امریکی حکومت کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں پر ویزا پابندیوں کا ایک نیا سلسلہ متعارف کرایا جا رہا ہے، جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی ہمیشہ سے سخت رہی ہے، اور اب ان کی قیادت میں واشنگٹن انتظامیہ ایک نئی فہرست ترتیب دے رہی ہے، جس کے تحت درجنوں ممالک کے شہریوں کو امریکہ میں داخلے کے لیے مزید سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس اور ایک داخلی سرکاری میمو کے مطابق، ان پابندیوں کے تحت ممالک کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے گروہ میں شامل ممالک پر مکمل ویزا پابندی عائد کی جائے گی، جبکہ دوسرے اور تیسرے گروہ میں شامل ممالک کے شہریوں کے لیے جزوی ویزا معطلی کا امکان ہے۔ پاکستان تیسرے گروہ میں شامل ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر پاکستانی حکومت مخصوص سیکیورٹی اور امیگریشن اصلاحات کو مقررہ 60 دنوں میں نافذ نہیں کرتی، تو پاکستانی شہریوں کے لیے امریکہ کا سفر مشکل ہو سکتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کو ایسی کسی فہرست میں شامل کیا گیا ہو۔ اس سے قبل بھی ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں پاکستان پر مختلف سفری اور امیگریشن پابندیوں کا خطرہ منڈلاتا رہا ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ آیا یہ نئی پابندیاں واقعی سیکیورٹی خدشات پر مبنی ہیں، یا یہ ٹرمپ کی مسلم مخالف پالیسیوں کا ایک اور تسلسل ہے؟
پاکستان کو اس فہرست میں شامل کرنے کے پیچھے کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بعض ممالک کی امیگریشن اسکریننگ اور سفری سیکیورٹی معیارات امریکی توقعات پر پورے نہیں اترتے، جس کے باعث ان پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ تاہم، تاریخی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ امریکی امیگریشن پالیسی میں اکثر مخصوص مسلم ممالک کو زیادہ سختیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی سات مسلم اکثریتی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کی گئیں، جنہیں “مسلم بین” کے نام سے جانا گیا۔ اب جب کہ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں ہیں، تو ان کی پالیسیوں میں ایک بار پھر وہی رجحانات نظر آ رہے ہیں۔
پاکستان کو اس فہرست میں شامل کرنے کے پیچھے دیگر عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا اہم اتحادی تصور کیا گیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوتا رہا۔ حالیہ برسوں میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری دیکھی گئی۔
اگر پاکستان پر ویزا پابندیوں کا اطلاق ہوتا ہے تو اس کے کئی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، پاکستانی طلبہ جو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جاتے ہیں، انہیں ویزا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہر سال ہزاروں پاکستانی طلبہ امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں، اور یہ پابندیاں ان کے تعلیمی مواقع کو محدود کر سکتی ہیں۔
اسی طرح، پاکستانی کاروباری افراد جو امریکہ میں سرمایہ کاری یا تجارتی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں بھی ویزا حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اپنے اہل خانہ کو بلوانا چاہتی ہے، اور یہ نئی پالیسی ان کے لیے بھی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
دوسری جانب، یہ اقدام پاک-امریکہ تعلقات کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ پاکستان اس فیصلے کو امتیازی قرار دے کر اس پر سفارتی سطح پر احتجاج کر سکتا ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت گیر امیگریشن پالیسی میں کسی بڑی نرمی کی امید نہیں کی جا سکتی۔
امریکی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ ویزا پابندیاں صرف پاکستان جیسے ممالک کے لیے نقصان دہ ہوں گی تو یہ ایک غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی طلبہ، کاروباری افراد اور دیگر پروفیشنلز امریکی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تعلیمی ادارے پاکستانی طلبہ سے بھاری فیس وصول کرتے ہیں، اور اگر ان کا داخلہ رک جاتا ہے تو یہ یونیورسٹیوں کے لیے مالی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح، پاکستانی کاروباری افراد اور پروفیشنلز امریکی معیشت میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں، اور ان کی غیر موجودگی سے امریکہ کو بھی نقصان ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے سخت امیگریشن قوانین کے حامی رہے ہیں۔ ان کی سیاست کا بڑا حصہ مسلم اور تارکین وطن مخالف پالیسیوں پر مبنی رہا ہے۔
سن 2017ء میں جب انہوں نے سات مسلم ممالک پر سفری پابندی عائد کی تھی، تو اس وقت بھی عالمی سطح پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ بعد میں یہ معاملہ امریکی سپریم کورٹ تک پہنچا، جہاں عدالت نے بالآخر ان پابندیوں کو برقرار رکھا۔
اب ایک بار پھر ٹرمپ نے سخت امیگریشن پالیسی کو اپنی صدارت کا اہم حصہ بنا لیا ہے۔ 2023 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ امیگریشن پالیسی کو مزید سخت کریں گے اور خاص طور پر مسلم ممالک کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں گے۔
ان تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی نئی ویزا پالیسی زیادہ تر سیاسی عزائم پر مبنی ہے۔ وہ اپنی امیگریشن مخالف پالیسیوں کے ذریعے ایک مخصوص ووٹر بیس کو متحرک کرنا چاہتے ہیں، جو سخت گیر امیگریشن قوانین کا حامی ہے۔
پاکستان کو اس معاملے پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امریکی سفری پابندیوں سے بچا جا سکے۔
اول، پاکستانی حکومت کو سفارتی سطح پر واشنگٹن سے بات چیت کرنی چاہیے اور اپنی سیکیورٹی اسکریننگ کے نظام میں بہتری لانے کے لیے امریکی حکام سے تعاون کرنا چاہیے۔ اگر واقعی کچھ انتظامی خامیاں ہیں، تو انہیں فوری طور پر دور کرنا ضروری ہے۔
دوم، پاکستان کو دیگر متاثرہ ممالک کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے تاکہ امریکہ کے اس متنازعہ فیصلے کے خلاف سفارتی محاذ پر مضبوط موقف اختیار کیا جا سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک بار پھر مسلم اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ پاکستان کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا تاکہ اس امتیازی سلوک کے خلاف مضبوط موقف اختیار کیا جا سکے۔
یہ فیصلہ واقعی امریکی سیکیورٹی کے لیے ضروری ہے یا یہ صرف ٹرمپ کی مسلم مخالف پالیسی کا ایک اور پہلو ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب وقت ہی دے گا۔
پاک چین شراکت
پاک چین شراکت
پاکستان اور چین کے تعلقات ہمیشہ سے ایک خاص نوعیت کے حامل رہے ہیں، جو وقت کے ساتھ مزید مستحکم اور وسیع ہوتے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں چینی قونصل جنرل یانگ یونڈونگ نے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ دونوں ممالک قراقرم شاہراہ (ق ش) اور مرکزی ریلوے لائن نمبر 1 (م ر ل -1) سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ بیان نہ صرف پاکستان اور چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی شراکت داری کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان مزید تعاون کے دروازے بھی کھولتا ہے۔
پاکستان اور چین کی دوستی صرف سفارتی تعلقات تک محدود نہیں، بلکہ یہ عملی اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے مسلسل مستحکم ہو رہی ہے۔ خاص طور پر، چین-پاکستان اقتصادی راہداری (چ پ ا ر) کو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک “لائف لائن” قرار دیا جا چکا ہے، جو نہ صرف انفراسٹرکچر بلکہ توانائی، صنعت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بھی نمایاں ترقی کا باعث بن رہا ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں ایک نیا دور شروع ہوگا، جس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور ملک میں صنعتی ترقی کو فروغ ملے گا۔
چین نے ستمبر 2024 میں پاکستان کے ساتھ مل کر ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی شعبے میں چار بڑے منصوبے مکمل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ ان میں مرکزی ریلوے لائن نمبر 1 (م ر ل -1) کے علاوہ موٹروے 6 (م-6) اور موٹروے 9 (م-9) کی تعمیر، قراقرم شاہراہ (ق ش) کے دوسرے مرحلے کی تکمیل، اور کاغان-ناران، جھل کھنڈ، بابوسر ٹاپ اور قراقرم شاہراہ (ق ش) تک سرنگ کی تعمیر شامل ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان کے اندر سفری سہولیات میں بہتری آئے گی بلکہ بین الاقوامی تجارتی روابط میں بھی اضافہ ہوگا۔
مرکزی ریلوے لائن نمبر 1 (م ر ل -1)، جو کراچی سے پشاور تک پھیلی ہوئی ہے، چین-پاکستان اقتصادی راہداری (چ پ ا ر) کا ایک کلیدی منصوبہ ہے اور اس کی اپ گریڈیشن سے پاکستان میں ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ جدید خطوط پر استوار ہوگا۔ اس منصوبے کی کامیابی نہ صرف مسافروں کے لیے سفری سہولیات میں بہتری لائے گی بلکہ سامان کی نقل و حمل بھی زیادہ مؤثر اور تیز تر ہو جائے گی، جس سے ملک کی معیشت کو تقویت ملے گی۔ اکتوبر 2024 میں پاکستان اور چین نے اس منصوبے پر کام تیز کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ تاہم، مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث پاکستانی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر بین الاقوامی سرمایہ کاری نہ ملی تو حکومت خود اس منصوبے کو فنڈ کرنے پر غور کرے گی۔
اسی طرح، گوادر بندرگاہ کا ترقیاتی منصوبہ بھی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ چینی قونصل جنرل کے مطابق، گوادر میں حال ہی میں مکمل ہونے والا نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پاکستان اور چین دونوں گوادر بندرگاہ کو مزید فعال بنانے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بحری جہاز یہاں سے تجارتی مقاصد کے لیے گزریں۔ گوادر کو خطے میں تجارتی مرکز بنانے کے لیے چین مسلسل پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، جو نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی سہارا دے گا۔
چین عالمی سطح پر بھی اپنی معیشت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اہم اقدامات کر رہا ہے۔ یانگ یونڈونگ کے مطابق، چین نے 2024 میں اپنے اقتصادی اور سماجی ترقی کے بڑے اہداف حاصل کر لیے ہیں اور 2025 میں مجموعی ملکی پیداوار (م م پ) میں 5 فیصد تک اضافے کی توقع ہے۔ چین دنیا کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مزید وسعت دینے اور شاہراہ ریشم اور اقتصادی راہداری (ش ر ا ر) کو مزید مضبوط کرنے کا خواہاں ہے، جس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ چین کے ان اقدامات سے بین الاقوامی سطح پر اقتصادی استحکام کو فروغ ملے گا اور ترقی پذیر ممالک کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
پاکستان اور چین کے تعلقات 2025 میں ایک نئے سنگ میل پر پہنچنے جا رہے ہیں، کیونکہ یہ صدر شی جن پنگ کے پاکستان کے تاریخی دورے کی 10ویں سالگرہ کا سال ہوگا۔ اسی طرح، 2026 میں دونوں ممالک اپنی سفارتی تعلقات کی 75ویں سالگرہ منائیں گے۔ ان تاریخی مواقع پر پاکستان اور چین کو اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ مستقبل میں یہ تعلقات مزید مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکیں۔
چینی قونصل جنرل نے اپنے بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف شعبوں میں عملی تعاون کو مزید گہرا کرنے، چین-پاکستان اقتصادی راہداری (چ پ ا ر) کو اپ گریڈ کرنے، اور مشترکہ ترقی کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی صرف اقتصادی فوائد تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد خطے میں امن، استحکام اور ترقی کو یقینی بنانا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاک چین تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے دونوں ممالک کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات، جغرافیائی سیاست اور اقتصادی عدم استحکام جیسے مسائل ان منصوبوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر دونوں ممالک اپنی مشترکہ کاوشوں کو جاری رکھتے ہیں، تو یہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور خطے میں اقتصادی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ چین کے ساتھ جاری ترقیاتی منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کے لیے اپنی پالیسیوں میں مزید بہتری لائے۔ بیوروکریسی کی رکاوٹوں کو کم کرنا، شفافیت کو فروغ دینا، اور سرمایہ کاری کے لیے دوستانہ ماحول فراہم کرنا پاکستان کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ ان اقدامات سے نہ صرف پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوں گے بلکہ پاکستان کی معیشت بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔
گوادر بندرگاہ، مرکزی ریلوے لائن نمبر 1 (م ر ل -1)، اور قراقرم شاہراہ (ق ش) جیسے منصوبے پاکستان کو ایک مضبوط اقتصادی مرکز بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل کو یقینی بنائے۔ چین کا تعاون اس سلسلے میں ایک سنہری موقع فراہم کر رہا ہے، اور اگر اس موقع سے مکمل فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پاکستان کو طویل المدتی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاک چین دوستی کی بنیاد باہمی احترام، تعاون اور مشترکہ ترقی پر رکھی گئی ہے۔ ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک عملی اقدامات کریں اور اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دیں۔ اگر پاکستان اور چین اپنے مشترکہ اہداف پر یکسوئی کے ساتھ کام کرتے ہیں، تو مستقبل میں یہ تعلقات مزید مستحکم اور فائدہ مند ثابت ہوں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی ایک تاریخی رشتہ ہے جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ترقی کے نئے دروازے کھولیں تاکہ دونوں قومیں ایک خوشحال اور مستحکم مستقبل کی جانب بڑھ سکیں۔
ادویات کی قیمتیں اور عوام
پاکستان میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام شہری کی زندگی پہلے ہی مشکل بنا رکھی ہے۔ ایسے میں اگر دوائیں بھی مہنگی ہو جائیں تو غریب اور متوسط طبقے کے لیے علاج معالجہ کیسے ممکن ہوگا؟ حکومت نے فروری 2024 میں دوا سازی کے شعبے میں ڈی ریگولیشن کی جو پالیسی متعارف کرائی، اس کے اثرات اب عوام پر واضح ہو رہے ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) نے اس پالیسی کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے فارماسیوٹیکل صنعت ترقی کرے گی، برآمدات بڑھیں گی اور دواؤں کی قیمتوں میں استحکام آئے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عوام کو اس پالیسی سے فائدہ پہنچ رہا ہے؟
بظاہر تو یہ کہا جا رہا ہے کہ ڈی ریگولیشن سے غیر ضروری ادویات کو حکومتی کنٹرول سے آزاد کر دیا گیا ہے، جس سے مارکیٹ میں مسابقت بڑھی ہے اور قیمتیں منصفانہ اصولوں پر طے ہو رہی ہیں۔ لیکن حقیقت میں جب کوئی مریض فارمیسی پر جاتا ہے، تو اسے وہی دوا پہلے سے زیادہ مہنگی ملتی ہے۔ کیا یہ پالیسی واقعی عام آدمی کے لیے فائدہ مند ہے یا صرف دوا ساز کمپنیوں کے مفادات کے لیے بنائی گئی ہے؟
ایس آئی ایف سی کے مطابق، اس پالیسی کے بعد پاکستان میں دواؤں کی دستیابی بہتر ہوئی ہے، تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری بڑھی ہے، اور عالمی دوا ساز کمپنیاں پاکستانی مارکیٹ میں آ رہی ہیں۔ فارماسیوٹیکل برآمدات میں بھی 52 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کہ بلاشبہ ملکی معیشت کے لیے اچھی خبر ہے۔ لیکن عام شہری کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ جب دواؤں کی قیمتیں بڑھتی ہیں، تو اس کا سب سے زیادہ اثر ان لوگوں پر پڑتا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراض قلب، اور دیگر دائمی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے روزانہ دوا لینا مجبوری ہوتی ہے۔ ان کے لیے دوا کوئی عیاشی نہیں، بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ لیکن جب دوائیں مہنگی ہو جاتی ہیں، تو بہت سے لوگ یا تو مقدار کم کر دیتے ہیں یا پھر بالکل چھوڑ دیتے ہیں، جس سے ان کی صحت مزید خراب ہو جاتی ہے۔
ایس آئی ایف سی کا مؤقف ہے کہ ڈی ریگولیشن سے جعلی اور اسمگل شدہ ادویات میں کمی آئی ہے اور زندگی بچانے والی ادویات زیادہ دستیاب ہوئی ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک مثبت پہلو ہے، لیکن اس کا فائدہ اسی وقت ہوگا جب یہ دوائیں عام شہری کی پہنچ میں بھی ہوں۔ اگر دوائیں مارکیٹ میں دستیاب تو ہیں، لیکن مہنگی ہونے کی وجہ سے عوام انہیں خرید نہ سکیں، تو یہ سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے مطابق، ڈی ریگولیشن کے بعد قیمتوں میں صرف ان دواؤں کی ایڈجسٹمنٹ کی گئی جو پہلے غیر موزوں نرخوں پر فروخت ہو رہی تھیں، اور اب قیمتیں مستحکم ہو رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام شہری کو یہ استحکام نظر نہیں آ رہا۔ جب بھی کوئی نئی دوا متعارف ہوتی ہے، وہ پہلے سے زیادہ مہنگی ہوتی ہے، اور پرانی ادویات کی قیمتیں بھی آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی ہیں۔
حکومت کا فرض ہے کہ وہ دواؤں کی قیمتوں کو اس حد تک نہ بڑھنے دے کہ غریب آدمی کے لیے علاج ناممکن ہو جائے۔ اگرچہ فارماسیوٹیکل شعبے میں ترقی ضروری ہے، لیکن اس ترقی کا فائدہ عام آدمی تک بھی پہنچنا چاہیے۔ اگر برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے اور صنعت ترقی کر رہی ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی مارکیٹ میں عوام کو مہنگی دوائیں خریدنے پر مجبور کیا جائے؟
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دوا ساز کمپنیاں زیادہ منافع کمانے کے لیے عوام پر بوجھ ڈالیں۔ حکومت کو اس پالیسی پر سخت نظر رکھنی چاہیے اور ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جس سے نہ صرف فارماسیوٹیکل انڈسٹری ترقی کرے بلکہ عوام کو بھی دوائیں مناسب قیمت پر دستیاب رہیں۔
علاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اگر مہنگائی کی وجہ سے یہ حق عوام کی پہنچ سے دور ہو جائے، تو یہ ایک قومی مسئلہ بن جاتا ہے۔ حکومت، دوا ساز کمپنیاں اور تمام متعلقہ ادارے مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ دوائیں سب کے لیے قابلِ رسائی ہوں، تاکہ صحت مند پاکستان کا خواب حقیقت بن سکے۔