آئندہ سال نئی حکومت کے قیام کیلئےالیکشن کی تیاریوں کاسلسلہ تیزہوگیاہے۔حکومت نے الیکشن کمیشن کومزیدفنڈزجاری کردیئے ہیں جوکہ ایک خوش آئنداقدام ہے۔اب الیکشن کمیشن کوتیزی سے دیگرمراحل طے کرکے شفاف انتخابات کافریضہ اداکرناچاہئے۔ وزارت خزانہ نے آٹھ فروری 2024 کو آئندہ عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو مزید 17 ارب 40 کروڑ روپے جاری کر د یئےہیں۔وزارت خزانہ نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ جولائی 2023 میں بھی الیکشن کمیشن کو 10 ارب روپے جاری کیے گئے تھے اور اضافی فنڈز کے اجرا کے بعد کل 27 ارب 40 کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ وزارت خزانہ الیکشن کمیشن کو درکار فنڈز کی فراہمی کے لیے پرعزم ہے۔پاکستان کے نگران وزیر اطلاعات مرتضٰی سولنگی نے پیر کو واضح کیا کہ آئندہ عام انتخابات منعقد کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کی مالی ضرورت پوری کرنے کے لیے ’کوئی بحران نہیں۔‘ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے درکار فنڈز نہ ملنے پر وزارت خزانہ سیکریٹری عماد اللہ بوسال سے پیر کو ملاقات کی تھی، جس کے بعد حکومت کی طرف سے یقین دہائی کروائی گئی تھی کہ فنڈز جاری کر دیے جائیں گے۔نگران وزیر اطلاعات نے بھی پیر کی شام ایک بیان میں کہا کہ ’وفاقی کابینہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بجٹ ضروریات کے لیے 42 ارب روپے کی منظوری دی تھی۔‘ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے منظور شدہ بجٹ کی رقم میں سے 17.4 ارب روپے جاری کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے اور کمیشن کو جو بھی بجٹ درکار ہو گا، وہ ضرورت کے مطابق جاری کر دیا جائے گا۔الیکشن کمیشن نے آٹھ فروری کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔ مالی وسائل کے حصول کے علاوہ کمیشن کو پرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے حکومت سے سکیورٹی بھی درکار ہے۔سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے پیر کو سیکریڑی داخلہ آفتاب اکبر درانی کو ایک مراسلے میں کہا تھا کہ ملک میں امن و امان کی نازک صورت حال کے پیش نظر پولنگ سٹیشنز پر فوج تعینات کی جائے۔مراسلے کے مطابق الیکشن کے دوران پاکستان آرمی اور سول آرمڈ فورسز کی بطور سٹیٹک اور کوئیک رسپانس فورس تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری مراسلے میں کہا گیا کہ ملک بھر میں اس وقت تین لاکھ 28 ہزار 510 اہلکار دستیاب ہیں جبکہ کل دو لاکھ 77 ہزار 558 اہلکاروں کی کمی ہے۔الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اہلکاروں کی کمی کو پاکستان آرمی اور سول آرمڈ فورسز کے ذریعے پورا کیا جائے۔خیال رہے کہ 3 نومبر کو سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن، 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کے لیے پولنگ کی تاریخ کا اعلان کرتا ہے۔یہ پیش رفت سپریم کورٹ میں ملک میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سامنے آئی تھی، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔قبل ازیں، 17 اگست کو الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے شائع سرکاری نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا، اس تازہ مردم شماری کو پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت نے 10 اگست کو قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے سے چند روز قبل نوٹیفائی کیا تھا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کے لیے فوری طور پر درکار رقم کے اجرا میں تاخیر پر اظہار تشویش کے بعد وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن کو ایک یا 2 روز میں 17 ارب روپے جاری کرنے کی یقین دہانی کرادی تھی۔ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے 51 ارب روپے مانگے تھے لیکن کئی اجلاسوں کے بعد 47 ارب روپے طے پائے جس میں سے 5 ارب روپے گزشتہ مالی سال کے دوران جاری کیے گئے تھے۔جون میں منظور ہونے والے بجٹ میں حکومت نے انتخابات کے لیے 42 ارب روپے مختص کیے تھے، ذرائع کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ سے بار بار رابطہ کیا گیا اور فوری طور پر فنڈز جاری کرنے کے لیے تحریری یاد دہانی بھی کروائی گئی، تاہم کوئی مثبت جواب نہیں ملا، جس پر الیکشن کمیشن نے سیکریٹری خزانہ کو طلب کرلیا تھا۔ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ فنڈز کی تقسیم میں تاخیر پر الیکشن کمیشن کو اس قدر تشویش تھی کہ چیف الیکشن کمشنر نے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ ان سے اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی جائے۔تاہم الیکشن کمیشن کے ایک سینیئر عہدیدارنے بتایا تھا کہ سیکریٹری خزانہ کی یقین دہانی کے بعد وزیراعظم سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 17 ارب روپے کی فوری ضرورت ہے جسے انہوں نے فوری جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 14 نومبر کو لکھا گیا خط 18 نومبر کو موصول ہوا تھا، انہوں نے وضاحت کی تھی کہ فنڈز جاری کرنے کے لیے مختلف سطح پر منظوری درکار ہوتی ہے۔حکومت اورالیکشن کمیشن تواپنافرض اداکرنے میں مصروف ہیں۔اب سیاستدانوں اورعوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے پرامن انعقادکیلئے کرداراداکریں تاکہ ملک وہ قیادت میسرآسکے جوپاکستان کودوبارہ معاشی خوشحالی،امن واستحکام کی جانب لےجاسکے۔
چولستانیوں میں اراضی تقسیم،صرف اعلان نہیں اقدامات بھی
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیرصدارت اجلاس میںصوبائی کابینہ نے چولستان کے بے زمین کاشتکاروں کو سرکاری اراضی الاٹ کرنے کے لئے شفاف قرعہ اندازی کی منظوری دے دی، چولستان میں 3 لاکھ 44 ہزار ایکڑ اراضی بے زمین کاشتکاروں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ہر کاشتکار کو ساڑھے 12 ایکڑ زمین خصوصی امدادی نرخوں پر دی جائے گی۔یہ اعلان خوش آئندہے جسے عملی جامہ پہنانابھی چاہئے۔اس سے قبل بھی سابق وزیراعلیٰ پرویزالٰہی نےچولستان میں کاشتکاروں میں اراضی تقسیم کرنے کااعلان کیاتھا۔ سابق پنجاب حکومت نے چولستان میں 20ہزار مقامی کاشتکاروں کو سرکاری اراضی دینے کا فیصلہ کیا تھا جس میں پانچ سال کے لیے عارضی کاشت کرنے کے لیے 20 ہزار کاشتکاروں کو شفاف طریقے سے اراضی الاٹ کی جا نی تھی۔یہ فیصلہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیاتھا۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے کہاتھا کہ پہلے مرحلے کی الاٹمنٹ کے لیے قرعہ اندازی پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کے ذریعے ہوگی، مزید 5ہزار کاشتکاروں کو دوسرے مرحلے میں چولستان میں عارضی کاشت کے لیے اراضی دی جائے گی۔پرویز الٰہی نے کہا تھاکہ حکومت چولستان کے کسانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گی اور امید ظاہر کی کہ اس اقدام سے علاقے میں زرعی معیشت کو فروغ ملے گا۔انہوں نے کہاتھا کہ ان وسائل پر چولستان کے لوگوں کا بھی برابر کا حق ہے اور چولستان کے بے زمین کسانوں کو اراضی دینے سے ان کا مستقبل روشن ہوگا۔دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ چولستان کے بےزمین افرادآج بھی بدحال ہیں۔انہیں کاشتکاری کیلئے اپنی زمین میسرنہیں۔ہرحکومت انکے مسائل حل کرنے اورزمینیں دینے کااعلان کرتی ہے مگرعمل نہیں کرتی۔چولستان میں قبضہ مافیاسرگرم ہے جواس دھرتی پرآہستہ آہستہ قبضہ کررہاہے۔روزنامہ قوم بھی اس اہم مسئلےپرآوازاٹھاتارہاہے۔محسن نقوی جوکہ محسن سپیڈکے نام سے مشہورہیں انہیں چاہئے کہ اس فیصلے پرفوری عمل درآمدکریں اورشفاف طریقے سے بےزمین کاشتکاروں کوچولستان میں اراضی دی جائے تاکہ یہاں پرفصلیں اگاکرملک کی معیشت میں ا ہم کرداراداکریں اورملک غذا ئی بحران پرقابوپاسکے۔