکہ حکومتی اراکین نے بھی مسودے پر تحفظات کا اظہار کیا اور ترامیم تجویز کیں۔ مگر ان تمام آراء کو نظر انداز کرتے ہوئے، بل کو زور زبردستی سے منظور کروایا گیا، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ قانون مشاورت، شفافیت، اور جمہوری عمل سے عاری ہے۔ یہ طرز عمل نہ صرف سیاسی انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے بلکہ جمہوری اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
آزاد مقامی حکومتیں نہ صرف جمہوریت کی نرسری ہوتی ہیں بلکہ ان کے ذریعے عوامی مسائل کے حل میں مؤثریت بھی آتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مقامی حکومتوں کو معقول مالی، انتظامی، اور سیاسی خودمختاری حاصل ہے، جس کے نتیجے میں شہری سہولیات بہتر اور عوام کا ریاست پر اعتماد مستحکم ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں بدقسمتی سے صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ہم ترقی کا سفر تو کرنا چاہتے ہیں مگر اختیارات بانٹنے پر آمادہ نہیں۔
جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ اختیارات کی مرکزیت کے بجائے انہیں نچلی سطح پر منتقل کیا جائے۔ منتخب بلدیاتی نمائندوں کو نہ صرف بجٹ سازی میں حصہ ملے بلکہ انہیں منصوبہ بندی، عملدرآمد، اور نگرانی کا اختیار بھی دیا جائے۔ صرف تب ہی مقامی حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے کے قابل ہو سکیں گی۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مقامی حکومتوں کو غیر فعال یا کمزور رکھ کر دراصل عوامی نمائندگی کو کمزور کیا جاتا ہے، جو جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ اگر پنجاب حکومت واقعی عوامی خدمت اور ترقی کی دعویدار ہے تو اسے اس بل پر نظر ثانی کرنی چاہیے، اور ایک ایسا قانون متعارف کرانا چاہیے جو آئینی تقاضوں، عوامی امنگوں، اور جمہوری اصولوں کے مطابق ہو۔
اختتاماً، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ موجودہ بلدیاتی قانون اختیارات کی منتقلی کے بجائے مرکزیت کے رجحان کو فروغ دیتا ہے۔ اس وقت جب کہ پاکستان کو مالی، انتظامی، اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے، ایسے قوانین جو جمہوریت کو کمزور کریں، مزید تباہی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور عوامی نمائندگی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک بااختیار، مؤثر اور آزاد بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھے، جو نہ صرف عوامی مسائل کا حل ہو بلکہ جمہوریت کی اصل تصویر بھی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں