الزامات کا چکر، جب سیاست دان اور طاقتور حلقے ایک دوسرے کے آئینے بن جاتے ہیں

پاکستان کی سیاست میں الزامات، جوابی الزامات، ماضی کی تلخیوں اور مستقبل کے خوف کا جو مسلسل بہاؤ جاری ہے، اس نے جمہوری ڈھانچے کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے ذہنوں میں شدید بے یقینی بھی پیدا کر دی ہے۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کا تازہ بیان اسی بکھری ہوئی سیاسی فضا کی تازہ مثال ہے، جس میں انہوں نے 2018ء میں عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں کو ’’اصل مجرم‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف احتساب کا مطالبہ کیا۔ یہ بیان محض سیاسی ردعمل نہیں بلکہ اس وسیع تر مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے جو پاکستان کی سیاست کو دہائیوں سے جکڑے ہوئے ہے: سیاست دان اقتدار میں آنے کے لیے انہی غیر منتخب طاقت کے مراکز پر بھروسہ کرتے ہیں جن پر بعد میں آمریت، غیر آئینی مداخلت اور جمہوریت شکنی کے الزامات لگاتے ہیں۔نواز شریف کی بات اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کا ’’کردار‘‘ وہ عمران خان کے پس پشت موجود طاقتور حلقوں کو قرار دے رہے ہیں، انہی حلقوں نے انہیں بھی تین عشروں میں کم از کم چار مرتبہ سیاسی بلندیوں تک پہنچایا۔ تاریخ کو دیکھیں تو 1980ء کی دہائی کے ابتدا میں جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا کے زیر سایہ ہونے والے غیر جماعتی انتخابات وہ پہلی سیڑھی تھے جس پر چڑھ کر نواز شریف صوبائی وزیر خزانہ بنے۔ 1985ء کی اسمبلی کی تشکیل بھی طاقت کے غیر منتخب مراکز کے مکمل انتظام کے تحت ہوئی اور نواز شریف اسی انتظام کی پیداوار کا حصہ بنے۔ بعد ازاں 1988ء کے سیاسی اتحاد ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ کا قیام بھی قومی سطح پر ایک سنگین سیاسی انجینئرنگ تھی جس کے ذریعے نواز شریف دوبارہ طاقت میں لائے گئے۔ پھر 1990ء میں صدر ہاؤس، جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کی ملی بھگت سے وہ وزیراعظم بنے۔ 1997ء کا انتخاب بھی اسی سلسلے کا ایک تازہ باب تھا جس کے نتیجے میں انہیں دو تہائی اکثریت ملی۔یہی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں وہی دعوے دہراتے ہیں جو ان سے پہلے سیاست دان دہراتے رہے۔ ہر نئی سیاسی قیادت ابتدا میں اُسی انجینئرنگ کی بیٹی ہوتی ہے، جسے بعد میں وہ جمہوریت کے خلاف ’’سازش‘‘ قرار دیتی ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دائرے میں گھمایا رکھا ہے۔ ایک جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو مداخلت کو جمہوریت دشمنی کہتی ہے، اقتدار میں آتے ہی اُسی مداخلت کو ’’ضروری قومی تحفظ‘‘ قرار دیتی ہے۔ یہی روایت پاکستان کو بار بار سیاسی بحرانوں میں دھکیلتی رہی ہے۔نواز شریف کا یہ کہنا کہ ’’عمران خان اکیلا مجرم نہیں، اسے اقتدار میں لانے والے زیادہ بڑے مجرم ہیں‘‘ اس صورتِ حال کا محض ایک رخ ہے۔ اگر منطق یہی ہے، تو پھر تحریک انصاف اور عمران خان کے حامی اس وقت پورے استدلال کے ساتھ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ نواز شریف سمیت وہ تمام طاقتور شخصیات بھی احتساب کے دائرے میں آئیں جنہوں نے انہیں اقتدار تک پہنچنے میں مدد دی۔ اصول تو یہ ہے کہ اگر ایک سیاسی جماعت کو انجینئرنگ سے اقتدار ملا تو دوسری جماعت کو بھی اسی طریقے سے۔ مگر اصول پاکستان میں ہمیشہ کمزور ثابت ہوتا ہے، مفاد اصل قوت بن جاتا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی قیادتیں ہمیشہ ’’سہارا‘‘ تلاش کرتی رہی ہیں۔ عوام کے حقیقی مینڈیٹ پر کم بھروسہ اور طاقتور حلقوں کے فیصلوں پر زیادہ انحصار۔ جب سیاسی نظام کی بنیاد ہی بیرونی سہاروں پر ہو تو پھر ہر پانچ دس سال بعد ہلچل مچ جاتی ہے۔ کبھی کسی کو ’’محسن‘‘ قرار دیا جاتا ہے، کبھی کسی کو ’’دشمن‘‘۔ کبھی کسی کو ’’ہیرو‘‘ اور کبھی ’’غدار‘‘۔ مگر عوام کے بنیادی مسائل—مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، انصاف کی عدم فراہمی، ادارہ جاتی عدم توازن—یہ سب وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔نواز شریف نے اپنے خطاب میں 2018ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک ترقی کی راہ پر تھا، معیشت بہتر تھی، افراطِ زر کم تھا، مگر عمران خان کے اقتدار میں آنے سے سب کچھ برباد ہو گیا۔ یہ بات ایک پہلو سے سچ بھی ہو سکتی ہے، مگر سیاسی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ نواز شریف خود بھی یہ سوال اٹھائیں کہ 1990، 1997 اور 2013ء میں جو انتخابی تنازعات ان کے ساتھ نتھی رہے، ان کے اصل محرکات کیا تھے؟ کیا وہ بھی اسی طاقت کا نتیجہ نہیں تھے جسے آج وہ عمران خان کے پیچھے کھڑا بتا رہے ہیں؟اسی طرح نواز شریف کا یہ کہنا کہ ’’آئی ایم ایف نے ہمیں اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کے قابل نہیں چھوڑا‘‘ درست ہے۔ مگر کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ 2013ء میں انہی کی حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے؟ یا یہ بھی حقیقت نہیں کہ آپ نے ان پالیسیوں کو چیلنج کرنے کے بجائے انہیں مزید مضبوط کرنے میں کردار ادا کیا؟ پاکستان کا معاشی بحران کسی ایک دورِ حکومت کی پیداوار نہیں، بلکہ مسلسل غلط سمتوں میں چلنے والی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔نواز شریف نے اپنی حکومتوں کے ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے ’’سوترہ پنجاب‘‘، کم لاگت رہائشی منصوبوں، سبز بسوں اور طلبہ سکیموں کو اپنی کارکردگی کا ثبوت قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں کئی ترقیاتی منصوبے بنے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان منصوبوں نے نظام کی اصلاح میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا کی؟ کیا صحت، تعلیم، مقامی حکومتوں اور عوام کی نمائندگی کے نظام کو مضبوط کیا گیا؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ترقیاتی منصوبے محض نمائشی اقدامات ہی کہلائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں سڑکیں بن جاتی ہیں، لیکن گورننس کا بحران وہیں رہتا ہے۔اگر پاکستان کے سیاست دان واقعی ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے خواہاں ہیں تو پہلے انہیں اپنے بیانات اور اپنے ماضی کے درمیان تضاد ختم کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ جس ’’غیر منتخب طاقت‘ پر وہ آج تنقید کرتے ہیں، کل اسی کے کندھوں پر کھڑے ہو کر انہوں نے اقتدار حاصل کیا تھا۔ پاکستان کے سیاسی بحران کا اصل حل اسی وقت ممکن ہے جب طاقت کا غیر رسمی ڈھانچہ ختم ہو، سیاسی عمل شفاف ہو، اور انتخابات کسی بھی قسم کی مداخلت سے پاک ہوں۔پاکستان کو ذمہ دار قیادت چاہیے، ایسی قیادت جو عوام کے مسائل کو ذاتی انا سے زیادہ اہمیت دے۔ جسے اقتدار کی خواہش سے زیادہ ادارہ جاتی استحکام کی فکر ہو۔ جو ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرے اور مستقبل کے لیے نئے باب لکھے، نہ کہ الزامات کے گھومتے ہوئے دائرے میں بار بار واپس جائے۔اگر سیاست دان واقعی ’’احتساب‘‘ چاہتے ہیں، تو پھر احتساب سب کا ہونا چاہیے—سیاست دانوں کا، طاقتور حلقوں کا، ریاستی اہلکاروں کا، اور اس پورے سیاسی ڈھانچے کا جس نے پاکستان کو دہائیوں سے غیر یقینی کی کھائی میں دھکیلا ہوا ہے۔ورنہ یہ دائرہ اسی طرح گھومتا رہے گا… اور پاکستان عوامی جمہوریت سے ہمیشہ ایک قدم پیچھے ہی رہے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں