امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل اور فوری جنگ بندی کے اعلان نے ایک بار پھر جنوبی ایشیا کے دیرینہ دشمنوں کے درمیان امن کی امید کو جنم دیا ہے۔ اس اعلان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک نے امریکی ثالثی کے بعد مکمل جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے، ایک ایسا فیصلہ جسے نہ صرف سیاسی قیادت بلکہ عوامی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے، [10 مئی 2025.]
یہ پیش رفت ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی انتہائی حد تک بڑھ چکی تھی۔ محدود سرحدی جھڑپوں کے بعد مکمل جنگ کے امکانات پیدا ہو چکے تھے، تاہم اچانک یہ اعلان عالمی برادری کے لیے ایک حیران کن اور خوش آئند قدم ہے۔ صدر ٹرمپ نے ’ٹریتھ سوشل‘ پلیٹ فارم پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ دونوں ممالک کی دانشمندی اور عقل مندی کا مظہر ہے۔پاکستانی قیادت کی جانب سے اس فیصلے کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ سینیٹر شیری رحمان نے جنگ سے باوقار انداز میں نکلنے پر حکومت، سیاسی قیادت اور افواج پاکستان کو مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے ہر سطح پر اپنا دفاع ثابت کیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم روایتی مزاحمت کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ بات چیت کی میز پر آئندہ کے لیے تعمیری رویہ اپنائے، خصوصاً پانی اور کشمیر جیسے بنیادی معاملات پر۔اسی جذبے کی عکاسی سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے بیان سے بھی ہوتی ہے، جنہوں نے اس جنگ بندی کو امن کی جیت اور خطے میں استحکام کے خواہاں افراد کی کامیابی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام نے اس پیش رفت کو خوش دلی سے قبول کیا ہے اور ملک بھر میں اس پر اطمینان پایا جا رہا ہے۔معروف صحافی ضرار کھوڑو نے سوشل میڈیا پر اس موضوع پر تاریخی تناظر میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب بڑی طاقتیں چھوٹی اقوام پر حملہ کرتی ہیں تو فیصلہ کن فتح کے بغیر جنگ ان کے لیے شکست بن جاتی ہے۔ ان کے الفاظ دراصل جنگی فلسفے کی عکاسی کرتے ہیں کہ کمزور اقوام کے خلاف جنگ جیتنا محض عسکری طاقت سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے سیاسی، سماجی اور اخلاقی مضمرات بھی ہوتے ہیں۔یہ ساری صورت حال اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ آج کی دنیا میں جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتیں، بلکہ سفارت کاری، قومی اتحاد اور عوامی حمایت سے ہی پائیدار امن ممکن ہے۔ پاکستان نے اس تمام بحران میں جس تحمل اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا، وہ قابل تحسین ہے۔ مسلح افواج نے نہ صرف اپنی دفاعی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے مثبت تاثر کو مضبوط کیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ جنگ بندی ایک عارضی وقفہ ہے یا ایک مستقل امن کی طرف پہلا قدم؟ ماضی کے تلخ تجربات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے جنگ بندیوں کی خلاف ورزیاں معمول کی بات رہی ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں، آبی جارحیت، اور کشمیری عوام پر ظلم، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو اس امن عمل کو مشکوک بناتے رہے ہیں۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اس موقع کو محض وقتی ریلیف کے طور پر نہ دیکھے بلکہ طویل المدتی سفارتی حکمت عملی اختیار کرے۔ ہمیں اقوام متحدہ، اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC)، اور چین جیسے اہم دوست ممالک کی مدد سے بھارت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے اور سنجیدگی کے ساتھ کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور کو حل کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کرے۔اس تناظر میں پاکستانی میڈیا اور سول سوسائٹی کا کردار بھی کلیدی ہے۔ جیسا کہ سینیٹر شیری رحمان نے درست نشاندہی کی کہ بھارتی میڈیا کو چاہیے کہ وہ سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ تجزیے کرے، افواہوں اور جنگی جنون کو ہوا دینے کی بجائے سیاسی مکالمے کے لیے جگہ پیدا کرے۔ یہی رویہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے امن، ترقی اور خوشحالی کی نوید لا سکتا ہے۔اس موقع پر عالمی برادری، خصوصاً امریکا، چین، یورپی یونین، اور اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے ضامن کا کردار ادا کریں بلکہ اسے مستقل امن میں بدلنے کے لیے سہولت کاری کریں۔ امریکا کی موجودہ ثالثی قابل تعریف ہے، لیکن یہ ایک جاری عمل کا نقطۂ آغاز ہونا چاہیے، نہ کہ انجام۔آخر میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ پاکستان نے اپنی سیاسی اور عسکری حکمت عملی کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ نہ صرف ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے بلکہ علاقائی امن کے لیے سنجیدہ بھی ہے۔ جنگ بندی کا یہ لمحہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ صرف طاقت نہیں بلکہ تدبر، گفت و شنید اور قومی اتحاد ہی قوموں کو سربلند کرتے ہیں۔یہ وقت ہے کہ ہم اپنی توانائیاں اندرونی ترقی، غربت کے خاتمے، تعلیم، صحت اور خوشحال پاکستان کی تعمیر میں صرف کریں۔ ایک نئے باب کا آغاز ہو چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اس باب کو بند کرنے کی کوشش کرتا ہے یا ایک نئی پرامن تاریخ رقم کرنے میں پاکستان کا ہمسفر بنتا ہے۔دونوں ممالک محض جنگ بندی پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس موقع کو جنوبی ایشیائی استحکام، خوشحالی اور ترقی کے وسیع تر ہدف کے لیے استعمال کریں۔اس وقت دنیا بھر میں ریاستیں اپنے تنازعات کو سمیٹ کر مشترکہ مفادات پر مرکوز ہو رہی ہیں۔ یورپی یونین اس کی بہترین مثال ہے جہاں ماضی کے دشمن ممالک نے معاشی، تجارتی، ماحولیاتی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کو فروغ دے کر ایک مستحکم بلاک تشکیل دیا۔ جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کے پاس بھی یہی موقع ہے کہ وہ اپنی توانائیاں اس خطے کو امن، ماحولیات کے تحفظ، تجارتی خوشحالی اور انسانی بہبود کی مثال بنانے میں صرف کریں۔
دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ باہمی دشمنی کو پیچھے چھوڑ کر جنوبی ایشیائی یونین کی طرز پر ایک علاقائی اتحاد کی بنیاد رکھیں۔ اس میں نہ صرف معاشی انضمام بلکہ مشترکہ ماحولیاتی پالیسی، تعلیمی تبادلے، ثقافتی میل جول، اور صحت عامہ کے لیے یکساں اہداف پر کام کیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کا اتحاد نہ صرف امن کا ضامن ہو گا بلکہ دنیا میں جنوبی ایشیا کو ایک ترقی یافتہ خطہ بنانے کی راہ ہموار کرے گا۔امن کے عمل کو پائیدار بنانے کے لیے عوامی سطح پر روابط بے حد ضروری ہیں۔ دونوں ممالک کو ویزا پالیسی میں نرمی، تعلیمی و ثقافتی وفود کے تبادلے، اور میڈیا کے ذریعے مثبت بیانیہ فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ غلط فہمیاں ختم ہوں اور اعتماد بحال ہو۔ عوام کے دل ملیں گے تو سرحدوں پر تناؤ خودبخود کم ہو گا۔ماحولیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ گلیشیئرز کا پگھلنا، دریاؤں کا خشک ہونا، اور فضائی آلودگی دونوں ممالک کے عوام کو یکساں طور پر متاثر کر رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ مشترکہ ماحولیاتی کمیشن قائم کریں جو پانی، ہوا، جنگلات، اور حیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرے۔ اس تعاون سے نہ صرف قدرتی وسائل کی حفاظت ممکن ہو گی بلکہ ماحولیاتی آفات کے خطرات بھی کم ہوں گے۔دوطرفہ تجارت کو فروغ دے کر دونوں ممالک نہ صرف اپنی معیشت کو مضبوط کر سکتے ہیں بلکہ خطے میں غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل سے بھی نجات پا سکتے ہیں۔ تجارت، سرمایہ کاری، صنعتی اشتراک اور سرحدی منڈیوں کے قیام جیسے اقدامات سے عوام کا معیارِ زندگی بلند ہو سکتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو نہ صرف امن لاتا ہے بلکہ قوموں کو قریب بھی کرتا ہے۔یہ جنگ بندی ایک نایاب موقع فراہم کرتی ہے کہ دونوں ممالک محض عسکری سکونت کی بجائے ایک وسیع تر وژن کی طرف بڑھیں — وہ وژن جو جنوبی ایشیا کو ایک ترقی یافتہ، پرامن، اور خوشحال خطہ بنا سکے۔ بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ دنیا کے لیے ایک نیا ماڈل بنیں، جہاں ماضی کی تلخیاں ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔اب وقت ہے کہ بات بندوق سے نہیں، دماغ سے ہو — سرحدوں پر نہیں، دلوں میں امن ہو — اور دشمنی کی بجائے دوستی کی بنیاد پر ایک نیا جنوبی ایشیا ابھرے۔
جامعات کی ترجیحات اور نوجوانوں کا مستقبل
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی صورتحال ایک لمحۂ فکریہ بن چکی ہے، جہاں نوجوانوں کا صرف 8 سے 9 فیصد حصہ ہی یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم حاصل کر پاتا ہے۔ یہ اعداد و شمار بھارت (27 فیصد)، برطانیہ (36 فیصد)، اور امریکا (39 فیصد) کے مقابلے میں نہایت کم ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوانوں کی تعلیم اور خاص طور پر انڈرگریجویٹ تعلیم کو کبھی ریاستی ترجیحات میں وہ مقام حاصل نہ ہوا جس کی وہ مستحق تھی۔یہ بات درست ہے کہ ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن یہ مسئلہ صرف تعداد کا نہیں بلکہ معیار، مہارتوں کے فقدان اور تعلیمی اداروں کی منڈی سے غیر مطابقت کا بھی ہے۔ جب اعلیٰ تعلیم نوجوانوں کو نہ روزگار دے سکے، نہ زندگی کی سوجھ بوجھ، نہ ہی فکری نشوونما، تو وہ معاشرے میں مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔انڈرگریجویٹ تعلیم کا دور نوجوانوں کی شخصیت سازی کا نہایت حساس اور فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ہے۔ 18 سے 23 سال کی عمر وہ وقت ہے جب ایک فرد اپنی شناخت، خیالات اور مستقبل کے خوابوں کی بنیاد رکھتا ہے۔ ان برسوں میں سیکھنے، سوچنے، دریافت کرنے اور شعور کی پختگی کے مواقع سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم نوجوانوں کو ان سالوں میں اعلیٰ معیار کی تعلیم، فکری رہنمائی اور عملی تربیت نہ دے سکیں، تو ہم نہ صرف ایک نسل بلکہ پوری قوم کے مستقبل کو دائو پر لگا رہے ہوتے ہیں۔پاکستان کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کا موجودہ ماڈل ناکارہ اور غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ بیشتر سرکاری و نجی جامعات ’کم داخلہ، زیادہ معیار‘ کے زعم میں نوجوانوں کی اکثریت کو تعلیم کے دروازے سے ہی باہر رکھ دیتی ہیں۔ داخلے کی سخت شرائط، ’میرٹ‘ کی محدود تشریح اور قابل فخر کم قبولیت کی شرح دراصل نوجوانوں کو مواقع سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔معیار کا اصل پیمانہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ یونیورسٹی نے کتنے امیدواروں کو داخلہ دینے سے انکار کیا، بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ جو طالبعلم چار سال یونیورسٹی میں گزارے، اُس کی تعلیم، شعور، مہارت اور شخصیت میں کتنا مثبت فرق آیا۔ یہی وہ ’ویلیو ایڈڈ‘ ماڈل ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔سن 2000 کی دہائی کے آغاز میں جب مالی گنجائش نسبتاً بہتر تھی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کو وسعت دینے کی کوشش کی گئی، اس وقت کی پالیسیوں میں انڈرگریجویٹ تعلیم، تدریس، سوشل سائنسز اور ہومینٹیز کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا۔ سارا زور پی ایچ ڈی پروگرامز، ریسرچ پبلیکیشنز اور عالمی رینکنگز پر لگا دیا گیا۔ اس وقت سے اب تک جامعات کی ترجیحات میں نہ طلبہ بلکہ فیکلٹی کی اشاعت کی گنتی کو مرکزیت حاصل رہی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر تدریس کا معیار پست ہے، سیکھنے کا عمل سطحی ہو چکا ہے اور نوجوان مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔
آج دنیا میں مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹلائزیشن اور خودکار نظام تیزی سے انسانی ملازمتوں کی ساخت کو بدل رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں محض ڈگری نہیں بلکہ تنقیدی سوچ، فوری فیصلہ سازی، مواصلاتی مہارت، اور بین الافرادی تعاملات کی صلاحیت ہی نوجوانوں کی کامیابی کی ضامن ہوگی۔ پاکستان کے نوجوان اگر تعلیم کے اس معیار تک نہیں پہنچتے، تو وہ نہ صرف ملکی معیشت سے کٹ جائیں گے بلکہ عالمی منڈی میں بھی ان کی کوئی وقعت نہیں رہے گی۔اگر حکومت واقعی نوجوانوں کو بیرونی منڈیوں میں بھیجنے کے خواب دیکھتی ہے تو سب سے پہلے انہیں معیاری تعلیم اور قابلِ فروخت مہارتیں مہیا کرنا ہوں گی۔ ورنہ ہم غیر تربیت یافتہ مزدوروں کی برآمد تک محدود رہ جائیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ہم جامعات کو محض تحقیقی اشاعت کے کارخانوں کی بجائے انسان سازی کے ادارے بنائیں۔جامعات کے اساتذہ، منتظمین، پالیسی سازوں اور HEC کو اب جاگنا ہوگا۔ انڈرگریجویٹ تعلیم کو مرکزی ترجیح دینی ہوگی۔ نئی پالیسیوں کو اس بنیاد پر ترتیب دینا ہوگا کہ وہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو معیاری تعلیم کے دائرے میں لائیں، انہیں جدید مہارتیں سکھائیں اور ان کی فکری اور شخصی تعمیر کریں۔ایک ایسے ملک کے لیے، جس کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو، یہ ممکن نہیں کہ محض 8-9 فیصد نوجوان ہی یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کریں اور ہم عالمی مقابلے میں بھی کھڑے رہیں۔ ہمیں وسیع بنیادوں پر انڈرگریجویٹ تعلیم میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے، جہاں ہر نوجوان کو سیکھنے، بڑھنے اور اپنا مقام بنانے کا موقع ملے۔اب وقت ہے کہ ہم خوابوں سے بیدار ہوں، اور اعلیٰ تعلیم کو محض اشاعتوں یا پی ایچ ڈی پروگراموں کا نشان بنانے کی بجائے نوجوان نسل کی حقیقی ترقی اور ملک کے روشن مستقبل کا ذریعہ بنائیں۔ کیا پالیسی ساز اس حقیقت کا ادراک کریں گے؟
گرین سکوک: سبز خواب یا مالی حقیقت؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے 20 سے 30 ارب روپے کے پہلے گرین سکوک کے اجراء کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے، جو بظاہر پائیدار مالیات (sustainable finance) کی طرف ایک قدم ہے۔ اسلامی مالیات کے اصولوں پر مبنی یہ حکومتی بانڈ بظاہر ماحولیاتی بہتری کے منصوبوں کے لیے مخصوص ہے، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک قرضہ ہے، جس کی واپسی پر سود کی بجائے “منافع” مارکیٹ کی شرائط کے مطابق دیا جائے گا۔
گہرے خدشات: غیر یقینی سرمایہ کاری اور بداعتمادی کا ماحول
گرین سکوک کی اصل مالیت 20 سے 30 ارب روپے کے درمیان رکھی گئی ہے، جو بذاتِ خود اس بات کا عندیہ ہے کہ حکومت کو عوامی دلچسپی کے بارے میں یقین نہیں۔ اس شک کو اس وقت مزید تقویت ملی جب بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا۔ایسی صورتحال میں مالیاتی آلات پر سرمایہ کاری کو ’مستحکم‘ یا ’محفوظ‘ قرار دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ فِچ نے اگرچہ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں معمولی بہتری دکھائی ہے، لیکن وہ بہتری بھی “ہائی رسک” دائرے میں آتی ہے۔ دوسری دو اہم ریٹنگ ایجنسیاں — موڈی اور اسٹینڈرڈ اینڈ پورز — اب تک اس درجہ بندی کو اپنانے سے گریزاں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں مجموعی طور پر 18.877 کھرب روپے کے اخراجات میں سے 9.775 کھرب روپے صرف قرضوں پر دی جانے والی سودی ادائیگیوں پر مختص کیے گئے ہیں۔ یعنی تقریباً 52 فیصد بجٹ قرضوں کی خدمت پر خرچ ہو گا — ایک خطرناک رجحان۔گزشتہ سال بھی سود کی ادائیگیوں کا تخمینہ اصل اخراجات سے 13 فیصد بڑھ گیا تھا، اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ اس سال بھی یہ اخراجات بجٹ سے زیادہ ہوں گے۔گرین سکوک کا بنیادی مقصد ماحولیاتی بہتری ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ صرف نام میں ’سبز‘ شامل کر لینے سے ماحولیاتی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پاکستان انڈس واٹر ٹریٹی کے خطرے سے دوچار ہے، اور اگر بھارت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو پاکستان پانی کی شدید قلت کا شکار ہو جائے گا۔ایسے میں گرین سکوک کا اجراء ایک علامتی اقدام ضرور ہو سکتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک فنانسنگ میکانزم ہے، جو ملک کی معاشی کمزوریوں، قرض پر انحصار، اور بڑھتی ہوئی عالمی بے یقینی کا مکمل حل نہیں۔یہاں حکومت، مالیاتی اداروں، اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محض دکھاوے یا PR مہمات سے آگے بڑھ کر سنجیدہ اقدامات کریں۔ گرین سکوک کو صرف مارکیٹنگ ٹول بنانے کی بجائے، اسے حقیقی ماحول دوست منصوبوں سے منسلک کیا جائے — مثلاً صاف پانی کے منصوبے، قابلِ تجدید توانائی، شہری گرین اسپیسز، اور واٹر مینجمنٹ انفرااسٹرکچر۔اسی کے ساتھ، سکوک سے حاصل شدہ فنڈز کے شفاف استعمال کو یقینی بنانا ہو گا۔ مکمل آڈٹ، سالانہ رپورٹس، اور پبلک ڈسکلوژر سے ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پیغام
اگر پاکستان واقعی بین الاقوامی مالیاتی مارکیٹس میں اپنی ساکھ بہتر بنانا چاہتا ہے تو اسے محض بانڈز جاری کرنے کی بجائے اندرونی اقتصادی بہتری، سیاسی استحکام، اور عدالتی شفافیت پر توجہ دینا ہو گی۔ اس کے بغیر کسی بھی قسم کا مالیاتی آلہ — چاہے وہ گرین ہو یا اسلامی — سرمایہ کاروں کو قائل نہیں کر سکے گا۔
نتیجہ: سبز راستہ سنبھالنے کا وقت
گرین سکوک کے اجراء کو ایک مثبت قدم تب ہی کہا جا سکتا ہے جب اسے معیشت کی بہتری، قرضوں پر انحصار کم کرنے، اور ماحولیاتی تحفظ کے بڑے تناظر میں دیکھا جائے۔ بصورت دیگر، یہ صرف ایک وقتی بیانیہ ہو گا جو زمینی حقیقت سے دور رہے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس اقدام کو سنگ میل بنانے کی بجائے ایک نقطۂ آغاز سمجھیں — ایک ایسا آغاز جو پاکستان کو مالیاتی خودمختاری، ماحولیاتی تحفظ، اور پائیدار ترقی کی طرف لے جائے۔ مگر کیا ہمارے پالیسی ساز اس وژن کو اپنانے کے لیے تیار ہیں؟ یا گرین سکوک محض سبز سراب ثابت ہو گا؟