ملتان (سٹاف رپورٹر) ’’خص کم جہاں پاک‘‘ انتہائی باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے ہم جنس پرست وائس چانسلر ڈاکٹر رمضان کی اپنے ہی باورچی کے ساتھ قابل اعتراض فحش ویڈیو کو پنجاب فارنزک سائنس لیبارٹری نے اوریجنل قرار دے دیا ہے اور انہی ذرائع کے مطابق غیر اخلاقی ویڈیو کے حقیقی ثابت ہونے کے بعد ڈاکٹر رمضان نے ایک ماہ کا نوٹس پیریڈ دیتے ہوئے 21 ستمبر سے اپنے عہدے سے استعفیٰ کے ساتھ ایک ماہ کی چھٹی کی درخواست بھی اعلیٰ حکام کو بھجوا دی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے روزنامہ قوم نے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان کے مکروہ کردار کو بے نقاب کیا تھا اور اعجاز حسین نامی ان کے باورچی نے روزنامہ قوم کے دفتر میں اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کے ہمراہ دہائی دیتے ہوئے اس کے جنسی ظلم بارے آگاہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر رمضان کس طرح انہیں مسلسل دو سال سے اپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لیے استعمال کر رہے ہیں جبکہ ان کے مطالبات اب بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اپنی اہلیہ اور 14 سالہ بیٹی کی میرے لیے ذہن سازی کرو۔ اعجاز حسین نے روزنامہ قوم کے دفتر میں اسٹامپ پیپر پر اس ساری مکروہ ترین صورتحال پر مبنی ایک تحریر بھی لکھ کر دی تھی جس میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ڈاکٹر رمضان اسکی اور اس کے بچوں کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اعجاز حسین ہی نے ڈاکٹر رمضان کی مذکورہ ویڈیو ثبوت کے طور پر بنائی اور روزنامہ قوم کے چیف ایڈیٹر کے حوالے کی تھی۔ اعجاز حسین نے یہی ویڈیو اس سے قبل ملتان کے ایک سیاستدان اور زکریا یونیورسٹی کے لودھراں کیمپس کے انچارج کو بھی دکھائی تھی جو کہ ڈاکٹر رمضان کے بہت قریبی دوست ہیں اور بعد ازاں اعجاز حسین ہی نے یہی ویڈیو مختلف سرکاری اداروں کو بھی فراہم کر دی تھی۔ روزنامہ قوم مختلف اور مصدقہ شکایات کے بعد گزشتہ چھ ماہ سے ڈاکٹر رمضان کے کرتوت مسلسل بے نقاب کرتا آ رہا تھا اور یہ بھی روزنامہ قوم لکھ چکا ہے کہ ڈاکٹر رمضان میرٹ کے صریحاً خلاف وائس چانسلر بھرتی ہوئے ہیں جبکہ وہ کبھی بھی تعلیمی انتظامی امور کا حصہ نہیں رہے اور نہ ہی انہوں نے کسی بھی قسم کے اعلیٰ سطحی تدریسی عمل میں حصہ لیا ہے کہ وہ محض ایک لائبریرین ہیں اور وہ اس سے قبل بھی لاہور کی ایک معروف یونیورسٹی لمز کے علاوہ ایک اور تعلیمی ادارے میں جنسی ہراسمنٹ میں ملوث ہونے کی بنا پر بعد از تحقیقات ملازمت سے نکالے جا چکے ہیں مگر حیران کن طور پر پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے بنائی گئی سرچ کمیٹی کے علاوہ تحقیقاتی ایجنسیوں اور خفیہ اداروں کو بھی دھوکا دینے میں کامیاب رہے اور اپنی 65 سالہ عمر پوری ہونے سے صرف ایک روز قبل ایمرسن یونیورسٹی ملتان میں وائس چانسلر کی اسامی کے لیے امیدواروں کی فہرست میں شامل ہو گئے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے وقت سے پہلے جلدی میں اخباری اشتہار بھی مل ملا کر شائع کرا دیا تاکہ 65 سال عمر کی حد پوری ہونے سے پہلے وہ وائس چانسلر شپ کے لئے اہل ہو کر درخواست دے سکیں اور وائس چانسلرز کی تعیناتی کی دوڑ میں شامل ہو سکیں کیونکہ باقی معاملات ان کے پہلے سے ہی طے ہو چکے تھے اور جس وقت انہوں نے ایمرسن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے اپلائی کیا تو اسی وقت یہ بات زبان زد عام تھی کہ ڈاکٹر رمضان ہی ایمرسن یونیورسٹی کے اگلے وائس چانسلر ہوں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ڈاکٹر رمضان نے ایمرسن یونیورسٹی میں تین سال کے دوران کرپشن، اقربا پروری اور اپنی گجر برادری کے لوگوں کو بھرتی کرنے کے حوالے سے میرٹ کے ساتھ اتنا کھلواڑ کیا کہ ملتان میں ایمرسن یونیورسٹی کو گجر کھڈا کہا جانے لگا۔ یونیورسٹی میں ملازمتوں کے کھلے عام سودے ہوتے رہے جس کی ریکارڈنگ بھی لوگوں کے پاس محفوظ تھی اور مختلف لوگ یہ ریکارڈنگ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھی بھجواتے رہے مگر حیران کن طور پر ڈاکٹر رمضان ہر طرح کی کارروائی سے محفوظ کیے جاتے رہے۔ انہوں نے ملتان میں باقاعدہ تاجروں، صنعت کاروں حتیٰ کہ ایمرسن ایلومینائی کے ممبران سے بھی چندے کے نام پر بھتہ خوری شروع کر رکھی تھی اور وہ ’’کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘‘ کے فارمولے پر دھڑلے سے عمل کر رہے تھے۔ انہوں نے تعلیمی اور تدریسی کے علاوہ انتظامی لحاظ سے محض تین سال میں یونیورسٹی کو برباد کر دیا تھا اور ان کے خلاف درجنوں شکایات اعلیٰ حکام حتیٰ کہ گورنر پنجاب تک بھی جاتی تھیں مگر حیران کن طور پر وہ کسی بھی طرح کی کارروائی سے محفوظ رہتے تھے۔ طلبا و طالبات، اساتذہ اور شہری حلقوں کی مسلسل شکایات پر روزنامہ قوم نے ڈاکٹر رمضان کی سیاہ کاریوں اور کرپشن کو اخبار میں تسلسل سے چھاپنا شروع کیا تو لوگوں میں حوصلہ ہوا اور متعدد لوگ ڈاکٹر رمضان کی کرپشن اور کردار کے حوالے سے شکایات لے کر روزنامہ قوم کے دفتر آنے لگے حتیٰ کہ ان کی جنسی بے راہ روی کا مسلسل شکار ان کا اپنا ہی باورچی اعجاز حسین بھی ویڈیو اور مصدقہ ثبوت لے کر روزنامہ قوم کے دفتر آ گیا اور اس کی فراہم کردہ ویڈیو و ثبوت ڈاکٹر رمضان کی وائس چانسلر شپ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے اور بالآخر ڈاکٹر رمضان نامی اس غلاظت سے ایمرسن یونیورسٹی کی جان جلد اگلے ماہ چھوٹ رہی ہے۔ یاد رہے کہ صوبائی وزیر تعلیم نے جمعہ کے روز لاہور میں ہونے والی سنڈیکیٹ کی میٹنگ میں ڈاکٹر رمضان کو سخت ڈانٹ پلائی تھی اور ان کی طرف سے یونیورسٹی میں کی جانے والی تمام تر بھرتیوں اور دیگر اقدامات کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ڈاکٹر رمضان کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے ان کی سوشل میڈیا پر موجود فحش ویڈیو کا بھی آڈٹ کرانے کا حکم دیا تھا۔
آئین یا ہائر ایجوکیشن قوانین میں ایک ماہ کے نوٹس پر استعفیٰ دینے کا کوئی تصور نہیں
ملتان (وقائع نگار)قانونی وتعلیمی ماہرین کے مطابق ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان کے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو ایک ماہ بعد اپنا استعفیٰ دینے کے حوالے سے نوٹس غیر قانونی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے آئین یا ہائر ایجوکیشن کے قوانین میں ایک ماہ کے نوٹس پر استعفیٰ
دینے کا کوئی تصورموجود نہیں ہے اور یہ اقدام یونیورسٹی کی انتظامیہ اور تعلیمی عمل کو مزید انتشار کا شکار کر سکتا ہے۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر رمضان ایک ماہ کے دوران غیر قانونی تقرریوں کو قانونی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔اس وقت یونیورسٹی میں داخلے کا عمل جاری ہے اور وائس چانسلر کے ایک ماہ بعد استعفیٰ دینے کے اعلان کی وجہ سے طلبہ اور فیکلٹی ممبران میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ ایک طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ وقت داخلے کا ہےاور انتظامی انتشار کی وجہ سے ہمارے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ فیکلٹی کے ایک ممبر نے کہا کہ غیر قانونی نوٹس کی مہلت سے یونیورسٹی کی انتظامیہ کمزور ہو جائے گی اور یہ وقت تعلیمی سرگرمیوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔سکینڈل اور استعفیٰ کے اعلان نے سنگین سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
استعفیٰ نوٹس
ایمرسن یونیورسٹی میں امام مسجدکی تعیناتی بھی خلاف میرٹ نکلی
ملتان (وقائع نگار) ایمرسن یونیورسٹی میں غیر قانونی تشکیل شدہ سلیکشن کمیٹی نے خلاف میرٹ ا ما م مسجد کی تعیناتی کے متاثرہ امیدوار حافظ شکیل احمد نے انصاف کے حصول کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب ،سیکرٹری ایجوکیشن اور ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب کو درخواست دے دی ۔درخواست میں حافظ شکیل احمد نے الزام عائد کیا ہے کہ سلیکشن کمیٹی نے میرٹ کی خلاف ورزی کی ہے اور منتخب امیدوار کی تعلیمی قابلیت ان کی اپنی قابلیت سے کم ہے جو کرپشن اور اقربا پروری کی واضح مثال ہے۔حافظ شکیل احمد کا دعویٰ ہے کہ منتخب امیدوار کی تعلیمی قابلیت میٹرک سے ایم اے تک سیکنڈ ڈویژن ہے جبکہ ان کی اپنی قابلیت میٹرک سے ایم فل تک فرسٹ ڈویژن ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سلیکشن کمیٹی میں امام مسجد کی اسامی کے لیے کسی بھی متعلقہ ایکسپرٹ کو شامل نہیں کیا گیاجو یونیورسٹی کے قوانین اور ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ مزید برآںیہ کمیٹی یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے فیصلوں اور سٹیچوز سے بھی متصادم ہے۔”یہ میرٹ کی دھجیاں اڑانے، کرپشن اور اقربا پروری کے واضح ثبوت ہیں، انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کی فوری تحقیقات کی جائیں اور غیر قانونی سلیکشن کو منسوخ کرکے میرٹ کی بنیاد پر نئی تقرری کی جائے۔ تعلیمی حلقوں میں اس شکایت نے بحث چھیڑ دی ہےجہاں کئی ماہرین نے میرٹ کی خلاف ورزی کو اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں بڑھتی ہوئی کرپشن کا حصہ قرار دیا ہے۔وزیر اعلیٰ آفس نے درخواست موصول ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ معاملے کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو سخت کارروائی کی جائے گی۔
قوم‘‘ وی سی ڈاکٹراطہرمحبوب اوراخترکالروکی کرپشن بھی بےنقاب کرچکا


ملتان (سٹاف رپورٹر) ایجوکیشن میں گھسے ہوئے مافیا کو روزنامہ قوم ابتدائی ایام ہی سے بے نقاب کرتا آ رہا ہے۔اس سے قبل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب اور این ایف سی یونیورسٹی کے ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر علی کالرو کی تعلیم اور علم دشمنی اور مالی کرپشن کو بے نقاب کر چکا ہے۔ یاد رہے کہ روزنامہ قوم ہی کی کوششوں سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور این ایف سی یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلرز کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ الحمدللہ اب روزنامہ قوم نے ڈاکٹر رمضان کی شکل میں ایجوکیشن جیسے معزز محترم اور پیغمبرانہ پیشہ میں چھپے ہوئے جنسی بھیڑیے کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ انہیں بھی مسلسل جدوجہد سے بالاخر مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ روزنامہ قوم اس سلسلے میں صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کا خاص طور پر ممنون اور مشکور ہے کہ انہوں نے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے غلاظت کو پاک کرنے کے حوالے سے جو عزم کر رکھا تھا اسے ایمرسن یونیورسٹی کی حد تک پورا کر دیا اور یہ محض ایک یونیورسٹی یا ایک وائس چانسلر کا معاملہ نہیں، اس اقدام سے بہت سے وائس چانسلرز اور یونیورسٹیوں کے انتظامی افسران محتاط ہو گئے ہیں جن کی روزنامہ قوم کے پاس مصدقہ معلومات بھی ہیں۔