آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

امریکہ کی نئی مہم جوئی کا شاخسانہ؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ بیانات نے ایک بار پھر عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ افغانستان کا بگرام ایئرفیلڈ دوبارہ امریکی کنٹرول میں ہونا چاہیے اور اگر افغان طالبان نے اس حوالے سے تعاون نہ کیا تو انہیں “برا وقت” دیکھنا پڑے گا، نہ صرف غیر سنجیدہ بلکہ خطرناک اشارہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ دوبارہ افغانستان پر فوجی تسلط جمانے کا ارادہ رکھتا ہے؟ اور اگر ہاں، تو اس کے اثرات خطے اور بالخصوص پاکستان پر کیا ہوں گے؟بگرام ایئربیس افغان جنگ کی سب سے بڑی علامت تھی، جہاں کبھی ایک وقت میں 10 ہزار امریکی فوجی موجود تھے۔ 2021 میں امریکی انخلا کے وقت اس بیس کو چھوڑنا امریکہ کی سب سے بڑی عسکری و سیاسی ہزیمت قرار دیا گیا۔ حیران کن طور پر یہی انخلا اُس دوحہ معاہدے کے تحت ہوا جس پر خود ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں دستخط کیے تھے۔ آج وہی ٹرمپ بگرام کے دوبارہ قبضے کی بات کر رہے ہیں اور چین کی ایٹمی تنصیبات کی نزدیکی کو جواز بنا رہے ہیں۔ اس مؤقف کا مطلب ہے کہ امریکہ افغانستان کو ایک مرتبہ پھر اپنے جیو اسٹریٹجک مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔طالبان حکومت نے سخت جواب دیتے ہوئے دوحہ معاہدے کی شق یاد دلائی کہ امریکہ افغانستان کی آزادی اور خودمختاری میں مداخلت نہ کرنے کا پابند ہے۔ چین نے بھی واضح پیغام دیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام ہی کریں گے اور کسی قسم کی بیرونی مداخلت خطے میں مزید عدم استحکام پیدا کرے گی۔ ایسے میں اگر امریکہ طاقت کے استعمال کی کوشش کرتا ہے تو نہ صرف طالبان مزاحمت کریں گے بلکہ چین اور روس جیسے علاقائی طاقتیں بھی براہ راست میدان میں آ سکتی ہیں۔پاکستان کی صورتحال اس تناظر میں نہایت حساس ہے۔ ماضی میں دو بار افغانستان کی جنگوں کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر پاکستان نے اپنی معیشت، امن و استحکام اور معاشرتی ڈھانچے پر بھاری قیمت چکائی۔ دہشت گردی کی لہر، لاکھوں مہاجرین کا بوجھ اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان آج بھی ہمارے لیے ایک کھلا زخم ہے۔ اگر امریکہ دوبارہ افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کرتا ہے تو پاکستان پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ اسے تعاون فراہم کرے، لیکن اس کے اثرات ہمارے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے اپنے تحفظات افغان طالبان کے ساتھ موجود ہیں، خاص طور پر سرحد پار سے سرگرم دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے۔ لیکن ان مسائل کا حل کسی بیرونی فوجی مداخلت میں نہیں بلکہ علاقائی مکالمے اور سفارتی دباؤ میں ہے۔ اگر امریکہ طاقت کے ذریعے افغانستان میں قدم رکھنے کی کوشش کرے گا تو پاکستان ایک بار پھر غیر یقینی کے دلدل میں دھنس سکتا ہے۔ٹرمپ کی یہ دھمکی دراصل امریکہ کی اُس پرانی عادت کا مظہر ہے جس میں وہ دنیا کے کسی بھی حصے کو اپنی سلامتی اور مفادات کے نام پر میدانِ جنگ بنا دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا، بالخصوص پاکستان، تیسری بار افغانستان کی جنگ کا ایندھن بننے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کسی بھی امریکی دباؤ میں آنے کے بجائے اپنے قومی مفاد کو ترجیح دے اور واضح طور پر یہ پیغام دے کہ کسی نئی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنے گا۔امریکہ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ بگرام ایئرفیلڈ کی دوبارہ قبضہ گیری محض ایک فوجی اقدام نہیں بلکہ ایک خطے کو پھر سے آگ کی لپیٹ میں ڈالنے کے مترادف ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ واشنگٹن اپنی مہم جوئی کی روش ترک کرے اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو دوحہ معاہدے کے تحت احترامِ خودمختاری کی بنیاد پر آگے بڑھائے۔ ورنہ یہ خطہ ایک بار پھر ایسے بحران کی لپیٹ میں آ سکتا ہے جس کے اثرات پوری دنیا کو بھگتنا ہوں گے۔افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کی تاریخ خون اور آنسوؤں سے بھری ہوئی ہے۔ 1979 میں سوویت یونین کے حملے کے بعد امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بنایا۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے اشتراک سے افغان جہاد شروع کیا گیا، لیکن اس کا سب سے بڑا بوجھ پاکستان نے اٹھایا۔ لاکھوں افغان مہاجرین ہمارے شہروں میں آباد ہوئے، اسلحہ اور منشیات کی یلغار نے معاشرتی ڈھانچہ بگاڑ دیا، اور فرقہ واریت کی لہر نے ہمارے اندرونی امن کو زہر آلود کر دیا۔2001 میں نائن الیون کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر امریکی جنگ کا حصہ بنایا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے “ڈو مور” کے مطالبات پر سر جھکا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان خود دہشت گردی کے نشانے پر آ گیا۔ ہزاروں شہری اور فوجی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، اور فاٹا و خیبر پختونخوا جیسے علاقے دہائیوں تک بدامنی کی لپیٹ میں رہے۔ ان دو تجربات نے یہ سبق دیا کہ افغانستان کی جنگ کبھی صرف افغانستان تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے شعلے ہمیشہ پاکستان کو بھی جھلساتے ہیں۔اب اگر ٹرمپ اپنی ضد اور انا کی تسکین کے لیے بگرام ایئرفیلڈ پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک نیا طوفان کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس بار صورتحال پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگی کیونکہ چین اور روس جیسے عالمی طاقتیں افغانستان میں براہ راست مفادات رکھتی ہیں۔ چین سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کی کوشش کر رہا ہے اور روس طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ ایسے میں اگر امریکہ عسکری طاقت استعمال کرتا ہے تو یہ تصادم ایک نئی سرد جنگ کا آغاز بن سکتا ہے — جس کے مرکز میں پھر پاکستان پھنس جائے گا۔پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اپنی غیر جانبداری اور خودمختاری کو کس طرح برقرار رکھے۔ امریکہ کی طرف سے دباؤ بھی آ سکتا ہے اور طالبان کی جانب سے ناراضی بھی۔ لیکن پاکستان کو اس بار واضح پیغام دینا ہوگا کہ وہ کسی بیرونی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنے گا۔ ہمارے پاس پہلے ہی اپنی معیشت کے مسائل، داخلی بدامنی، اور دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں۔ ایک نئی جنگ کا بوجھ ہم مزید نہیں اٹھا سکتے۔یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر خطے کی سلامتی اور اقتصادی تعاون پر مرکوز کرے۔ چین، ایران، وسط ایشیائی ممالک اور حتیٰ کہ روس کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی امریکی دباؤ کا متبادل بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں افغانستان کے ساتھ بھی کھلے دل سے بات کرنی ہوگی تاکہ سرحد پار سے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کا کوئی مشترکہ حل نکل سکے۔امریکہ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ افغانستان پر دوبارہ فوجی تسلط قائم کرنا نہ صرف اس کی اپنی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوگا بلکہ خطے کو ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر دھکیل دے گا۔ ٹرمپ کی دھمکیاں وقتی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہو سکتی ہیں، لیکن اگر وہ عملی قدم اٹھاتے ہیں تو یہ امریکہ کے لیے تیسری بڑی غلطی ہوگی — اور اس کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ رسوا کن ہوگا۔پاکستانی قیادت کو اب وہی تاریخی موقع ملا ہے جو 1950 کی دہائی میں ضائع ہو گیا تھا، جب ہم نے اپنی آزادی کو عالمی طاقتوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا۔ آج ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستان اب کسی اور کی جنگ کا ایندھن نہیں بنے گا۔ اگر ہم نے یہ جرات دکھائی تو شاید پہلی بار افغانستان کی سرزمین ایک نئے دور کا آغاز کرے گی — ایسا دور جہاں جنگ کے بجائے امن، سرمایہ کاری اور علاقائی تعاون کو ترجیح ملے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں