غیرقانونی تارکین کی وطن واپسی کے فیصلے کے بعدسے ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔ملک دشمن عناصرہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں\۔دوروزقبل26نومبرکوبنوں میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملے میں 2 شہری شہید اور 3 فوجیوں سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 26 نومبر کو موٹرسائیکل سوار خود کش بمبارنے بنوں ضلع کے جنرل علاقے بکہ خیل میں سیکورٹی فورسز کے قافلے کے قریب خود کو دھماکے سے اڑایا جس کے نتیجے میں دو شہری شہید ، سات زخمی اور تین فوجی بھی زخمی ہوئے۔خیبرپختونخوا کے علاقے بنوں میں 26 نومبر کو خود کش دھماکا کرنے والا افغان شہری نکلا۔بیان کے مطابق خود کش بمبار کی شناخت افغان شہری کے طور پر ہوئی جو حافظ گل بہادر گروپ سے وابستہ تھا۔ دہشت گرد کا نام رابن اللہ ولد خانور گل جبکہ اُس کا تذکرہ نمبر 08916164 ہے۔ رابن اللہ 26 نومبر کو افغان شناختی کارڈ پر پاکستان میں داخل ہوا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ علاقے میں پائے جانے والے دیگر دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے سینی ٹائزیشن آپریشن جاری ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز دہشتگردی کی لعنت ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔یادرہے کہ پاکستان کے علاقے چترال پر کچھ عرصے پہلے طالبان نے بڑا حملہ کیا۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے جوابی کارروائی ہوئی مگر خوف کی ایک لہر پھیلی کہ کہیں پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں تو نہیں آنے لگا۔گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کے ساڑھے چار سو سے زیادہ واقعات ہو چکے ہیں۔ دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں ؟ کیا پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے اُسی دور میں جا رہا ہے جہاں آئے دن دہشت گردی کے واقعات ہوا کرتے تھے؟۔یہ وہ سوالات ہیں جوہرشہری کوخوفزدہ کررہے ہیں۔چندروزقبل شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے حملے میں ایک ڈرائیور اوردو سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے جبکہ نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے10افراد بھی زخمی ہوئے، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے مطابق اِس جھڑپ میں ایک دہشت گرد بھی مارا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درا زندہ میں نامعلوم دہشت گردوں نے آئل کمپنی کے قافلے پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا۔گذشتہ ایک ماہ میں سکیورٹی اداروں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔3نومبر کو بلوچستان کے علاقے پسنی اور ماڑہ میں دہشت گردوں کے حملے میں 14اہلکار شہید ہو گئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پسنی سے اوماڑہ جانے والی سکیورٹی فورسز کی دو گاڑیوں پر دہشت گردوں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔حملہ آوروں نے گاڑیوں پر راکٹ کے گولے داغے جس سے گاڑیوں کو آگ لگ گئی اور اتنا جانی نقصان ہوا۔6نومبر کو خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت پاک فوج کے چار اہلکار شہید ہوئے تھے،علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن جاری تھا کہ انہوں نے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کر دی، جوابی کارروائی میں تین دہشت گرد مارے گئے تھے جبکہ تین دہشت گردوں کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا تھا۔اِس سے ایک روز قبل5نومبر کو پنجاب کے شہر میانوالی میں پاکستان فضائیہ کے تربیتی ایئر بیس پر دہشت گردوں نے نہایت منظم انداز میں حملہ کیا تھا تاہم پاکستان کے بہادر محافظوں نے اِس حملے کو ناکام بنا دیا تھا اور نو حملہ آور مارے گئے تھے۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹیڈیز(سی آر ایس ایس) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں رواں سال ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال دہشت گردوں کے حملوں اور تصادم سے282 سکیورٹی اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔اِس سے قبل خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں ہونے والے حملے میں دو جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دیسی ساختہ دھماکے میں ایک فوجی اہلکار شہید ہوئے۔پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر کے پیچھے کون کون سے محرکات ہیں، اِن حملوں میں تیزی کیوں آئی اوراِس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو اِس وقت ہر پاکستانی کے ذہن میں سر اُٹھا رہے ہیں۔ایسے وقت میں جب ملک میں بہتری آنے کی اُمید پیدا ہوئی ہے، دہشت گردی میں اضافہ مشکلات بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔ عام انتخابات قریب آ رہے ہیں،الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی تاریخ کے اعلان کے بعد سیاسی سرگرمیاں میں تیزی آ رہی ہے۔انتخابات کے اعلان نے گو مگو کی صورتحال کو ختم کیا ہے، شکوک کے بادل چھٹنے کے بعد سیاسی عمل شروع ہوا ہے ملک معاشی بہتری کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔ بے شک معیشت مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی، بحران ختم نہیں ہوا ہے لیکن کچھ معاشی اشاریے بہتری کی نوید بہرحال سنا رہے ہیں، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات بھی مثبت سمت میں چل رہے ہیں اور اُمید کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو نہ صرف سات کروڑ ڈالر کی قسط مل جائے گی بلکہ آئندہ منتخب ہو کر آنے والی حکومت کو مالیاتی ادارے سے نیا پروگرام لینے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشی اور سیاسی معاملات میں یہ بہتری ملک دشمن عناصر سے ہضم نہیں ہو رہی،وہ اِس تاک میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے بڑھتے قدم روکے جا سکیں۔ بہت کچھ ہو رہا ہے، غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔نیشنل ایکشن پلان کی شقیں عملدرآمد کی منتظر ہیں،سینیٹ مطالبہ کر رہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کا قیام ضروری ہے تاکہ دہشت گردوں کو فوری عدالتی کارروائی کے ذریعے انجام تک پہنچایا جائے۔ افغانستان میں قائم حکومت کو مستحکم کرنے میں پاکستان کا اہم ترین کردار ہے لیکن افغان حکومت دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے میں کامیاب نظر نہیں آتی، اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے پاکستان مخالف قوتوں کی سرکوبی کرنی چاہئے۔بھارت ایک عرصے سے پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی آبیاری کر رہا ہے، نجانے کلبھوشن جیسے کتنے کردار پاکستانی معاشرے میں بدامنی کا زہر پھیلا رہے ہیں،اِن تمام حالات کے باوجود پاکستان کی سکیورٹی فورسز چاک و چوبند ہیں،حملہ آوروں کا تندہی سے مقابلہ کر رہی ہیں۔پاکستان تقریباً گذشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے،جب بھی لگتا ہے کہ اب بہتری آنے والی ہے دہشت گردی زور پکڑ جاتی ہے لیکن اِس کے باوجود پاکستانی قوم کے حوصلے بلند ہیں، تمام تر مصائب کے باوجود اچھے دِنوں کی آس موجود ہے۔ملک دشمن عناصر اُمید کے دیے کی لو بجھانے کی جتنی مرضی کوشش کر لیں وہ اِس میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔محب وطن حلقےحکومت اوراپنےعسکری اداروں سے امیدرکھتے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوارثابت ہونگے اورملک کاامن وامان خراب ہونے نہیں دینگے۔یہ ملک اللہ کےنام پربناہے اورتاقیامت قائم رہےگا۔ان شااللہ
