آج کی تاریخ

Champions Trophy 2025, Cricket Champions Trophy,

امریکہ کی مداخلت،کیا پاکستان واقعی خودمختار ہے؟

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ ایک پیچیدہ مسئلہ رہے ہیں، جس پر عوامی سطح پر مختلف خیالات اور قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اسلام آباد میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے جو بیان دیا، اس میں انہوں نے واضح کیا کہ دونوں ممالک دیرینہ دوست ہیں اور کسی بھی بیرونی مداخلت کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا بلکہ ان میں بہتری آئے گی۔ترجمان کے اس بیان نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، خصوصاً جب تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کا عنصر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دفتر خارجہ کے دعوے کے باوجود عوامی حلقوں میں یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ آیا واقعی پاکستان اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں آزادانہ فیصلے کر سکتا ہے؟ پاکستان کی حکومت نے امریکی انتخابات کے بعد نومنتخب صدر کو مبارک باد تو دی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف سفارتی رسمی باتیں ہیں یا اس بار واقعی امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت مختلف ہوگی؟ماضی میں امریکہ نے مختلف ادوار میں پاکستان کے معاملات میں گہرے اثرات ڈالے ہیں، چاہے وہ ڈرون حملے ہوں یا اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور اس میں پاکستان کی خاموشی یا ردعمل ہمیشہ ایک معمہ رہا ہے۔ اس بیان کے پس منظر میں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا پاکستان اس بار اپنی خودمختاری کو مضبوط کر سکے گا یا یہ صرف رسمی باتیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں؟

2011 میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کی ایک خفیہ کارروائی نے دنیا کو حیران کر دیا۔ اس کارروائی میں امریکہ نے بغیر کسی اطلاع کے پاکستان کے اندر گھس کر اسامہ بن لادن کو قتل کر دیا۔ یہ آپریشن پاکستان کی خودمختاری پر براہ راست حملہ تھا، جس نے پاکستانی عوام اور حکام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا پاکستان واقعی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔ ایبٹ آباد کے فوجی علاقے میں امریکی سیلز کا داخلہ اور کارروائی پاکستانی انٹیلی جنس پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔پاکستان نے اس واقعے کے بعد شدید احتجاج کیا، مگر اس واقعے نے دنیا بھر میں پاکستان کی خودمختاری کے حوالے سے بحث کو جنم دیا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اس کارروائی کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا، جبکہ پاکستانی حکام نے اسے ملکی سالمیت پر حملہ قرار دیا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کافی تناؤ پیدا ہوا، مگر کچھ عرصے بعد تعلقات بحال ہو گئے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ امریکہ کی مداخلت پاکستان کی خودمختاری کے لئے چیلنج تھی مگر پاکستان زیادہ کچھ نہ کر سکا۔اس واقعے کے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ امریکہ نے اس معاملے کو اسامہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جبکہ پاکستان اپنی پوزیشن کو واضح کرنے میں ناکام رہا۔ یہ واقعہ پاکستانی عوام کے لئے بھی صدمہ تھا اور حکومت پر سوالات اٹھائے گئے کہ اسامہ جیسے مطلوب شخص کو پاکستانی سرزمین پر پناہ کیوں ملی۔ اس آپریشن نے پاکستان کی داخلی سلامتی پر کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا اور عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کیا۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے امریکی مداخلت کی ایک نمایاں مثال ہیں۔

امریکہ نے پاکستانی سرزمین پر متعدد ڈرون حملے کیے، جن کا مقصد دہشت گردوں کو نشانہ بنانا تھا۔ مگر ان حملوں میں کئی بے گناہ شہری بھی ہلاک ہوئے۔ یہ حملے نہ صرف پاکستانی حکومت کے علم میں آئے بغیر ہوئے بلکہ ان کے نتیجے میں پاکستان کے داخلی امن و امان پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ پاکستانی حکومت نے کئی بار امریکہ سے درخواست کی کہ وہ ان حملوں کو روکے، مگر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان کی عوام میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوئی۔ ان حملوں نے پاکستانی عوام کو نفسیاتی دباؤ میں مبتلا کر دیا اور حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ امریکہ کے خلاف سخت موقف اختیار کرے۔ مگر عملی طور پر پاکستان نے ان حملوں کو روکنے کے لئے کوئی مضبوط قدم نہیں اٹھایا۔ امریکہ کا یہ عمل نہ صرف پاکستان کی خودمختاری پر سوالیہ نشان تھا بلکہ اس نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو فروغ بھی دیا۔ان ڈرون حملوں کے اثرات میں پاکستانی معاشرتی تانے بانے کی بگاڑ بھی شامل ہے۔ ان حملوں نے قبائلی علاقوں کے عوام میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دی اور کئی مقامی لوگ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمدردی کے بجائے مخالفت کرنے لگے۔ یہ حملے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم قرار دئیے جاتے ہیں، مگر ان کے نتیجے میں پاکستان کو اپنے شہریوں کا اعتماد کھونا پڑا۔

2011 میں لاہور میں امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی جانب سے دو پاکستانی شہریوں کو قتل کرنے کا واقعہ ایک اور اہم مثال ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے ان دونوں افراد کو دن دہاڑے گولی مار دی اور اسے پاکستانی پولیس نے گرفتار کیا۔ پاکستانی عوام میں اس واقعے کے بعد شدید غم و غصہ پھیل گیا اور حکومت پر دباؤ بڑھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ مگر کچھ عرصے بعد امریکہ کے دباؤ میں آ کر اسے معاف کر کے رہا کر دیا گیا۔ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ پاکستان کی خودمختاری پر ایک بڑے دھچکے کی طرح تھا۔ امریکہ نے اس کی رہائی کے لئے سیاسی اور سفارتی دباؤ ڈالا اور بالآخر پاکستانی حکومت نے اسے رہا کر دیا۔ اس واقعے نے پاکستانی عدلیہ اور قانون کے حوالے سے بھی سنگین سوالات اٹھائے کہ کیا پاکستان واقعی ایک آزاد ملک ہے یا اسے بیرونی قوتوں کے اشارے پر چلنا پڑتا ہے؟ عوامی سطح پر بھی یہ تاثر پیدا ہوا کہ امریکہ کا اثر و رسوخ پاکستانی حکومت پر غالب ہے۔ریمنڈ ڈیوس کے واقعے کے بعد پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں شدید اضافہ ہوا۔ عوام کو یہ محسوس ہونے لگا کہ پاکستان کے قوانین صرف پاکستانیوں کے لئے ہیں جبکہ امریکی شہری ان سے ماورا ہیں۔ اس واقعے نے پاکستانی خودمختاری کی حقیقت کو بے نقاب کیا اور حکومت کی کمزوریوں کو آشکار کیا۔

2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے دوران پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا۔ اس تعاون کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی سرزمین اور فضائی حدود امریکہ کے لئے کھول دیں۔ اس جنگ میں شمولیت کا فیصلہ پاکستان کے لئے مشکل تھا، مگر امریکہ کے دباؤ کے تحت پاکستان کو افغانستان کے خلاف اس جنگ میں شامل ہونا پڑا۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان میں داخلی سطح پر کافی مسائل پیدا ہوئے اور دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔افغانستان میں امریکی کارروائیوں میں تعاون کے نتیجے میں پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات میں بھی سنگین نتائج بھگتنے پڑے۔ دہشت گرد گروہ اور شدت پسند عناصر پاکستان کے خلاف ہو گئے اور ملک میں بدامنی کی لہر دوڑ گئی۔ اس دوران امریکہ نے کئی بار پاکستانی سرزمین پر کارروائیاں کیں، جن سے پاکستان کی خودمختاری پر سوال اٹھے۔

امریکہ کی طرف سے دہشت گردوں کے تعاقب میں پاکستانی سرحدوں میں داخل ہونے کے کئی واقعات بھی سامنے آئے۔پاکستان نے امریکہ کی جنگ میں معاونت فراہم کی، مگر اس کے بدلے میں امریکہ نے پاکستان کو شک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا۔ افغانستان کے معاملے میں پاکستانی کردار پر بارہا سوال اٹھائے گئے اور پاکستانی حکام کو وضاحتیں دینا پڑیں۔ اس صورتحال نے پاکستان کو ایک مشکل مقام پر لا کھڑا کیا اور اس کی خودمختاری پر امریکی اثرات کو واضح کر دیا۔

پاکستان نے امریکی امداد اور فوجی سازوسامان پر بھروسہ کیا، لیکن امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی اور مفادات کے تحت پاکستان کی فوجی ضروریات پر پابندیاں بھی لگائیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کو کئی بار خود مختاری کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔مختلف مواقع پر امریکی سفیروں اور افسران نے پاکستانی سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ماضی میں حکومتیں گرانے اور نئی حکومتیں بنانے کے لئے امریکہ کا کردار بھی مشکوک رہا ہے۔

2011 میں امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کیا، جس میں پاکستانی فوج کے 24 اہلکار شہید ہوئے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان نے مختصر عرصے کے لیے نیٹو سپلائی لائنز بند کیں، لیکن آخر کار امریکہ سے تعلقات بحال کیے گئے۔پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ اور دیگر امریکی امداد پر انحصار کرنا پڑا۔ امریکہ اکثر ان مالیاتی اداروں میں اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا ہے، جس سے پاکستان کی معیشت پر امریکی اثرات واضح ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی مالیاتی خودمختاری کو بچانے کے لیے امریکہ کی شرائط ماننی پڑیں۔

پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے اہلکار متعدد مواقع پر کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ خاص کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران، امریکہ نے پاکستان میں اپنے جاسوس اور انٹیلی جنس اہلکار بھیجے اور مختلف مواقع پر پاکستانی قوانین کو نظر انداز کیا۔امریکہ نے ہمیشہ پاکستان پر عسکری اور سفارتی دباؤ ڈال کر اپنے مفادات کو پورا کیا۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ تعلقات، افغانستان کے معاملات اور دیگر امور پر امریکہ کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے ایک پیچیدہ اور نازک موضوع رہے ہیں۔ پاکستانی حکام اور عوام میں یہ عمومی احساس پایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے اور اسے اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ تاہم، مختلف مواقع پر امریکہ کی جانب سے کی گئی مداخلتوں نے پاکستان کی خودمختاری اور آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ پاکستانی حکومتوں کی جانب سے امریکہ کے خلاف سخت بیانات اور دعوے ضرور کیے جاتے ہیں، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ان دعووں میں اتنی مضبوطی نہیں جتنی کہ ہونی چاہیے۔اسامہ بن لادن کا آپریشن، ڈرون حملے، ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ اور افغانستان کی جنگ میں پاکستانی کردار اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکہ نے مختلف اوقات میں پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ ان واقعات سے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کو نقصان پہنچا بلکہ عوام میں امریکی اثر و رسوخ کے خلاف جذبات بھی پروان چڑھے۔ پاکستان کی معیشت اور سیاست پر امریکہ کے اثرات اور سی آئی اے جیسے اداروں کی خفیہ کارروائیوں نے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بھی مشکلات سے دوچار کیا۔مستقبل کے لئے پاکستان کو اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے اور اپنی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لئے مضبوط پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اپنے داخلی و خارجی معاملات میں آزادانہ فیصلے کرنے کے لئے عالمی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔ اس مقصد کے لئے معاشی خود مختاری اور مضبوط دفاعی حکمت عملی کا ہونا ناگزیر ہے تاکہ بیرونی مداخلت کو روکا جا سکے اور پاکستان واقعی ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر اپنی حیثیت کو منوا سکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں